• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شاعری خداداد صلاحیت ہے کہ اللہ جسے چاہے، یہ فن عطا فرماتا ہے۔پھر یہ انسان کے اپنے اُوپر بھی منحصر ہے کہ وہ کسی ماہر شاعر کو اپنا اُستادبنا کر بتدریج یہ فن سیکھے ۔جس طرح دیگر علوم وفنون سیکھے ، کسب اوردرک کیے جاتے ہیں، اُسی طرح شاعری کا فن بھی انسان بقدرِ ذوق و شوق ہی سیکھتا ہے۔ اب جس میں جس قدر لگن، دل چسپی، انہماکِ قلبی ہوگا، اُسی قدر جلد وہ یہ ہُنر سیکھ سکے گا۔یہاں تک کہ ایک طویل ریاضت اورشب و روز محنت ِشاقہ کے بعدبا لآخر وہ وقت آجاتا ہےکہ جب کوئی اُستاد اپنے شاگرد کو ’’فارغ الاصلاح‘‘ قرار دے دیتا ہے۔

یہ ایک علیحدہ بات ہے کہ لائق ترین شاگرد ،فارغ الاصلاح قرار دئیے جانے کے کافی عرصے بعد تک اپنا کلام اُستادِ محترم کو یہ کہہ کر دِکھاتے رہتے ہیں کہ ’’ابھی ہم سمجھتے ہیں کہ اصلاح کی ضرورت ہے ۔‘‘بہر طور،شاگرد کے لیے وہ لمحات یادگاراور پُر بہار رہتے ہیں۔ گویا سند مل گئی ہو،واضح رہے،کسی شاعر کے لیے فارغ الاصلاح قرار دیا جانا ڈاکٹریٹ کی سند سے کم نہیں ہوتا۔

بلگرام، ایک مردم خیز قصبے، لکھنؤ کے شمال مغرب سے115کلو میٹر کے فاصلے پر ضلع ہر دوئی کے قریب ریاست اُتر پردیش(یو پی ) میں واقع ہے۔ بلگرام کی عالمی سطح پر پہچان بننے والی شخصیات میں ایک بڑا نام عظمتؔ بلگرامی کا بھی ہے ۔ آسمانِ شعرو ادب کے درخشندہ ستارے ،الفاظ اور جذبوں کی آب رُو،عمدہ اقدار و روایات کے امین ،زندگی برائے بندگی کے علَم بردار اور دبستانِ لوح و قلم سوسائٹی کے سیکریٹری جنرل ، سیّد حیدر عبّاس رضوی، المتخلص عظمتؔ بلگرامی نےشعرو ادب کے ذریعے جو اچھائیاں، نیکیاں، بھلائیاں اور خیرو خوبیاں معاشرے میںعام کرنے کی سعی کی، اللہ انہیں اُس کا بہترین اجرو ثواب دے، آمین۔

ان کے متعدّد شعری مجموعے زیورِ طباعت سے آراستہ ہوئے، جن میں ’’بارگاہِ غزل،جمال پیکر،حُسنِ ناطق،کوکبِ زرّیں، بارگاہِ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا، بارگاہِ ابو طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ،قیمتی شخصیات(نثری مجموعہ)‘‘وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔دو شعری مجموعے( ایک رثائی ادب اور ایک غزلیات پہ مشتمل) زیرِ طبع ہیں۔ انہوں نے پہلا شعر1955ء میں کہا تھا؎آتشِ غم ہے دل میں ہویدا، آنچ نکلتی رہتی ہے …شام و سَحرکی مشکلیں کیا،اِک شمع سی جلتی رہتی ہے۔ عظمت بلگرامی کی تعلیم ایم اے اُردو تھی۔1970ء کے عشرے میں انہوں نے کراچی میں ادبی تنظیم ،دبستانِ لوح وقلم قائم کی بنیا درکھی اور اِس کے زیرِ انتظام متعدّد عالمی مشاعرے اور دیگر ادبی و علمی تقریبات منعقد کروائیں۔پاک و ہند کے عوام کو قریب لانے اورشعرو ادب کے فروغ پرانہیں کئی ایوارڈز سے بھی نوازا گیا، لیکن عظمت بلگرامی کا سب بڑا اعزاز درِاہلِ بیت کی گدائی اور مدحِ محمدؐوآلِ محمدؐ ہے۔

صاحبِ فن شخصیت، عظمتؔ بلگرامی دِینی شاعری کے حوالے سے تو پہچان رکھتے ہی تھے، لیکن اس میں بھی کوئی دورائے نہیں کہ انہوں نے اعلیٰ درجے کی غزلیات کہیں ، جن میں بہت عمدہ پیغامات پوشیدہ ہیں۔ مثلاً غزل کے اِن دو خوب صورت اشعار میں آپ نے کیا عمدہ خیال پیش کیا ہے؎آپ حالات کے ماروں پہ نظر رکھتے ہیں…لوگ کم ہیں جو یہ بے مِثل ہُنر رکھتے ہیں…ہم تو نادان ہیں عظمتؔ کہ تخلّص کے اسیر…دُھوپ میں جلتے ہیں، پہلو میں شجر رکھتے ہیں۔ عظمتؔ بلگرامی کی دِینی اور مذہبی شاعری میں خاص بات ان کا ہم واراورپختہ عقیدہ ہے۔ ان کی شاعری پڑھنے کے بعد قاری اِس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ بقول حضرتِ مظفر حُسین شاداںؔ دہلوی ؒانہوںنے اِسی کُلیےپہ مِن و عن عمل کیا ؎امانتوں میں نہ زِ نہار خُوردبرد کرو…غمِ حسینؓ نئی نسل کے سپرد کرو۔

اللہ پاک نے سیّد حیدر عبّاس رضوی عظمتؔ بلگرامی کو پانچ بیٹوں سے نوازا۔سب سے بڑے بیٹے،سیّد مسعود عبّاس رضوی ، حکومتِ پاکستان کے اعلیٰ عہدے دار ہیں، دوسرے فرزند سیّد منصور عبّاس رضوی ، سیکریٹری لاء کے عہدے پر فائز ہیں، تیسرے فرزند،ڈاکٹر سیّدمحمد عبّاس رضوی المتخلص عبّاس شہیرؔ ،عمدہ شاعر ہونے کے ساتھ محکمۂ پولیس میں اعلیٰ عہدے پر فائز ہیں، چوتھے فرزند، ڈاکٹرسیّد ظفر عبّاس رضوی ،ایک سرکاری اسپتال کے اعلیٰ منصب دار ہیں اور پانچویں فرزند، ڈاکٹر سیّد قمر عبّاس رضوی ، شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ محکمۂ پولیس میں اعلیٰ عہدے پر فائز ہیں۔علم و عمل، اَخلاق و کردار، انسانیت اور خوش اطواری میں صاحب زادوںمیں والد کا اثر غالب ہے ۔عظمت بلگرامی کا خاندان، جیّد علمائے کرام، ادباء، شعرائے عظّام، عظیم شخصیات اوراعلیٰ سرکاری عہدے داروں کا خاندان ہے ۔

انہیں ہندوستان کی مرکزی حکومت کی جانب سے لکھنؤ کے گورنرنے رثائی ادب کے شعبے میں نمایاں خدمات کے اعتراف میں ایوارڈ بھی پیش کیا۔اُن کا یہ شعر بھی اُن کی فنی عظمت کا آئینہ دار ہے؎شکرِ ربّ، صبرِ ستم، قوّتِ برداشت کی حد…اور کیا ہوگا کسی صاحبِ کردار کے پاس۔پھر یہ چار مصرعے بھی مثالی فِکر رکھتے ہیں؎بحرِ دانش کے شناور ہی کو دُر کہتے ہیں… ادبِ ہند میں اِس لفظ کو کُر کہتے ہیں…فکر کی آخری منزل سے بھی بالا ہے علیؓ…فکر کی آخری منزل کو تو حُر کہتے ہیں۔

اسی طرح ’’بارگاہِ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ‘‘میں ایک رُباعی میں آپ نے کیا خوب پیغام دیا ؎مدارِ زیست پہ اب حق کی حکمرانی ہے…حسینی ؓ عزم سے پتھر کا دل بھی پانی ہے…یہ ہم جو ڈرتے نہیں ہیں کسی یزید سے آج…یہ حُر کے جذبۂ محکم کی اِک نشانی ہے۔ نیز،حالاتِ حاضرہ کے حوالے سے ان کے یہ چار مصرعے بھی حقیقت کی بھرپورعکّاسی کرتےہیں؎ختم الرّسلؐ پہ خُوں کا خلاصہ لگا دیا…اسلام پر علیؓ نے اثاثہ لگا دیا…تحریر کرکے مالکِ اشترؓ کو ایک خط…مُسلم حکومتوں پہ طمانچہ لگا دیا۔

ایک اور جگہ کیا خُوب کہا کہ ؎جبینِ زِیست پہ لکھ دے کوئی زمانے کی… پسند رب کو ہے قربت اِسی گھرانے کی…سِوائے سنگِ درِ اہلِ بیتِ پاکِ رسولؐ…جگہ ملی نہ فرشتوں کو سر جھکانے کی۔پھرنعتِ رسولِ مقبول ﷺکے یہ اشعاربھی اپنی مثال آپ ہیں؎نعت لکھنا ہے یمِ شوق کا ساحل تو ملے…کشتیِ شب کو رِدائے مہِ کامل تو ملے…لُغَتِ عِلم کے اوراق ہیں اِس فکر میں غرق …لفظ کوئی شہِ لولاکؐ کے قابل تو ملے۔’’کعبہ اُسی کی ذات کو محوِ سلام ہے‘‘اِس مصرعِ طرح پہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے حضور عظمتؔ بلگرامی نے اشعار کا ایک خوب مہکتا گُل دستہ سجایا، تو’’کربلا اب بھی ہے تاریخ کی رفتار کے ساتھ‘‘اِس تاریخی مصرعِ طرح پر بھی سلام کے کچھ اشعار عظمتؔ بلگرامی مرحوم و مغفور کو یقینا ًہمیشہ زندہ رکھیں گے۔؎مُتصادم جو ہوا قسمتِ بیدار کے ساتھ…زندہ وہ رہ نہ سکا حالتِ ہم وار کے ساتھ…حجلۂ رُوح میں خوشبوئے طہارت کے لیے…مَیں توصدیوں سے ہوں اِک کنبۂ اطہارؓ کے ساتھ…اب نہ اندیشۂ زنداں ہے، نہ زنجیر کا رقص…غمِ شبّیرؓ تواتُر سے ہے ادوار کے ساتھ…اب کسے دعوتِ قولِ نبویؐ دیتا ہے تُو…اہلِ دل کھیل چُکے عشق کی تلوار کے ساتھ…صحنِ قرطاس میں نظروں سے گِرا دے گا قلم… گُل کو بھولے سے بھی رکھ دو اگرخار کے ساتھ… حق کلامی پہ جو میثم کی زباں کاٹ چُکے… وہ نہ اللہ کے حق میں ہیں، نہ اوتار کے ساتھ… لکھ گئے مصحفِ تشنہ دہنی پر شبّیرؓ…جنگ کا کوئی تعلق تلوار کے ساتھ… جو حقیقت ہے قلم بند وہ کردی عظمتؔ…آہوئے شعر کی حق ساختہ رفتار کے ساتھ۔

آسمانِ شعرو سخن کا یہ تابندہ ستارہ 23دسمبر2020ء کو راہیِ دارِ بقا ہوا، مگرمعاشرتی اصلاح کے لیے کہا جانے والا اُن کا کلام آنے والی کئی صدیوں تک یاد رکھا جائے گا۔

تازہ ترین