• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

8مارچ جہاں انٹرنیشنل ویمن ڈے کی حیثیت سے پوری دنیا میں منایا جاتا ہے وہیں اردو ہندی اور انسانیت سے محبت کرنے والوں کے سماج کے رسوم و رواج سے باغی محبوب شاعرساحر لدھیانوی کا جنم دن بھی ہے۔ ساحر کی ولادت انڈین پنجاب کے شہر لدھیانہ میں ہوئی اور سال تھا 1921ء۔ اس حوالے سے ساحر کی شاعری کے سحر میں سکون پانے والے عشاق دنیا بھر میں ان کا صدسالہ جنم دن د منارہے ہیں۔ ساحر لدھیانہ کے ایک ظالم زمیندار فضل محمد کے گھر پیدا ہوا اور اس نے اس کا نام اپنے ایک دشمن عبدالحیٔ کے نام پر رکھا جسے بڑے ہو کر ساحر نے اسی طرح ٹھکرا دیا جس طرح جبر کے سامنے ڈٹ جانے والے اس ذہین بچے نے اپنے باپ سے زندگی بھر کیلئے ناتہ توڑ لیا۔ ظلم کی یہ ایک درد ناک اور طویل داستان ہے۔ اس کی کل کائنات اس کی وہ دکھیاری ماں سردار بیگم تھی جس کے شباب میں ہی اسے اس کے مارپیٹ کرنے والے خاوند نے طلاق دے دی تھی اور مامتا کے واحد سہارے کو اس سے چھین لینے کیلئے اسے عدالتوں میں گھسیٹا، پھر ایک دن یہ 13سالہ بچہ عدالت میں بولا کہ میں اپنے باپ کے ساتھ نہیں اپنی ماں کے ساتھ رہنا چاہتا ہوں۔ جبر کی رسیا زمیندار فطرت بھلا ایسی جسارت کو کیسے گوارا کر سکتی تھی جان سے مار دینے کی دھمکیاں دی گئیں، غریب ماں کو نہ جانے کن کن مصائب سے گزرتے ہوئے اپنی اور اپنے نور نظر کی حفاظت کیلئے گارڈ تک رکھنے پڑےاورکہاں کہاں پناہ لینا پڑی۔ اس کی تفصیلات آئندہ پر چھوڑتے ہوئے ہم خالصہ اسکول اور پھر گورنمنٹ کالج لدھیانہ کی تلخ یادیں بیان کرنا چاہتے ہیں۔ یوں پیدائش سے جوانی کی دہلیز تک پہنچتے پہنچتے ساحر کو جس تلخ زندگی کا سامنا کرنا پڑا وہ بالآخر اس کے عظیم شعری شاہکار ’’تلخیاں‘‘ میں ڈھل گیا۔اس پس منظر میں ساحر نے اپنی والدہ کے ساتھ پنجاب کے بڑے شہر لاہور میں قسمت آزمائی کا فیصلہ کیا اور یہیں سے ان کا متذکرہ مجموعہ کلام شائع ہوا۔ یہاں وہ ’’ادب لطیف‘‘، “پریت لڑی”، “شاہکار‘‘ اور ’’سویرا‘‘ جیسے ادبی و علمی جریدوں کے ایڈیٹر رہے یہ وہ حالات تھےہندوستان تقسیم ہو گیا۔ حالات ایسے دردناک تھے کہ نسل انسانی بے گھر ہی نہیں ہوئی اجڑ کر رہ گئی۔

نوجوان اور پرعزم ساحر زندگی کے جس کرب سے گزر کر آئے تھے ۔ ابھی تک وہ جاگیردارانہ کلچر کے جبر کی تلخیوں سےباہر نہیں نکل پائے تھے کہ عقائد و نظریات کی عدم رواداری نے ان کی فکر و نظر کو جھنجھوڑ کے رکھ دیا۔ ان کے اس کرب کو اس دور کے ’’سویرا‘‘ کی تلخ تحریروں میں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔ ان کا قلم ظلم و جبر کی بربریت اور وحشتوں پر لفظوں کے گولے برسانے لگا، ایک آرٹیکل پر ان کے خلاف مقدمہ بنا اور پھر اس باغی شاعر اور دانشور کی گرفتاری کے احکامات جاری ہو گئے یہ تھے وہ حالات جن میں اس عظیم قلمکار نے لاہور ہی نہیں اس ملک کو بھی ہمیشہ کیلئے چھوڑ جانے کا فیصلہ کر لیا ، پھر ایک شام وہ لاہور سے دہلی اور پھر دہلی سے بھی آگے بڑھتے ہوئے بالآخر پہنچی وہاں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا۔ ممبئی کی جادونگری نے اپنے ساحر کو تقدیر یا فطرت کی ایسی صدا پہنچائی کہ شاید ان کی تخلیق ہی اس مشن کیلئے ہوئی تھی۔ساحر نےجہاں یہ کہا کہ ’’میں ہر پل کا شاعر ہوں‘‘ وہیں کہا کہ ’’میں پل دو پل کا شاعر ہوں مجھ سے پہلے کتنے شاعر آئے اور آ کر چلے گئے، وہ بھی اک پل کا قصہ تھے میں بھی اک پل کا قصہ ہوں، کل تم سے جدا ہو جائوں گا گو آج تمہارا حصہ ہوں‘‘۔اگر ساحر تلخیوں بھرا یہ سفر نہ کرتے تو دیگر سینکڑوں شعراء کی طرح وہ بھی ایک شاعر کی عمومی زندگی گزار کر چلے جاتے، مصروف زمانہ ان کی یادوں میں کیوں پریشان ہوتا ان کی یادوں کو تازہ کرنے میں کیوں وقت اپنا برباد کرتا مگر ان کی انسان نواز فکر، نظریے اور سوچ نے فلمی گیتوں میں ڈھل کر جس طرح پوری دنیا میں امر ہو جانا تھا، یہ فطرت کا خصوصی اہتمام تھا کہ ان کیلئے آگے بڑھنے اور عامۃ الناس تک اپنا محبت بھرا پیغام پہنچانے کی راہیں کھل گئیں۔ میرؔ نے کہا تھا کہ ’’پڑھتے پھریں گے گلیوں میں ان ریختوں کو لوگ، مدت رہیں گی یادیہ باتیں ہماریاں‘‘میر صاحب کو یہ شرف نصیب ہوا یا نہیں ہوا کاتب تقدیر نے ساحر کے نام وہ سب لکھ دیا۔ شاید یہ اعزاز ساحر سے بڑھ کر یا اس سے آگےکسی شاعر کو نصیب نہیں ہوا کہ اتنی رسیلی اور میٹھی مدھر آوازوں میں ان کے گیت ایسے گائے گئے کہ جہاں بھی اردو اور ہندی کے سمجھنے والے گلیوں، بازاروں، جھونپڑیوں، دیہات، شہروں بلکہ محلات تک ان گیتوں کو گنگناتے، گاتے اور سناتے نہیں تھکتے ہیں اور یہ معاملہ کسی ایک نسل تک محدود نہیں رہا بلکہ نئی آنے والی نسلیں ایک تسلسل کے ساتھ ان کی سدا بہار شاعری سے لطف اندوز ہی نہیں ہو رہیں بلکہ اپنی فکری رہنمائی بھی لے رہی ہیں۔ فلم ’’آزادی کی راہ‘‘سے ’’بازی‘‘ تک محنت اور لگن کی امر کہانی ہے جس میں تدبیر سے بگڑی ہوئی تقدیر بنانے اور اپنی شعوری صلاحیتوں پر بھروسےکا عزم ہے اور پھر ٹھنڈی ہوائیں لہرا کے آنی تھیں سو بھرپور آئیں، یوں بربادیوں کا سوگ منانا فضول تھا ساحر بریادیوں کا جشن مناتا چلا گیا۔غم اور خوشی میں فرق نہ محسوس ہو جہاں، میں دل کو اس مقام پہ لاتا چلا گیا (جاری ہے)

تازہ ترین