• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مولا نا فضل الرحمٰن صاحب کو کیا ہو ا کہ وہ PDMکے پورے قافلے کے ساتھ پریس کانفرنس کے لئے اسٹیج پر تشریف لائے مائیک سنبھالا، لانگ مارچ کی منسوخی کا اعلان کیا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے اسٹیج سے غائب ہو گئے ۔میڈیا کے نمائندے ہکا بکا رہ گئے، یہ کیسے اور کیوں ہوا؟ وہ سوالات کی بو چھاڑ کر نے والے تھے کہ مولانا صاحب غائب ہو چکے تھے ۔ایسے میں مریم نواز پکارتی رہیں ۔مولانا صاحب ان صحافیوں کا سوال تو سن لیں مگر جواب دینے والا رہنماآناً فاناًیہ جا ، وہ جا۔ جواب کون دیتا 9میں سے 3رہنما حاضرتھے ،مگر سب حیران وپریشان کہ کیا کریں؟ کیا جواب دیں؟PDMکی پشت میں معلوم اور نامعلوم خنجر کام دکھا چکا تھا۔3ماہ کی مولانا ،مریم نواز اور بلاول بھٹو زرداری کی پھرتیاں، سب کو نظر لگ چکی تھی۔ڈرامے کا آخری سین جو متوقع تھا بے خبرلوگوں کو خبردار کر گیا۔ہر ایک نے اپنی اپنی رائے کا اظہار کیا ایک دل جلے نے یہاں تک کہہ دیاکہ پی پی پی والوں نے لانگ مارچ کے لئے میاں محمد نواز شریف کی شرکت لازمی کردی تھی ،تو لندن سے میاں نواز شریف نے مریم نواز سے کہلوایا میں ایک ہی شرط پر پاکستان آئوں گا اگر بھٹوصاحب ائیر پورٹ پر مجھے ریسیوکریں ۔مریم نے یہ پیغام جوں کا توں بلاول کو بتایا ۔بلاول تو اس نعرہ کا عادی تھا ’’کل بھی بھٹو زندہ تھا آ ج بھی بھٹو زندہ ہے ‘‘۔وہ پیغام جوں کا توں ابا جان کو سنایا تو ابا جان نے کہا مریم کو بتا دو کہ وہ ہمارے سیاسی نعرے سے کھلواڑ نہ کریں ۔ہم لانگ میں میاں صاحب کے بغیر شامل نہیں ہو سکتے ۔بھلے مولا نا صاحب اکیلے نواز شریف کو منوالیں اور ضد چھوڑدیں اور لانگ مارچ میں آجائیں چونکہ جواب دہ صرف مولانا فضل الرحمٰن تھے۔ سو انہوں نے لانگ مارچ کے حامیوں کو جمع کر کے سیاسی طلاق کا اعلان کر دیاکیو نکہ دیگر اتحادیوں کا بہت پریشر تھا اور وہ ایک لفظ بھی سننے کے لئے تیار نہیں تھے ، یعنی لانگ مارچ اور صرف لانگ مارچ اور آخری حربہ استعفیٰ۔ اب اس ڈرامے کا آخری سین کیا ہو گا؟وہ کھیلنے والے بتائیں گے۔فی الحال دونوں صفوں میں دڑاریں تو پڑ چکی ہیں اوراپوزیشن کے غبارےسے ہوا نکل چکی ہے۔ PTIکے شامیانے میں شادیانے بج رہے ہیں تو اس طرف ماتم ہی ماتم ہے۔اب ایک اور لائف لائن دلوادی گئی ہے جا بچہ جمورہ اپنا کھیل جاری رکھ ،تجھے 5سال تک کوئی نہیں ہٹا سکتا ۔پی پی پی والوں سے کام نمٹواد یاگیا کہ نہ9من تیل ہو گا نہ رادھا ناچے گی،مولانا کو پہلے ہی شک تھا پی پی پی آخری وقت میں ماضی کی طرح اپنا کام دکھا دے گی ۔جس کا وہ پہلے بھی سے گلا کر چکے تھے ،حالانکہ وہ بھول رہے تھے کہ برا وقت پڑنے پر ن لیگ نے بھی ایسا ہی کام دکھادیا تھا،جو ہر بڑی سیاسی جماعت کاحق ہو تا ہے ۔جے یو آئی جیسی چھوٹی جماعتیں تو صرف محفلیں سجانے کی حد تک ہو تی ہیں۔مولانا کی امیدوںپر پانی تو پھرا ہے لیکن وہ اس برے وقت میں امید کا دامن نہیں چھوڑیں گے ۔کیا مولانا نے نہیں دیکھا کہ اس سینیٹ کے الیکشن میں پہلے حفیظ شیخ کو ہروایا عمران خان کو اعتماد کا ووٹ دلوایا،پھر اسی سینیٹ کے چیئر مین کے الیکشن میں اکثریت ہونے کے باوجود یوسف رضا گیلانی کو ہروایا اور صادق سنجرانی کو جتوایا اور آپ کے ڈپٹی چیئر مین کو بھی ہروایا ،یہ سب کیاتھا یہ سب چیزیں آنکھیں کھولنے کے لئے کافی تھیں مگر یوسف رضا گیلانی کے جیتنے پر آپ سب لوگ شادیانے بجا رہے تھے اور حقیقت سے منہ موڑ رہے تھے اس کا نتیجہ یہی نکلنا تھا۔ سینیٹ میں ڈپٹی چیئرمین کے امیدوار کےہارنے سے بھی انہوں نے سبق نہیں سیکھا کہ اس کھیل میں کون کون شامل تھا؟ اگر وہ حافظ حسین احمد،شجاع الملک،کو اپنی پارٹی سے فارغ نہ کرتے تو شاید وہ اس کھیل کا انجام کچھ اور ہوتا تاہم مولانا حسب فطرت ہارماننے والے نہیں ہیں ،وہ پھر میدان میں اُتریں گے ۔یہ ان کی کامیاب دھرنے کے بعد دوسری سیاسی شکست ہے،جو اندر والوں سے دلوائی گئی ہے ۔ابھی تو 2سال سے زیادہ وقت پڑا ہے، پی ٹی آئی والے غلطیاں تو کریں گے ویسے بھی عوام ان کی کارکردگی سے مایوس ہو چکے ہیں مگر ابھی تک کوئی دوسرا میدان میں بھی تو نہیں ہے ،جسے وہ مسیحا سمجھ کر اپنی رائے تبدیل کریں ہر ایک نے مایوس ہی کیا ہے اب تو اعتبار پر بھی اعتبار نہیں رہا۔

تازہ ترین