• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جناب آصف علی زرداری نے ’’نواز شریف واپس آئیں تو مل کر جیل جائیں گے ‘‘ کی بات کرکے غیرسنجیدگی کا ثبوت تو دیا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ بعض ان حقائق کو بھی جھٹلایا ہے جن کا وہ خود بھی حصہ رہے ہیں، پہلی وضاحت تو وہ یہ کریں کہ ’’پی ڈی ایم ‘‘ کا حصہ ہوتے ہوئے بھی آج تک آپ نے خود کیوں کسی ایک بھی اجلاس میں شرکت نہیں کی۔ 

شائد اسی لئے کہ آج کا سوشل میڈیا جدید تر ہے اور دنیا کے کسی بھی حصے میں بیٹھ کر بات کی جا سکتی ہے ہر قسم کی میٹنگز گھر بیٹھ کر ہو سکتی ہیں لیکن جس دور میں یہ سہولیات موجود نہیں تھیں تو اس وقت بھی سیاست دان جلاوطن ہو کر تحاریک چلاتے تھے چنانچہ نواز شریف اکلوتے لیڈر تو نہیں جو جلاوطنی میں تحریک چلا رہے ہیں بلکہ وقت کی آغوش میں ایک زمانہ وہ بھی ہے جب پرویز مشرف نے دس سال کیلئے انہیں جلاوطن کیا تھا اس وقت بھی طیارہ اغوا، حدیبیہ پیپر ملز سمیت کئی مقدمات نواز شریف کیخلاف موجود تھے پھر ایک وقت وہ بھی آیا کہ نواز شریف اور شہباز شریف بھاگ بھاگ کر پاکستان جاتے لیکن انہیں جہاز سے اترنے کی اجازت نہ دے کر واپس بھجوا دیا جاتا تھا۔

2017ء کے آخر میں بھی جب بیگم کلثوم نواز لندن میں زیر علاج تھیں تو یہی تمام کیسز ان کے خلاف عدالتوں میں موجود تھے لیکن نواز شریف پاکستان آئے تو انہیں لاہور ایئر پورٹ سے سیدھا جیل لیجایا گیا تو پھر کیا نواز شریف اس قدر سیاسی نابالغ ہیں کہ جب ارشد ملک کی ویڈیو کے باوجود انصاف نہ ہوتا دیکھنے کے باوجود پاکستان پہنچ کر جیل چلے جائیں جہاں انہیں ویڈیو لنک پر خطاب کی سہولت بھی میسر نہ ہو!

واپسی کا مشورہ دینے والے جناب زرداری کو 1983ء بھی یاد ہونا چاہئے جب ضیاء الحق کے خلاف ’’ایم آر ڈی ‘‘ کی تحریک اپنے جوبن پر تھی جب پیپلز پارٹی سمیت سات سیاسی جماعتیں اتحاد بنا کر یہ تحریک چلا رہی تھیں اور اسی تحریک کی وجہ سے محترمہ بے نظیر بھٹو جیل سے رہا ہوئی تھیں انہیں یقین تھا کہ یہ رہائی عارضی ہے اسی لئے سب کے ساتھ مل کر تحریک چلانے کی بجائے وہ لندن خود ساختہ جلا وطن ہو گئیں اور یہاں بیٹھ کر انہوں نے اپنی جماعت کو منظم بھی کیا اور تحریک چلائی، وہ دو سال بعد اس وقت لوٹیں جب محمد خان جونیجو وزیر اعظم بنے اور مارشل لاء ختم ہوا۔ 

جناب زرداری، آپ کو وہ زمانہ بھی یاد ہو گا جب 1999ء میں محترمہ بے نظیر بھٹو اور آپ کو کرپشن کیسز میں پانچ سال قید کی سزا ہوئی اسی سال آپ نے جیل میں خودکشی کی کوشش کی لیکن آپ نے کہا پولیس نے مجھے جیل میں قتل کرنے کی سازش کی، پھر آپ کو 2004ء بھی یاد ہو گا کہ کس طرح آپ کو رہا کیا جاتا اور اگلے روز کسی اور مقدمے میں گرفتار کرلیا جاتا اسی دوران آپ رہا ہوئے تو فوری طور پر دبئی خودساختہ جلاوطن ہو گئے پھر 2005ء میں واپس آئے تو ایئرپورٹ سے آپ کے گھر تک پولیس کے گھیرے میں آپ کو لایا گیا۔ آپ پھر دبئی چلے گئے عدالت نے کئی تاریخوں پر آپ کو بلایا لیکن آپ واپس نہیں آئے۔ 

2006ء میں بے نظیر بھٹو اور آپ کے خلاف راولپنڈی کی عدالت نے انٹرپول سے ریڈ وارنٹ بھی ایشو کروائے آپ ہمیشہ کہتے رہے میں علاج کروا رہا ہوں سفر نہیں کر سکتا آخر کار 2007ء میں امریکہ کی آشرباد سے المشہور ’’این آر او‘‘ ہوا تو محترمہ بھی واپس پاکستان پہنچیں اور آپ 27 دسمبر 2007ء کو ان کی شہادت کے بعد پاکستان آئے۔ 

اور ہاں! اس سے پہلے 2000ء کا دسمبر بھی یاد رکھنا چاہئے جب پرویز مشرف نے نواز شریف کو ڈیڑھ سال جیل میں رکھنے کے بعد دس سال پاکستان واپس نہ آنے کا پابند کرکے سعودی عرب جلاوطن کر دیا تو حالات کی سنگینی اور بے انصافی کا نظام دیکھتے ہوئے محترمہ بے نظیر بھٹو ازخود جلاوطن ہوگئیں اور دبئی و لندن بیٹھ کر سات سال تک پاکستان میں جمہوریت کی بحالی کیلئے کوششیں کرتی رہیں یقیناً یہ ان کا دانشمندانہ سیاسی فیصلہ تھا اور وہ ایک بڑی دلیر رہنما تھیں۔ پاکستان کی سیاست و ریاست کے معروضی حالات آج بھی وہی ہیں جو کئی دہائیوں سے چلے آ رہے ہیں۔

چرچل کے اس قول کا بڑا ذکر کیا جاتا ہے ’’کیا ہماری عدالتیں انصاف کر رہی ہیں ‘‘ سیاست دانوں نے ہاں کہا، تو وہ بولا ’’پھر ہم کبھی تیاہ نہیں ہوسکتے ‘‘تو یہ سوال اگر ان لوگوں کے سامنے رکھا جائےجو نواز شریف کو پاکستان نہ آنے کا طعنہ دے رہے ہیں تو کیا وہ کہہ سکیں گے کہ مولوی تمیز الدین سے لیکر بھٹو کی پھانسی تک کے عدالتی نظام میں رتی برابر بھی کوئی فرق آیا ہے۔

کیا دل پہ ہاتھ رکھ کے کہا جا سکتا ہے کہ ریاست اور حکومتیں اپنا اپنا کام کرتی رہی ہیں، ریاست کے تمام ادارے مکمل طور پر آزاد خودمختار ہیں اگر نہیں تو پھر ’’نیب ‘‘ کا رویہ بھی چھوڑیں، سسلین مافیا کا ذکر بھی بھول جائیں لیکن صرف کورونا سے انتقال کر جانے والے جج ارشد ملک کی ویڈیو سامنے رکھ کر کوئی ذی شعو ر کہہ سکتا ہے کہ نواز شریف کو ایک دفعہ پھر پاکستان آکر عدالتوں کا سامنا کرنا چاہئے ؟

اگر الزامات کی بات کریں تو ہائی جیکنگ اور کرپشن کے الزامات کیا 1999ء میں نواز شریف پر نہیں تھے تو پھر اسی الزام زدہ نواز شریف کو تیسری دفعہ وزیر اعظم کیوں بنا دیا گیا!

میں نے امام خمینی سمیت کئی دیگر انقلابات کا ذکر قصداً نہیں کیا جو جلاوطنی میں پروان چڑھے، تاریخ کے طالب علم جانتے ہیں کہ جلاوطنیاں ہوتی ہی اس صورت ہیں جب کہیں قانون و انصاف کے اداروں پر قدغن ہو، بہت سے خوش فہم جو افریقہ کے مرحوم صدر نیلسن منڈیلا کا ذکر کرتے ہیں کہ وہ تقریباً 27 سال جیل میں رہے تو بھائی، منڈیلا انگریز حاکموں کی طرف سے جنوبی افریقہ کے اصل سیاہ فام باشندوں کے ساتھ نسلی امتیاز برتے جانے کیخلاف مہم چلا رہے تھے اس نو آبادیاتی دور میں منڈیلا نے حقیقتاً بڑی جدوجہد کی ہر کسی سے انہیں ملایا نہیں جا سکتا، بہرکیف باپ کیلئے بیٹیاں بڑی پیاری ہوتی ہیں اگر کوئی‘‘ہارڈیسن‘‘ دینا مقصود ہے تو مریم نواز پاکستان میں موجود ہیں۔

تازہ ترین