• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

زندگی دلچسپ MYTHS ، مفروضوں، محاوروں، مخصوص جملوں کے گرد گھومتی ہے مثلاً میں ویکسی نیشن کا پہلا رائونڈ بھگتا کے آیا تو اس شام اک صاحب سے ملاقات ہوئی جو پہلے سے طے تھی۔ بہت پڑھے لکھے آدمی جنہوں نے کم و بیش آدھی سے زیادہ دنیا دیکھ رکھی تھی۔ میں نے ’’ایکسپو‘‘ میں کورونا کے خلاف حکومتی محاذ کے انتظامات کی تعریف کی کہ ہر شے اپنے ٹھکانے پر تھی، بہترین ماحول تھا، سٹاف الرٹ تھا۔ پنجاب حکومت نے کمال کر دیا جس کیلئے وزیر اعلیٰ سے لے کر ڈاکٹر یاسمین راشد، سیکرٹری ہیلتھ (تب کیپٹن عثمان) سے لیکر کمشنر (تب ذوالفقار گھمن) ، ڈی ایچ او اور ان کی ٹیم بلکہ ٹیموں کا ایک ایک فرد شاباش اور مبارکباد کا مستحق ہے جنہوں نے ثابت کر دیا کہ اگر ذمہ داران واقعی مخلص ہوں تو کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ میں نے اپنے بے حد قریبی دوست سابق صدر پنجاب یونیورسٹی سٹوڈنٹس یونین اور PTIکے بانیوں میں شامل حفیظ خان جو کینیڈا میں ہوتے ہیں کا حوالہ دیا کہ بقول ان کے ’’ایسے حالات میں تو شاید کینیڈا بھی اس طرح پرفارم نہ کر سکتا جیسی پرفارمنس میں ’’ایکسپو‘‘ میں دیکھ کر آیا ہوں‘‘۔

معزز مہمان صبر سکون سے میرا ’’لیکچر‘‘ سننے کے بعد بولے ’’حسن نثار صاحب! میں تو آپ کو دلیر آدمی سمجھتا تھا لیکن آپ بھی ویکسین لگوانے پہنچ گئے ’’میرا فوری ری ایکشن غصہ تھا لیکن میں نے خود پر قابو رکھتے ہوئے ملائمت سے عرض کیا کہ ’’میں نہیں جانتا کہ دلیر ہوں یا بزدل لیکن اتنا ضرور جانتا ہوں کہ بے وقوف ہر گز نہیں ہوں‘‘۔ طنزیہ سی مسکراہٹ اور لہجے میں بولے ’’حسن صاحب! جو رات قبر میں آنی ہے وہ باہر نہیں آ سکتی‘‘۔ جواباً عرض کیا ’’حضور! اگر آپ کو اس مفروضہ کی یہی سمجھ آئی ہے تو دونوں بھائی مینار پاکستان پر چلتے ہیں، آپ اس پر چڑھ کر کودیئے پھر دیکھتے ہیں کہ رات قبر میں آتی ہے یا باہر‘‘ کچھ دیر کیلئے کمرے میں سناٹا طاری ہو گیا تو میں نے نرمی سے بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ ’’زندگی موت ﷲ کے ہاتھ والی بات بھی بہت سے مغالطوں کو جنم دیتی ہے جس کا سب سے بڑا، جیتا جاگتا ثبوت یہ ہے کہ آپ اپنے جیسے ملکوں کی اوسط عمر دیکھ کر اس کا موازنہ ترقی یافتہ ملکوں کی اوسط عمر سے کریں تو ڈوب مرنے کو جی چاہتا ہے۔ خوراک، طبی سہولتیں، پاکیزہ صاف ستھرا ماحول، صحت مند کنڈیشنز اور عادات جن عوام کو نصیب ہوں، ان کی اوسط عمریں ہم جیسوں کی اوسط عمروں سے کئی کئی سال زیادہ کیوں ہوتی ہیں؟ کل تک جو وبائیں، بیماریاں جان لیوا سمجھی جاتی تھیں، آج نزلہ زکام بھی نہیں رہ گئیں تو یہ سب کیا ہے اور کیوں ہے؟ آج سے سو سال پہلے انسان کی اوسط عمر کتنی تھی آج کتنی ہے؟‘‘

زندگی خالق کی بیش قیمت امانت ہے جس میں خیانت کوئی بدترین خائن ہی کر سکتا ہے۔ وہ جب چاہے یہ امانت واپس لے لے لیکن جب تک ایسا نہیں ہوتا، اس امانت کی حفاظت آپ کا فرض ہے ورنہ خود کشی حرام نہ ہوتی۔ یہ تو ’’میرا جسم میری مرضی‘‘ جیسی مسخ شدہ بیمار سوچ ہے کہ زندگی اور اس کا صحیح استعمال ہی تو اصل امتحان ہے۔

میری اس ٹوٹی پھوٹی لولی لنگڑی سی تقریر کے بعد معزز مہمان نے معصومیت سے کہا ’’سچی بات ہے کہ میں نے تو اس طرح کبھی سوچا بھی نہیں۔ ویسے احتیاط میں پوری پوری کر رہا ہوں لیکن ویکسی نیشن کا ہر گز ارادہ نہیں تھا لیکن اب کوویڈ ویکسی نیشن کیلئے ضرور جائوں گا لیکن مصیبت تو یہ ہے میں کمر کی وجہ سے زیادہ دیر کھڑا نہیں رہ سکتا‘‘۔

تب انہیں بتایا کہ وہاں الیکٹرک وہیکل اور وہیل چیئرز کا عملے سمیت اعلیٰ ترین بندوبست ہے۔

قارئین!

یہ روداد سنانے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ ہم بری خبریں تو بہت جوش و خروش، خشوع و خضوع کے ساتھ شیئر کرتے ہیں تو یہ خوبصورت ’’خبر‘‘ کیوں نہ شیئر کی جائے کہ کورونا سے جنگ میں پنجاب حکومت مثالی انداز میں کام کر رہی ہے اور میری آپ سے ذاتی اپیل ہے کہ چھوٹے اپنے بڑوں کو اور بڑے اپنے چھوٹوں کو ’’زبردستی‘‘ (چھوٹوں کی باری آنے پر) اس خوشگوار تجربے سے گزاریں کہ اس سے آپ کو یہ اعتماد بھی ملے گا کہ ہم پاکستانی جتنے بھی ’’پھسڈی‘‘ ہوں، کچھ کرنے پر تل جائیں تو کچھ بھی کر سکتے ہیں۔

اور آپ آخر پہ چلتے چلتے More Over کے طور پر یہ بھی گوش بلکہ چشم گزار کرتا چلوں کہ ذیا بیطس اور میٹھے کا کیا تعلق ہے تاکہ اک اور MYTH، مفروضے کا پوسٹ مارٹم ہو سکے۔ ذیا بیطس دو قسم کی ہوتی ہے۔ ٹائپ ون میں ذیا بیطس میں انسولین پیدا کرنے والے خلیے لبلبے میں کم ہو جاتے ہیں۔ ٹائپ ٹو کی وجہ انسولین کی حساسیت اور پیداوار میں کمی ہے جس کی موروثی وجوہات بھی ہو سکتی ہیں جبکہ حقیقت یہ کہ میٹھے کی زیادتی موٹاپا وغیرہ تو پیدا کر سکتی ہے لیکن ذیا بیطس جیسی بیماری نہیں کہ یہی اصل بات ہے۔ تفصیل پھر کبھی کیونکہ کالم شیطان کی آنت کی طرح لمبا ہو سکتا ہے جو مجھے مناسب نہیں لگتا۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)

تازہ ترین