• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں اس وقت احتساب کا کون سا نظام رائج ہے اور پنجاب میں کرپشن کے واچ ڈاگ کیا کردار ادا کررہے ہیں ؟اس کا باریک بینی سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کی سطح پر کرپشن کی روک تھام اور خاتمے کے لئے نیب اور ایف آئی اے کا کلیدی کردار ہے۔ ان دونوں اداروں کے اپنے اپنے قوانین ہیں اور انکی (JURISDICTION) میں پورا ملک آتا ہے۔ ان دونوں اداروں کے قوانین بنے زیادہ عرصہ نہیں گزرا بلکہ ان کے قوانین میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کئی ترامیم بھی کی گئیں۔ دوسری طرف محکمہ اینٹی کرپشن پنجاب ہے جو 1947کے ایکٹ کے تحت کام کر رہا ہے اور دیکھا جائے تو یہ ایکٹ متروک ہو چکا ہے۔ حکومتیں اور عوام کرپشن کے خاتمے کا عزم رکھتی ہیں لیکن کسی نے شاید یہ دیکھنا گوارہ نہیں کیا کہ قیام پاکستان کے وقت بنائے گئے انسداد رشوت ستانی کے قانون جو اس وقت پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں رائج ہے کو بھی نئے ضابطوں اور چیلنجز کے مطابق تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ کہنا شاید مناسب نہ ہو کہ حکومتوں اور افسر شاہی کے لئے کرپشن کا خاتمہ ترجیحات میں شامل نہ رہا ہو لیکن معروضی حالات یہی بتاتے ہیں ۔ محکمہ اینٹی کرپشن پنجاب 1947کے جس ایکٹ کے تحت کام کر رہا ہے اس میں رشوت لینے والا تو قصور وار ٹھہرایا جاتا ہے لیکن رشوت دینے والے کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جاسکتی حالانکہ اسلام میں تو رشوت لینے والے اور دینے والے دونوں کو جہنمی قرار دیا گیا ہے۔ پنجاب میں لاگو انسدادِ رشوت ستانی کے قانون میں اہم ترامیم کاکیا جانا ضروری ہے تاکہ رشوت دینے والا بھی قصور وار ہو۔

اب تھوڑی سی نظر اس محکمے کی کارکردگی پربھی ڈالتے ہیں کہ پنجاب اینٹی کرپشن کیسے کام کرتا ہے؟ اس ادارے کے زیادہ تر سربراہ پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس (سابقہ ڈی ایم جی)، پولیس سروس آف پاکستان اور پی ایم ایس (پرونشل مینجمنٹ سروس) سے لئے جاتے رہے ہیں حالانکہ اینٹی کرپشن سروس کا وجود موجود ہے جس میں بلاشبہ قابل اور دیانتدار افسر کام کر رہے ہیں لیکن انہیں محکمے کی کمان سنبھالنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ یہاں تک کہ پنجاب پولیس سے انسپکٹر عہدوں کے افسران کو بھی ڈیپوٹیشن پراس محکمے میں تعینات کیا جاتا ہے لیکن کبھی اینٹی کرپشن سروس کا کوئی افسر پولیس اور سول ادارے کا سربراہ تعینات ہوتا کم ہی دیکھا ہے۔ محکمہ سروسز اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن ڈیپارٹمنٹ کے ریگولیشن ونگ نے 18جون 2016ءمیں پنجاب سول سرونٹس ایکٹ 1947ءمیں ترامیم کا ایک نوٹیفکیشن جاری کیا جس کے تحت ڈائریکٹر جنرل اینٹی کرپشن کی تقرری اور ترقی کا اختیار وزیر اعلیٰ کو دیا گیا، اس نوٹیفیکیشن میں واضح طور پر لکھا گیا کہ محکمے کا ڈی جی یا تو ڈائریکٹ بھرتی کیا جائے گا یا پھر پاکستان ایڈمنسٹرٹیو سروس یا پرونشل مینجمنٹ سروس سے ہوگا لیکن ان احکامات پر عمل نہیں ہوا ۔ پہلے حسین اصغر جو کہ بلاشبہ ایک دیانتدار پولیس افسر تھے اور ریٹائرمنٹ کے بعد ڈپٹی چیئرمین نیب ہی کو ڈی جی اینٹی کرپشن لگایا گیا اور ان کے بعد یکم اگست 2019کو دوبارہ پولیس سروس کے گریڈ 20 کے افسر گوہر نفیس کو ڈی جی اینٹی کریشن تعینات کرنے کے احکامات دیے گئے جو ایک مرتبہ پھر خلافِ قانون اقدام تھا۔ گزشتہ 2سال سے محکمہ اینٹی کرپشن نے جو ’’کارہائے نمایاں‘‘ سرانجام دیے ہیں، ان میں محکمہ اسٹیٹ اینڈ ریکوری، محکمہ انڈسٹریز کے افسروں کے ساتھ مل کر پٹرول پمپوں کی چیکنگ اور پیمانوں کی جانچ کہ وہ درست ہیں یا نہیں کے لئے چھاپے، کمرشل بلڈنگز کی فیسیں ادا ہوئی ہیں یا نہیں، سرکاری جائیدادوں اور دکانوں کے کرائے دار رینٹ دے رہے ہیں یا نہیں وغیرہ وغیرہ شامل ہیں۔ یہ تمام ذمہ داریاں تو قانون کے مطابق اس محکمے کی ہیں ہی نہیں۔ اصل کام کرنے کی بجائے شو آف پر زور ہے۔ رشوت کے کیسوں میں پاکستان پینل کوڈ کے سیکشن 161 کے تحت صرف چھاپے مارنے کے پرچے دیئے جا رہے ہیں۔ رشوت کے کیسوں میں زیادہ تر انکوائریاں نہیں کی جارہیں اور کیس ڈپٹی کمشنروں اور جس محکمے میں کرپشن ہوئی کے انتظامی سیکرٹریوں کو بھیج دیے جاتے ہیں۔ اگر محکمے صحیح کام کر رہے ہوتے تو لوگ اینٹی کرپشن میں درخواست کیوں دینے آتے؟ اگست 2019ءمیںپاکستان ایڈمنسٹریٹیو سروس کے افسران کے خلاف تو چند کیس رجسٹرڈ ہوئے لیکن صوبے کے کسی پولیس افسر کے خلاف کوئی کیس رجسٹر نہیںہونے دیاگیا۔ اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ پولیس سروس آف پاکستان کے صوبے میں تعینات تمام افسر انتہائی ایماندار اور دیانتدار ہیں۔ پولیس سروس کے ڈی جی اینٹی کرپشن کے ہوتے ہوئے پولیس افسر تو دور کی بات ماتحت پولیس والوں کے خلاف بھی کوئی بڑا کیس یا کارروائی سامنے نہیں آئی۔ حکومت اگر ایس پی کی سطح کے افسر کو اس محکمے کا ڈی جی لگائے گی تو اپنے پیٹی بھائیوں کیخلاف درخواستوں اور انکوائریوں کے وقت شفافیت کو کون یقینی بنائے گا؟ اس طرح حکومت کے انسداد رشوت کیلئے تمام انتظامات اور نظام ہی (DEFECTIVE) ہو جائینگے۔ حکومت اس بات پر بھی غور کرے کہ اس وقت اینٹی کرپشن میں ہائی پروفائل کیسوں کی اونر شپ موجود نہیں۔ اس پہلو پر بھی نظر ڈالنے کی ضرورت ہے کہ کوئی ہائی پروفائل کیس آتے ہی چند دنوں کیلئے HYPE CREATE کی جاتی ہے لیکن اس کے بعد کسی کو اس کی پرواہ نہیں رہتی۔ آخر اس کی وجہ کیا ہے؟

تازہ ترین