زراعت اور اس سے منسلک شعبوں کی ترقّی روزِ اول سے وزیرِ اعظم، عمران خان کی ترجیحات میں شامل ہے، جس کا اظہار وہ بھینسوں، کٹّوں، مرغیوں، انڈوں، بیری کے درختوں پر شہد کے چھتّوں کی افزائش کے مشوروں کی صُورت کرتے رہے ہیں۔ بلین ٹری منصوبہ بھی اُن کی ماحولیات اور کسی حد تک زراعت کے حوالے سے کی گئی کاوشوں کا اظہار ہے۔اُنھوں نے پچھلے دنوں زیتون کی کاشت کے منصوبے کا افتتاح کیا اور عالمی مارکیٹ کے تناظر میں زیتون کی برآمد پر بھی زور دیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ زیتون کی کاشت سے بڑی مقدار میں زرِ مبادلہ حاصل کیا جاسکتا ہے۔
اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ زراعت پاکستان کی معیشت کے لیے بنیادی حیثیت رکھتی ہے اور وزیرِ اعظم کے اس بابت خیالات، تصوّرات انتہائی خوش آیند ہیں، تاہم اُن سے یہ گزارش کرنا بھی ضروری ہے کہ جہاں وہ زراعت سے متعلق نئے تصوّرات، نظریات کے فروغ کے لیے اپنی کوششیں بروئے کار لا رہے ہیں، وہیں یہ بھی ضروری ہے کہ جو فصلیں پہلے ہی سے کاشت کی جا رہی ہیں، اُن کی ترقّی و بہتری کے لیے بھی کچھ ٹھوس اقدامات کریں تا کہ پہلے سے موجود انفرا اسٹرکچر استعمال میں لاتے ہوئے کاشت کاروں کو اُن کے پیروں پر کھڑا کیا جاسکے۔
وگرنہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم نئے ایڈونچرز کے شوق میں اپنا پرانا اور آزمودہ کام ہی بھول جائیں۔نیز، یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پاکستان کے مختلف جنگلات میں زیتون کے80لاکھ سے زاید پودے موجود ہیں، جن سے بہتر منصوبہ بندی کے ساتھ سالانہ ایک ارب ڈالرز کمائے جاسکتے ہیں۔ اِس ضمن میں ایک اہم اور قابلِ توجّہ بات یہ ہے کہ پاکستان میں پہلے سے پیدا ہونے والی اجناس مثلاً کپاس، گندم، گنّا، چاول اور مختلف اقسام کے پھلوں کی( جن کی بیرونی منڈیوں میں اب تک خاص اہمیت ہے اور پاکستان ان کی بدولت قیمتی زرِ مبادلہ بھی حاصل کرسکتا ہے) حالت انتہائی نا گفتہ بہ ہے اور ان تمام فصلوں، زرعی پیداوار میں سب سے بُرا حال کپاس کا ہے۔
کپاس، پاکستانی معیشت میں ہمیشہ سے اہمیت کی حامل رہی ہے۔ پاکستان اِس فصل سے سالانہ 26ارب ڈالرز تک کماتا رہا ہے۔وہ دَور ٹیکسٹائل انڈسٹری کے حوالے سے بہت شان دار تھا اور ایک وقت ایسا بھی آیا کہ پاکستان کی برآمدات کا سب سے بڑا حصّہ ٹیکسٹائل قرار پایا۔ پھر شاید اِس مُلک کو کسی کی نظر لگ گئی۔ غلط پالیسیز اور ناقص منصوبہ بندی کی وجہ سے کپاس سے26ارب ڈالرز کمانے والا مُلک، دیکھتے ہی دیکھتے 13 ارب ڈالرز سے بھی کم پر آگیا۔واضح رہے، پاکستان کپاس کی پیداوار کے اعتبار سے دنیا کا چوتھا بڑا مُلک تھا، لیکن اب ہم آگے بڑھنے کی بجائے مسلسل پیچھے جا رہے ہیں۔
دوسری جانب، گزشتہ چند برسوں میں بھارت میں 30فی صد، بنگلا دیش میں60 فی صد اور ویتنام میں107فی صد اضافہ ہوا، جب کہ پاکستان میں ٹیکسٹائل مصنوعات کی پیداوار میں30فی صد کمی ہوئی اور دنیا میں پاکستان کا حصّہ 2.2فی صد سے کم ہو کر1.7فی صد رہ گیا ہے۔ اس کے برعکس، کپاس نہ پیدا کرنے والے مُلک بنگلا دیش نے اپنی ٹیکسٹائل کی صنعت کو ٹھوس بنیادوں پر ترقّی دی اور اِس وقت اُس کی ٹیکسٹائل کی برآمدات30ارب ڈالرز سے تجاوز کرچُکی ہیں۔یہ شعبہ مُلک کو حاصل ہونے والی برآمدی آمدنی کا62 فی صد حصّہ فراہم کرتا ہے اور اس سے40فی صد روزگار بھی حاصل ہوتا ہے۔
پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار( جی ڈی پی) میں ٹیکسٹائل کا حصّہ8فی صد رہا ہے اور یہ ایشیا کا آٹھواں بڑا برآمدی سیکٹر بھی تھا، لیکن اب سونے جیسی کپاس کی کاشت بیس فی صد سے بھی کم رہ گئی ہے، کیوں کہ مسلسل نقصانات کے بعد کسان اب دوسری فصلوں کی جانب راغب ہو رہے ہیں۔یہ تنزّلی اور گراوٹ اچانک نہیں آئی، بلکہ متواتر کئی برسوں سے کپاس کے رقبے میں مسلسل کمی اور پیداواری لاگت بڑھنے سے کسان کا دل اس کی کاشت سے مایوس ہوچُکا ہے۔کپاس کی فی ایکڑ پیداوار میں اضافے کی بجائے کمی نے کسانوں کو مایوسی کے ساتھ، معاشی طور پر بھی کم زور کیا ہے اور کپاس کی فصل اب منافعے کی بجائے گھاٹے کا سودا بن کر رہ گئی ہے، جس کی وجہ سے ہمارا کسان دیگر فصلوں مثلاً مکئی،گنّے اور چاول کی طرف راغب ہوتا جارہا ہے۔جب کہ ماہرین کے نزدیک کپاس کی فصل سے کسانوں کا دل برداشتہ ہونا پاکستان کی معیشت کے لیے ایک خطرناک الارم ہے۔
چوں کہ ہمارے مُلک کی معیشت کا انحصار کپاس اور ٹیکسٹائل انڈسٹری پر ہے، جس سے تقریباً دو کروڑ افراد کا روزگار بھی وابستہ ہے،تو کپاس کی فصل کی بحالی اور ترقّی کے لیے جنگی بنیادوں پر اقدامات ناگزیر ہیں۔ پاکستان میں ٹیکسٹائل صنعت کی تباہی کی ایک اور اہم وجہ پیداواری لاگت کا زیادہ ہونا ہے، جس میں اہم عناصر بجلی اور گیس کی قیمتیں ہیں۔
پاکستان میں ان دونوں ناگزیر توانائیوں کی قیمتیں خطّے کے دوسرے ممالک مثلاً بنگلادیش، بھارت، سری لنکا، چین، ویت نام اور انڈونیشیا وغیرہ سے زیادہ ہیں، جس کے نتیجے میں ہمارے ہاں کی ٹیکسٹائل سیکٹر کی مصنوعات ریڈی میڈ گارمنٹس، ہوزری کا سامان، تولیے، بیڈ شیٹس، سوتی دھاگا، گرے فیبرکس اور نٹ ویئرز بین الاقوامی مارکیٹ کی نسبت منہگی تیار ہوتی ہیں، نتیجاً پیداواری لاگت زیادہ ہونے کی بنا پر ہمارا تاجر خطّے کے دیگر ممالک کے تاجروں کا مقابلہ نہیں کرپاتا، جس کا نقصان برآمدات میں کمی کی صُورت سامنے آتا ہے۔
اگر آپ کو عرب ممالک جانے کا اتفاق ہو، تو وہاں کی مارکیٹس میں بنگلا دیش کے تیار کردہ کپڑوں کی بھرمار ملے گی۔ عام ریڈی میڈ ملبوسات سے لے کر اعلیٰ درجے کے بوتیکس میں بنگلا دیشی کپڑا ہی دِکھائی دیتا ہے۔راقم نے تو نیویارک کی مارکیٹس میں بھی بنگلا دیش کی ٹیکسٹائل مصنوعات فروخت ہوتے دیکھیں اور اب بنگلا دیش، یورپ کی مارکیٹس میں بھی پہنچ گیا ہے۔ ٹیکسٹائل صنعت کے لیے بجلی کی قلّت ایک اہم مسئلہ ہے، جس کے نتیجے میں پاکستان ہر سال اربوں ڈالرز کا نقصان اٹھا رہا ہے۔گرچہ اب بجلی کی فراہمی کچھ بہتر ہوئی ہے، مگر اب نرخ اِتنے زیادہ ہیں کہ ایک حد سے زیادہ استعمال ڈراؤنا خواب بن گیا ہے۔
ٹیکسٹائل انڈسٹری جب پاکستان سے بنگلا دیش منتقل ہو رہی تھی، تو اُس کی بنیادی وجہ توانائی بحران ہی تھا، لیکن افسوس! حکّامِ بالا نے اِس طرف کوئی توجّہ نہ دی، یوں ہمارا وقمی سرمایہ پاکستان سے بنگلا دیش منتقل ہوگیا۔پھر گزشتہ سال وفاقی حکومت نے بجٹ میں ٹیکسٹائل کی مقامی فروخت پر 17فی صد سیلز ٹیکس نافذ کیا، جس سے برآمدی صنعت کو بھاری مالی بوجھ برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔ پاکستان میں درآمدات اور برآمدات کا فرق بہت بڑھ گیا ہے، اس صُورتِ حال پر قابو پانے کی ایک ہی صُورت ہے کہ ٹیکسٹائل کی برآمدات بڑھانے کے لیے پاکستانی برآمد کنندگان کو بھی تجارتی حریف ممالک کے مساوی سہولتیں دی جائیں۔
موجودہ حکومت پہلے ہی ٹیکسٹائل پالیسی پر کام کرچُکی ہے، لہٰذا اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے مذکورہ صنعت کی بحالی کے لیے فوری اقدامات ناگزیر ہیں، کیوں کہ اس کے بغیر مُلکی معاشی استحکام ممکن نہیں۔ وزیرِ اعظم، عمران خان نے حکومت میں آنے سے پہلے ٹیکسٹائل انڈسٹری کی تباہی کا ذمّے دار اُس وقت کی مسلم لیگ نون کی حکومت کو قرار دیا تھا، اب جب کہ اُن کی جماعت کی حکومت ہے اور وہ خود مُلک کے وزیرِ اعظم ہیں، تو ٹیکسٹائل صنعت سے وابستہ افراد اُمید کرتے ہیں کہ وہ اس صنعت کو بحران سے نکالنے پر خصوصی توجّہ دیں گے۔
اگر دیگر فصلوں کی بات کی جائے، تو ہماری فی ایکڑ پیداوار، جو پہلے ہی دنیا کے دوسرے ممالک کی نسبت بہت کم ہے، مسلسل مزید کم ہو رہی ہے، جس کی وجہ غیر معیاری بیج، ناقص زرعی ادویہ، ملاوٹ شدہ کھاد اور کسانوں کا کاشت کاری کے جدید طریقوں سے ناواقف ہونا ہے۔ یہ وہ مسائل ہیں، جن میں روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے۔اگر زرعی ترقّی کو درپیش مزید رکاوٹوں پر غور کیا جائے، تو کئی دیگر وجوہ بھی سامنے آتی ہیں۔کھاد نہ صرف منہگی ہے، بلکہ ناقص بھی ہے، جو فصل کو نقصان پہنچانے کے ساتھ زمین کے لیے بھی تباہ کن ہے۔اس کی وجہ سے معیاری پیداوار حاصل نہیں ہو پاتی اور زمین کی زرخیزی بھی شدید متاثر ہوتی ہے۔
اس کے علاوہ، زرعی ادویہ کے نرخوں میں بے تحاشا اضافہ بھی کسانوں کی قوّتِ خرید سے باہر ہے۔ناقص کھاد اور غیر معیاری زرعی ادویہ کے استعمال کی وجہ سے فی ایکڑ پیداوار میں مسلسل کمی ہو رہی ہے۔ڈیزل اور زرعی استعمال کی بجلی کے نرخ بھی آسمان سے باتیں کر رہے ہیں، جس سے چاول کے کاشت کار خاص طور پر متاثر ہو رہے ہیں۔وسطی پنجاب میں، جو چاول کی کاشت کے لیے مشہور تھا، پیداواری لاگت میں بے پناہ اضافے اور قیمتِ خرید میں کمی کے باعث چاول کی پیداوار میں نمایاں کمی دیکھنے میں آئی ہے۔پاکستان کا چاول دنیا بھر کو بھیجا جاتا ہے، لیکن اب چاول کا کاشت کار اس کی بجائے باجرے کی کاشت کو ترجیح دینے لگا ہے، جس کی لاگت کم ہے اور قیمت بھی اچھی مل جاتی ہے، لیکن اس سے چاول کی ایکسپورٹ کم ہو گئی ہے۔
پھر اس جدید دَور میں بھی پاکستان کا کسان فرسودہ، پرانے طریقوں سے کاشت کاری ہی پر مجبور ہے کہ زرعی آلات اِتنے منہگے ہیں کہ کسان کی استطاعت ہی سے باہر ہیں۔بلند ترین شرحِ سود پر دیے جانے والے زرعی قرضے غریب کسان کا ایک اور سنگین مسئلہ ہیں۔کسان کو اس کی اجناس کی اتنی معقول قیمت بھی نہیں ملتی کہ جس سے وہ اپنی پیداواری لاگت ہی پوری کرسکے۔ اسی سبب وہ منہگائی اور قرضوں کے بوجھ تلے دبتا چلا جارہا ہے۔ پچھلے سال حکومت نے کسان سے گندم1400روپے فی مَن کے ریٹ پر خریدی، لیکن جیسے ہی کسان سے گندم خرید لی گئی، مارکیٹ میں اس کا کا ریٹ2200سے2500روپے فی مَن تک چلا گیا۔ناقص منصوبہ بندی کا یہ حال ہے کہ ہم نے گندم سستے داموں برآمد کردی اور پھر وہی گندم منہگے داموں درآمد کی۔
یوں ہمارے کاشت کار کو بھی کچھ نہ ملا اور زرِ مبادلہ کی خطیر رقم بھی ضائع ہوگئی۔ یہی حال کپاس کا ہے۔پیپلزپارٹی کے دَور میں کپاس کا ریٹ 6000روپے فی مَن تک تھا اور اخراجات کم تھے، جس کے سبب کسان خوش حال تھا، لیکن اب8سال بعد کپاس کا ریٹ3300روپے فی مَن ہے، جب کہ اخراجات آسمان سے باتیں کر رہے ہیں۔موجودہ حکومت نے کسان بورڈ کی جانب سے کپاس کی فکس پرائس 4424روپے فی مَن کرنے کی تجویز مسترد کر کے بھی کسانوں کے مسائل میں اضافہ کیا۔پچھلے سال کی طرح اِس سال بھی کپاس کی 80 فی صد فصل خراب ہوچُکی ہے، جس کی بنیادی وجہ ناقص بیج اور ناقص زرعی ادویہ ہیں۔
سفید مکھی اور تیلے کا تدارک نہیں ہوسکا۔پچھلے سال بھی کپاس کے کسانوں کو بہت زیادہ نقصان برداشت کرنا پڑا تھا، جب کہ اِس سال بھی کم وبیش وہی صُورتِ حال ہے۔ کسان قرضوں میں جکڑتا جا رہا ہے، جب کہ حکومت کو کوئی پروا نہیں۔ وہی پرانے ریٹ ہیں اور کسان کے لیے کسی ریلیف فنڈ یا سبسڈی کا تصوّر تک نہیں۔ضرورت اِس امر کی ہے کہ کسان کے مسائل حل کرنے کے لیے زرعی شعبے کے لیے فنڈز میں اضافہ کیا جائے اور اس کے لیے خصوصی مراعات کا اعلان کیا جائے۔زراعت کے لیے پانی کی فراہمی کو بہتر بنایا جائے۔ آب پاشی کے متبادل ذرائع تلاش کیے جائیں اور زرعی استعمال کی بجلی سستی کی جائے۔
زراعت کے جدید طریقوں سے استفادہ کیا جائے اور اس کے لیے زرعی ریسرچ کے محکموں کو فعال بنایا جائے۔ سب سےضروری اور اہم بات یہ ہے کہ حکومت کسانوں سے مشاورت کے بعد ہر فصل کے پیداواری اخراجات مدّ ِنظر رکھتے ہوئے قیمتیں متعیّن کرے تاکہ کسان کو اُس کی فصل کا مناسب معاوضہ مل سکے۔کسانوں کو بلا سود قرضے فراہم کیے جائیں اور چھوٹے کاشت کاروں کو مالی امداد دی جائے۔دوسرے ممالک کی طرح پاکستان میں بھی زرعی آلات پر ٹیکس ختم کیا جائے اور غیر معیاری بیجوں اور ناقص زرعی ادویہ کی سپلائی کو کنٹرول کیا جائے۔
نیشنل ایگری کلچر ریسرچ کاؤنسل ،پاکستان میں زرعی ریسرچ کا سب سے بڑا ادارہ ہے، لیکن زرعی پیداوار میں مسلسل کمی اور فی ایکڑ پیداوار میں اضافہ نہ ہونا اِس ادارے کی کارکردگی پر ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔ اِس ادارے کی اہمیت کے پیشِ نظر حکومت کی ذمّے داری ہے کہ اس کی کارکردگی کا تفصیل سے جائزہ لے اور اسے جدید خطوط پر منظّم کرے تاکہ پاکستان کی زراعت کو بھی جدید دَور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جاسکے۔
اس کے ساتھ، کسانوں کی رہنمائی کے لیے ادارے سے وابستہ افراد کو ائیر کنڈیشنڈ کمروں سے نکال کر فیلڈ میں بھیجنا بھی ضروری ہے تاکہ کسان کاشت کاری کے جدید طریقوں سے واقف ہوکر کم وسائل کے ساتھ زیادہ پیداوار حاصل کر سکیں۔