پیپلزپارٹی، مسلم لیگ ن اور جمعیت علما اسلام کے درمیان اختلاف کھل کر سامنے آ گئے ہیں۔ ابتدائی اختلاف تو اسمبلیوں سے استعفیٰ دینے سے شروع ہوا۔ پیپلز پارٹی اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کی شدید مخالف تھی مگر مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز اور مولانا فضل الرحمٰٗن اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کے شدید حامی تھے۔ ان کا خیال تھا کہ لانگ مارچ اس وقت تک حتمی نتائج حاصل نہیں کر سکتا جب تک قومی و صوبائی اسمبلیوں سے تمام اتحادی جماعتیں استعفیٰ نہ دیدیں مگر پیپلزپارٹی پارلیمنٹ کے اندر رہ کر جمہوری طریقے سے جنگ لڑنے کی حامی تھی۔ پیپلز پارٹی جارحانہ بیانیے کی بھی شدید مخالف تھی۔
آصف علی زرداری جو اپنے کارڈ اچھے طریقے سے استعمال کرنے کے ماہر ہیں انہوں نے سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو سینیٹ کا رکن منتخب کرا کے ثابت کیا ہے کہ وہ ایک منجھے ہوئے سیاستدان ہیں مگر مسلم لیگ ن والوں کو جب یہ احساس ہوا کہ اصل کامیابیاں پیپلزپارٹی سمیٹ رہی ہے، انہیں کیا ملا؟ تو انہوں نے سید یوسف رضا گیلانی کو سینیٹ کا چیئرمین بنانے میں رکاوٹ پیدا کی اور اپنے سات ارکان سے غلط ووٹ کاسٹ کرائے۔ جہاں سے پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کے درمیان اختلافات شدت اختیار کر گئے اور ان اختلافات میں مریم نوازم، حمزہ شہباز، اسحاق ڈار اور میاں نواز شریف کے درمیان ہونے والی گفتگو جلتی پر تیل کا کام کر گئی۔ اور یقیناً یہ وڈیو لنک میں ہونے والی گفتگو کسی طرح آصف علی زرداری کو بھی سنوائی گئی۔
اس وڈیو لنک میں سید یوسف رضا گیلانی کو سینیٹ کا چیئرمین بنانے کی مخالفت کی گئی تھی اور حمزہ شہباز شریف اور نواز شریف کا یہ خیال تھا کہ اس طرح پیپلز پارٹی کو پنجاب میں مضبوط قدم جمانے کا موقع ملے گا چنانچہ یوسف رضا گیلانی کو ہرانے کا منصوبہ بنایا گیا۔ اس منصوبے کے طشت ازبام ہونے سے آصف علی زرداری شدید برہم ہو گئے اور انہوں نے پی ڈی ایم کے اجلاس میں وڈیو لنک کے ذریعے ہونے والی مسلم لیگ ن والوں کی گفتگو کا جواب انتہائی سخت لہجے میں دیا۔ آصف علی زرداری کی تقریر پر مریم نواز بھی برہم ہو گئیں۔
آصف زرداری کی تقریر اور مریم نواز کے شدید ردعمل سے اختلافات منظر عام پر آ گئے اور 26مارچ کو ہونے والا لانگ مارچ ملتوی ہو گیا جس کے بعد حکومتی حلقوں کی دل کی دھڑکنیں معمول پر آ گئیں۔ عوام جو پہلے سے پی ڈی ایم سے مایوس تھے وہ مزید مایوس ہو گئے۔ پی ڈی ایم نے اپنی تحریک کا آغاز گوجرانوالہ کے جلسے سے کیا جس میں ملکی اداروں کے خلاف جارحانہ رویہ اپنایا گیا تھا۔ پیپلز پارٹی نے اس بیانیے سے انحراف کیا اور کراچی کے جلسے میں تمام تر دبائوکے باوجود میاں نواز شریف کو تقریر نہ کرنے دی۔
دوسری وجہ مسلم لیگ ن اور جمعیت العلمائے اسلام کی قیادت جن اسمبلیوں کو جعلی اور جس حکومت کو سلیکٹڈ قرار دیتے تھے، انہی اسمبلیوں کے ذریعے سینیٹ کا الیکشن لڑا اور ضمنی انتخابات میں حصہ لیا۔ تیسری بات یہ تھی۔ پی ڈی ایم میں کچھ ایسے بندے بھی تھے جن کا بیانیہ مبینہ طور پر ریاست مخالف تھا۔ عوام اس بات کو سخت ناپسند کرتے ہیں۔
ان وجوہات کی بنا پر پی ڈی ایم کو وہ پذیرائی نہیں ملی جس کی توقع تھی حالانکہ کمر توڑ مہنگائی کی وجہ سے موجودہ حکومت سے بھی عوام خوش نہیں ہیں۔ اب پی ڈی ایم سے پیپلز پارٹی کو نکالنے اور 9ستاروں پر مشتمل اتحاد بنانے کی باتیں ہو رہی ہیں اور مولانا فضل الرحمٰن نے پیپلز پارٹی کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے لانگ مارچ کا اعلان کیا ہے جو محض اعلان ہی لگتا ہے۔ ہمیں نہیں لگتا پیپلزپارٹی کے بغیر کوئی تحریک کامیابی سے ہمکنار ہو۔ دوسری طرف حکومت، مقتدر حلقوں اور پیپلز پارٹی کے درمیان بات چیت کی اطلاعات ہیں۔
پیپلزپارٹی جمہوریت کی بحالی اور استحکام کیلئے الیکشن اصلاحات کیلئے اسمبلی و سینیٹ میں حکومت سے تعاون کر سکتی ہے اور حکومت اس تعاون کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دیگر آئینی ترامیم بھی لا سکتی ہے۔ یہ ممکن ہے کہ کرپشن کے کیسز کے علاوہ آصف علی زرداری اور پیپلزپارٹی کو سندھ میں کچھ ریلیف مل جائے۔
تاہم وزیراعظم عمران خان کی طرف سے اپوزیشن کو الیکشن اصلاحات پر مل بیٹھنے کی دعوت بھی دی گئی مگر وہ کرپشن کیسز پر کوئی سمجھوتہ کرنے کیلئے تیار نہیں اور گزشتہ دنوں بھی انہوں نے نواز شریف اور آصف علی زرداری کا نام لے کر ان کی مبینہ کرپشن کے حوالے سے کڑی تنقید کی۔ وزیراعظم عمران خان نے ایک اجلاس میں وفاقی وزرا کی بھی کلاس لی اور کہا کہ جو وزیر عوام سے رابطہ نہیں رکھے گا مسائل حل کرنے پر توجہ نہیں دے گا اسے فارغ کر دوں گا۔
وزیراعظم عمران خان نے وزراء کی کارکردگی کے بارے میں خفیہ اداروں اور پارٹی ذرائع سے رپورٹیں اکٹھی کر لی ہیں جن کی بنیاد پر کابینہ میں ردوبدل ہوگا۔ کابینہ میں کچھ نئے وزیر شامل کئے جائیں گے اور کچھ وزراء کے محکموں میں ردوبدل ہو گا۔ دو تین وزراء اور مشیر فارغ کر دیے جائیں گے۔ وزیراعظم نے فنانس کے مشیروں کو بھی ہدایات دی ہیں کہ اڑھائی سال سے بھی کم عرصہ رہ گیا ہے اب وہ عوام کو ریلیف دینے کی پالیسیاں بنائیں، مہنگائی پرتوجہ دیں ملک ڈیفالٹ ہونے سے بچ گیا ہے اب آئی ایم ایف کی پالیسیوں سے کچھ باہر نکلیں۔
وزیراعظم عمران خان نے بیوروکریسی پر بھی توجہ دینی شروع کر دی ہے ۔ وزیراعظم کو ان افسروں کے بارے میں رپورٹیں موصول ہو گئی ہیں جو پنجاب اور وفاقی حکومت سے عدم تعاون کر رہے تھے، آئندہ چند دنوں میں وفاقی اور پنجاب سطح پر وسیع پیمانے پر بیوروکریسی میں ردوبدل ہو گا۔