• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سعیدہ افضل

جنوری 1967ء میں اخبار جہاں کا پہلا شمارہ منظرعام پر آیا تب سے میں اخبار جہاں سے منسلک ہوں،مگر آج جب جناب میر جاوید الرحمٰن کی برسی کے موقع پر قلم اٹھایا تو یوں لگا لکھنا بھول گئی ہوں… جیسے کسی نے لکھنے کی سکت اور سوچ کی توانائی کو مجھ سے چھین لیا ہے۔

یہ بہت دشوار ہے۔ اس مہربان ہستی سے وابستہ یادوں کو دو چار صفحات پر سمیٹ لینا۔یہ خزینہ یوں نہیں سمیٹا جاسکتا اور نہ شمار کیا جاسکتا ہے کہ تار یادداشت کے دوسرے سرے پر گرہ نہیں ہوتی پرونے بیٹھو تو کچھ ہاتھ نہیں آتا۔

ابھی کل کی بات ہے میر جاوید صاحب لندن سے آئے کچھ دنوں بعد سنا کہ علیل ہیں، اسپتال میں داخل ہیں یہ تو گمان بھی نہ تھا کہ وہ اتنی جلدی اس دنیا سے گزر جائیں گے۔

یہ 1972ء کا زمانہ تھا! نثار احمد زبیری ایڈیٹر تھے۔ ان دنوں میں اور نوشابہ صدیقی ایک ہی کمرے میں بیٹھتے تھے۔ جاوید صاحب ہمارے کمرے میں آئے کچھ رسائل ہم دونوں کو دئیے۔

مجھ سے فرمائش کی آپ ناول لکھ کر دیں۔ انہی دنوں میرا ناول جھوٹے سچے لوگ، روزنامہ جنگ میں قسط وار شائع ہوا تھا… نثار زبیری صاحب سے بھی کہا کہ ان سے ناول لکھوائیں۔ انہوں نے ہمت کی، مجھ سے ناول لکھوالیا۔ جو اخبار جہاں میں قسط وار شائع ہوا۔ اس کے بعد۔ ان کی دیرینہ خواہش تھی کہ میں ایک اور ناول لکھ کر دوں مگر میں گھر، گھرہستی اور بچوں میں ایسی الجھی سوائے کہانیوں کے مدت تک کچھ نہ لکھ سکی… آج ان کا وہ اپنائیت بھرا لہجہ یاد آتا ہے۔ کچھ اچھا لکھنے پر ستائش اور دل بڑھانے والی باتیں۔ مجھ کو سامنے سے آتے دیکھ کر ان کا ٹھہر جانا۔ خیریت دریافت کرنا… عزت سے کلام کرنا یہ سب یادیں اداس کرنے والی ہیں۔

ایک روز انوار علیگی صاحب کو مسودہ حوالے کرنے جارہی تھی اور جاوید صاحب ایک کمرے سے نکل کر سامنے والے کیبن میں جارہے تھے میں نے قدم سست کرلئے تاکہ وہ پہلے گزر جائیں… لیکن وہ ٹھہر گئے۔ انہوں نے مجھے آتے دیکھ لیا تھا… انتظار کرنے لگے تبھی… میری سست روئی کو دیکھ کر ہاتھ سے اشارہ کیا۔ مطلب تھا… پہلے آپ نے گزرنا ہے، میں اسی لئے رکا ہوں۔ ایسے مالک کہاں ہوتے ہیں جو خود ٹھہر کر اپنے ملازمین کو رستہ دیتے ہوں… لیکن… اس جہان سے گزرتے ہوئے اب کی بار انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ وہ خود پہلے گزر گئے اور ہم پیچھے رہ گئے۔

سچ ہے بڑے ادارے ایسے ہی بڑے نہیں بن جاتے بنانے والے ’’بڑے‘‘ ہوتے ہیں تو ہی بنتے ہیں۔

مجھے آج بھی یاد ہے جناب حاتم علوی میر کراچی تھے، ان کی شادی کی پچاسویں سالگرہ کی تقریب ملیر کے کسی سبزہ زار میں تھی اور مجھ کو اس تقریب کی کوریج کرنا تھی یہ سوچ پریشان کررہی تھی اتنی دور کیسے جائوں گی اور کس طرح واپس آئوں گی… جاوید صاحب کمرے میں آئے۔ پوچھا… ملیر آپ کیسے جائیں گی؟ میرے چہرے پر پریشانی کے آثار دیکھ کر بولے… پریشان نہ ہوں۔ میں انتظام کرتا ہوں۔

مقررہ وقت پر خود مجھ کو میرے گھر سے لینے آئے۔ گاڑی میں ان کے ساتھ دو ہمارے کارکن اور بھی تھے آغاز سے اختتام تقریب تک ہمارے ساتھ عام کرسیوں پر بیٹھے رہے، حالانکہ اگلی ر و میں بیٹھ سکتے تھے۔ جہاں معزز شخصیات اور خاص مہمانوں کے لئے مخصوص نشستوں کا انتظام کیا گیا تھا، لیکن وہ ہمارے پاس سے اٹھ کر نہیں گئے۔

میری آنکھ میں تکلیف تھی ،موتیا کا آپریشن ہونا تھا ،انوار علیگی صاحب سے ذکر کیا انہوں نےجاوید صاحب سے تذکرہ کر دیا۔ جاوید صاحب نے مجھے فون کیا۔جلد آپریشن کروا لیں اور جو خرچہ آئے بل مجھے بھجوا دیں۔ بلکہ پچھلے دو سال کے اپنے سارے میڈیکل کے بل فائل پر لگا دیں،میں پےمنٹ کر دوں گا۔میں نے ان کے ہمت بندھانے سے آپریشن کروالیا ،بل بجھوا دیئے اچھی خاصی رقم تھی۔ ان کی طرف سے پیمنٹ میں کچھ تاخیر ہوئی۔ مجھے دوسری آنکھ کا آپریشن بھی کروانا تھا صورتحال معلوم کرنے کو میں نے اکائونٹ سیکشن فون کیا… شام کو جاوید صاحب کا فون آ گیا پہلی بار میں نے ان کے لہجے میں خفگی محسوس کی۔کہنے لگے میڈیکل سے متعلق بل ہوں تو ان کی تصدیق کرانا ہوتی ہے ؟ آپ کو پے منٹ ہو جائے گی ۔مجھ کو شرمندگی ہوئی ،پچھتانے لگی کہ کیوں فون کر دیا اب جاوید صاحب ناراض ہو گئے ہوں گے۔

کچھ ہی دن گزرے ہوں گے ان کا فون آ گیا … میں عمرے پر جا رہا ہوں آپ کا چیک بن گیا ہے ،بعقوب خان صاحب سے لے جائیں۔ مجھے چیک ملا تو اگلے روز میں نے شکریہ کہنے کو فون کیا۔ کہنے لگے میں سمجھ گیا تھا آپ نے شکریہ کہنے کو فون کیا ہو گا … خوش دلی سے باتیں کرنے لگے،کئی پرانی باتیں یاد کیں ۔

ان کی باتوں سے مجھے لگا وہ مجھ کو خوش کرنے کو پرانی باتیں یاد کر رہے ہیں …ان کے ایسے بہت سے نرم دلی کے واقعات یاد ہیں۔

آخری بار جب ان سے ملنا ہو ا… وہ ہال سے اپنے کمرے کی طرف جا رہے تھے مجھ کو داخلی دروازے پر دیکھ کر ٹھہر گئے۔ میرے سپیدبالوں کی طرف دیکھ کر بولے … آپ تو اب بزرگ ہو گئی ہیں۔ وقت بھی تو بہت گزر گیا ہے … جاوید صاحب … میں نے کہا۔

ہاں…واقعی وقت بہت گزر گیا تھا، مگر انکی زندگی کی شام ہورہی ہے یہ ہم کو معلوم نہ تھا۔ اللہ تعالیٰ انکو اپنے جوار رحمت میں جگہ دے۔

تازہ ترین