• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

قارئین کرام! ’’آئین نو‘‘ کے جاری موضوع کی پہلی قسط میں قومی سطح کے پہلے حکومت مخالف سیاسی اتحاد ’’ڈیمو کریٹک ایکشن کمیٹی‘‘ کی بڑی کامیابی کو واضح کیا کہ اس نے کس طرح اپنے مطالبات تسلیم کراکر ایوبی دور کے خلاف ملک گیر تحریک سے پارلیمانی جمہوری نظام کی بحالی کی راہ نکالنے میں کامیابی حاصل کی، اتنی کہ ایوب خان نے ڈیک کے مطالبے کے بغیر آئندہ انتخابات میں اپنے حصہ نہ لینے کا اعلان بھی قومی نشریے میں کردیا۔ قارئین کرام! ناچیز کی اس تحریر کو ’’گڑھے مردے کھودنا‘‘ نہ سمجھا جائے بلکہ موجودہ ملکی سیاسی انتشار سے صراط کو ترک کرکے صراط مستقیم کرنے کا تقاضا ہے کہ مکمل حقیقت پسندی سے اس امر کا جائزہ لیا جائے کہ اتار چڑھائو کے ساتھ ہمارے جاری سیاسی عدم استحکام کے اسباب کیا بنے؟

غور فرمائیں کہ ڈیک کے تسلیم شدہ مطالبات کے بعد نئے انتخابات کے شیڈول کا اعلان کرانا کتنا آسان ہو گیا تھا لیکن بھٹو کے مذاکرات کے بائیکاٹ اور تحریک کو انتشار میں تبدیل کر دینے سے، پاکستان میں تقریباً قومی اتفاق سے حقیقی سیاسی جمہوری ارتقاء سبوتاژ ہو گیا، ایجی ٹیشن اتنا بڑھا کہ ملک پھر مارشل لا کی نذر ہو گیا جسے کنٹرول کرنے کے لئے مشرقی پاکستان میں جنرل ٹکا خان کی کمان میں 25اپریل 1971کو ایسا ملٹری ایکشن ہوا کہ اہلِ نظر کا تو دل اس وقت دھڑک گیا تھا کہ ’’اب پاکستان متحد نہیں رہے گا‘‘ لیکن انتخابی نتائج (دسمبر71) سے آئندہ اپوزیشن لیڈر بننے والے بھٹو صاحب نے ڈھاکہ سے واپسی پر لاہور ایئر پورٹ کی میڈیا ٹاک میں مشرقی پاکستان میں شروع کئے گئے ملٹری آپریشن سے متعلق سوال پر رسپانس کیا ’’خدا کا شکر ہے پاکستان بچ گیا‘‘ عملی نتیجہ آنے والے 9ماہ کے بعد سقوطِ ڈھاکہ کے تاریخی المیے کی شکل میں نکلا۔ ستم فقط یہ ہی نہیں ہوا کہ بھٹو صاحب آگ سے کھیلتے ڈھاکہ میں قومی اسمبلی کے بلائے گئے اجلاس میں جانے سے انکاری ہوئے، انہوں نے لاہور کے جلسہ عام میں اپنی جماعت کے منتخب اراکین اسمبلی کو بھی دھمکی دی کہ ’’جو ڈھاکہ جائے گا اس کی ہڈیاں توڑ دوں گا‘‘۔ گویا جہاں قرار داد پاکستان منظور ہوئی تھی، اسی جگہ ملک ٹوٹنے کا کام پکا کیا گیا۔ ایک بہت بڑا ستم یہ ہوا کہ الیکشن کمیشن نے مشرقی پاکستان کے قومی اسمبلی کے کچھ حلقوں کے انتخابات کو متنازعہ قرار دے کر شدید متنازعہ ضمنی انتخابات کرا دیے، مقصد اکثریتی عوامی لیگ کے مقابل عام انتخابات میں ہارے ہوئے ’’منتخب نمائندوں‘‘ کی ایک کھیپ مطلوب تھی، جس کے ساتھ مل کر مغربی پاکستان کی سب سے بڑی پارلیمانی قوت، پی پی کے اشتراک سے ایسی سول پارلیمانی فورس قائم ہو جو یحییٰ حکومت کی معاون بن کر حالات کو سنبھالا دے لیکن تلخ حقیقت یہ تھی کہ یہ سچی مچی کی سلیکٹ حکومت تھی، اس کے وزیراعظم پاکستان ڈیموکریٹک پارٹی (نوابزادہ نصر اللہ والی) کے سربراہ نور الامین بنے جو عام انتخابات میں مشرقی پاکستان سے عوامی لیگ کے سوا، واحد منتخب رکن اسمبلی تھے جبکہ ذوالفقار علی بھٹو نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ بنائے گئے۔ یہ سب کچھ ایوبی دور کے آخری مرحلے میں قومی سیاسی اتحاد ڈیموکریٹک ایکشن (ڈیک) کے حاصل کو سبوتاژ کرنے کا شاخسانہ تھا۔ مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بننے کے بعد بھٹو صاحب، پہلے تو چند ہفتوں کے لئے ملکی اور شاید دنیا کی تاریخ کے پہلے (سول) مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بنے، پھر عبوری آئین کے بعد صدر اور پھر آئین 73کے تحت وزیراعظم بنے تو اپوزیشن کے مکمل تعاون سے آئین بنا کر بھی جمہوری نہ بنے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اپوزیشن طاقت پکڑتی گئی، بھٹو صاحب اسے سنبھالتے رہے، وہ نہ سنبھلی تو یہ غلط اندازہ لگا کر کہ متضاد الخیال جماعتوں کی چھوٹی سی اپوزیشن آنے والے انتخاب میں میری حکومت کے خلاف اپنے جاری اشتراک و تعاون کو ختم کرکے اپنی اپنی الگ پوزیشن میں انتخابی میدان میں اترے گی، سو چھ ماہ مدت مکمل ہونے سے پہلے انتخاب کا اعلان کیا تو ان ہی متضاد النظریہ جماعتوں کا اتحاد پاکستان قومی اتحاد (پی این اے) کی شکل میں ہونے میں دیر نہیں لگی۔ ایک پرچم، ایک قیادت (مولانا مفتی محمود) ایک نشان پر انتخاب میں حصہ لینے کے تاریخی فیصلے کا اعلان ہوا تو بھٹو صاحب بوکھلا گئے، بلکہ مشتعل ہو گئے، پھر جو الیکشن 77میں ہوا، اس نے بھٹو ہی نہیں پی پی کی عوامی، سیاسی اور اخلاقی حیثیت کو پولنگ ڈے پر زیرو کردیا، گراف تو پہلے ہی تیزی سے گر رہا تھا، دھونس دھاندلی کے تمام ریکارڈ ٹوٹ گئے لیکن ملک گیر شروع ہونے والے احتجاج کے باوجود دو تین روز کے بعد صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات پھر بھی کرانے کی مکمل ناکام کوشش کی گئی۔ پولنگ اسٹیشنز پر ہو کا عالم تھا۔ پی این اے کی احتجاجی تحریک جنگل کی آگ کی طر ح ملک بھر کے شہرو دیہات میں دیکھتے دیکھتے پھیل گئی۔ بھٹو حکومت نے پہلے 28پھر 42نشستیں پی این اے کو بغیر انتخاب کے پیش کیں۔ قومی اتحاد نے ٹھکرا دیا۔ تحریک جتنی ملک گیر اور جمہوری جذبے سے سرشار تھی حکومتی مزاحمت بھی اتنی ہی۔ مذاکرات شروع ہوئے تو قومی اتحاد کی نصف سے زیادہ قیادت بھٹو صاحب کی نیت کے حوالے سے سخت مشکوک تھی۔ مذاکرات کامیاب ہوتے نظر آئے لیکن لاہور، کراچی اور حیدر آباد میں مارشل لا کے دوران جو ہوا اس نے پھر مارشل لا کا ماحول بنا دیا جو 4جولائی کو لگ گیا۔

تازہ ترین