• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پہلی مثال :ایک ڈاکٹر صاحب سے میری گفتگو ہوئی ، سانس کی بیماریوں اورانتہائی نگہداشت کے امور کے ماہر ہیں،آج کل اِن کے پاس کرونا کے مریضوں کا بہت رش ہوتا ہے ۔میں نے ڈاکٹر صاحب سے پوچھا کہ کیا آپ نے ویکسین لگوا لی ہے ؟ کہنے لگے ’’میں نے ویکسین نہیں لگوائی ، میں روسی ویکسین سپوتنک کا انتظار کر رہا ہوں ، اُس کی تاثیر چینی ویکسین سے زیادہ ہے ۔‘‘میں نے کہا ’’ ڈاکٹر صاحب ،چینی اور بھارتی ویکسین کی تاثیر تقریباً برابر ہے ، ہندوستانی وزیر اعظم اور اُن کی کابینہ کے کچھ وزرا نے تو اپنی ویکسین ہی لگوائی ہے ۔‘‘اِس پر ڈاکٹر نے جواب دیا ’’انڈیا کی بات آپ جانے دیں، وہاں کی کوئی بھی ویکسین آئی میں نہیں لگواؤں گا، اُن سے کوئی بعید نہیں کہ ہم پاکستانیوں کے لیے جعلی ویکسین تیار کرکے بھیج دیں!‘‘ اِس نکتے پر میری اور ڈاکٹر صاحب کی گفتگو ختم ہو گئی ۔

دوسری مثال:آج کل اسلام آباد کے ایک آرتھوپیڈک سرجن کا آڈیو کلپ سوشل میڈیا پر گردش کر رہا ہے جس میں وہ اپنی روداد سنا رہے ہیں کہ کیسے وہ کرونا ویکسین کا ٹیکہ لگوانے کے بعد اگلے ہی روز کرونا کا شکار ہو گئے اور جب انہوںنے کرونا کے ماہر ڈاکٹر سے اپنا علاج کروایا تو اُس ڈاکٹر نے انوا ع و اقسام کی ادویات دے کر انہیں ادھ موا کر دیا۔ آرتھو پیڈک ڈاکٹر نے بار با ر اپنی کہانی میں یہ الفاظ استعمال کیے کہ مجھے اینٹی بائیوٹک اور دواؤں کے ’زہر‘ نے موت کے منہ میں پہنچا دیا،میں کرونا سے نہیں بلکہ دواؤں کے ’زہر‘ سے مرنے کے قریب پہنچ گیاتھا۔

سب سے پہلے توڈاکٹر خواتین و حضرات سے معذرت کہ بظاہر انہیں لگے گا جیسے یہ کالم اُن کے خلاف ہے لیکن اصل میں کالم کا موضوع سوچ کا وائرس ہے جس کی کوئی ویکسین اب تک نہیں بن سکی اور یہ دونوں مثالیں سوچ کے اسی وائرس کی عکاسی کرتی ہیں ۔اگر یہ سوچ کسی عام آدمی کی ہو کہ میں وہ ویکسین لگواؤں گا جس کی تاثیر بہتر ہے تو اسے موردالزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا لیکن اگر کوئی پروفیسر آف میڈیسن یہ بات کہے تو تشویش کی بات ہے۔کسی بھی ویکسین کی تاثیرکا حساب مختلف آزمائشی تجربات کے بعد لگایا جاتا ہے۔یہ تجربات کتنے لوگوں پر کیے گئے، کہاں کیے گئے، اُن کے نتیجے میں کتنے لوگوں میں مرض کی کیا علامات ظاہر ہوئیں ، Placeboکے مقابلے میں اصل تریاق کا کتنا اثر ہوا ،وغیرہ۔یہ ایک پوری سائنس ہے جس کے بعد کسی بھی ویکسین کی تاثیر کا تناسب بیان کیا جاتا ہے ، کسی ویکسین میں یہ 94%بنتا ہے تو کسی میں 70%لیکن آخری تجزیے میں یہ دونوں یکساں طور پر ہی موثر قرار پاتی ہیں کیونکہ ویکسین کا اصل مقصد لوگوں کو مرض کے موذی اثرات سے محفوظ رکھنا ہے تاکہ کسی کو بھی اسپتال جانے کی ضرورت پیش نہ آئے او ر اِس مقصد میں ہر ویکسین کی افادیت تقریباً سو فیصد ثابت شدہ ہے۔کسی ’’بہتر تاثیر والی ویکسین‘‘ کے انتظار میں بیٹھے رہنا ایسا ہی ہے جیسے ایک شخص سمندر میں ڈوب رہا ہو اور اسے کوئی لائف جیکٹ پیش کی جائے اور وہ جواب میں کہے کہ نہیں میں بہتر میعار والی لائف جیکٹ کا انتظار کروںگا۔اسی طرح ایک آرتھوپیڈک سرجن اگر یہ کہے کہ کرونا ویکسین لگوانے کے اگلے ہی روز اسے کورونا ہوگیا تو اِس کا مطلب ہے کہ وہ وائرولوجی کی اُس بنیادی سائنس سے ہی نا واقف ہے کہ ویکسین کا ٹیکہ فوری طور پر اثر نہیں کرتا بلکہ اسے لگوانے کے بعد جسم میں اینٹی باڈیز بننے میں کچھ ہفتے لگتے ہیں۔ موصوف نے جس طرح بار بار اپنی گفتگو میں ’دواؤں کے زہر ‘کے الفاظ استعمال کیے ہیں اُن سے صاف لگتا ہے کہ وہ اینٹی بائیوٹک اور اینٹی وائرل دواؤں اور ٹیکوں کو ’زہر‘ سمجھتے ہیں ۔

مسئلہ دراصل سوچ کا ہے۔ اگر کوئی شخص ڈاکٹر بننے کے بعد بھی ایسی سوچ رکھتا ہے تو اِس کا مطلب ہے کہ اُس نے میڈیکل سائنس کو سائنس سمجھ کر نہیں پڑھا بلکہ محض اِس لیے پڑھا کہ اسے بتایا گیا تھا کہ چار سال کا ایم بی بی ایس کورس کرنے کے بعد مستقبل محفوظ ہو جاتاہے ۔گو کہ اِن ڈاکٹروں نے میڈیکل سائنس کی کتابیں پڑھی ہوتی ہیں مگر اِن کی سوچ سائنسی نہیں ہوتی کیونکہ انہوں نے یہ کتابیں سائنسی انداز میں نہیں بلکہ اِس سوچ کے ساتھ پڑھی ہوتی ہیں کہ کسی بھی دوسری ڈگری کی طرح یہ بھی ایک ڈگری ہے جسے حاصل کرنے کے بعد زندگی ’سیٹل‘ ہو جائے گی۔سوچ کے اِس انداز کو ہم کسی حد تک Bounded Rationalityیعنی محدود عقلیت کہہ سکتے ہیں ، یہ تصور نوبل انعام یافتہ ماہر معاشیات ہربرٹ اے سائمن نے پیش کیا تھا ۔جن دو ڈاکٹرز کی میں نے مثال دی یہ اِس تصور پر پورا اترتے ہیں ۔پہلے ڈاکٹر سے اگر کوئی شخص کرونا کا علاج کروائے گا تو ڈاکٹر صاحب اُس کا بہترین علاج کریں گے کیونکہ وہ اپنے کام کے ماہر ہیں اور اِس ضمن میں انہوںنے متعلقہ ڈگریاں حاصل کی ہوئی ہیں لیکن مجموعی طور پر اُن کی سوچ سائنسی نہیں اور اسی رویے کو ہم محدود عقلیت کہتے ہیں۔محدود عقلیت اُس کیفیت کا نام ہے جس میںکوئی شخص ایک مخصوص دائرے میں رہ کر عقلی بنیاد پر فیصلے کرتا ہے مگر اُس دائرے کے باہر وہی شخص غیر منطقی اور غیر سائنسی انداز میں سوچنے لگتاہے ۔یہ اِس وجہ سے ہوتا ہے کہ انسان اپنی تمام تر ذہنی صلاحیتوں کو بروئے کار نہیں لاتے اور فیصلہ سازی کرتے وقت نہ صرف اُن کے پاس معلومات کی کمی ہوتی ہے بلکہ تمام ممکنہ عوامل کے نتائج کی پڑتال کی اہلیت بھی نہیں ہوتی۔ایک پروفیسر آف میڈیسن کو یہ علم ہے کہ کورونا کے مریض کو کون سی دوا دینی ہے مگر وہی پروفیسر آف میڈیسن اسی سانس میں یہ بھی کہتا ہے کہ انڈیا والے ہمیں جعلی ویکسین بنا کر دے سکتے ہیں، یہ محدود عقلیت کی مثال ہے۔سوچ کے اِس وائرس کی ویکسین کسی ٹیکے کی شکل میں تو موجود نہیں کہ جا کر لگوا لی جائے ، اِس وائرس سے نجات پانے کا طریقہ صرف یہ ہے کہ کسی بھی نظریے کو اپنانے سے پہلے خود سے ایک سوال پوچھیں کہ وہ کون سے عوامل ہوں گے جو اگر سامنے آگئے تو میں اپنا نظریہ غلط مان لوں گا /گی اور پھر اُن عوامل کو فرض کرکے اپنے نظریے کی پڑتال کریں۔ یہ کام کیسے کرنا ہے ، اِس کا ذکر پھر کبھی!

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین