میں ایک عرصے سے اُردو میں تنقید کے کسی شگوفے کے کھلنے کا منتظر ہوں۔ کیونکہ معروضی تنقید ہی اعلیٰ ادب کی تخلیق کا سر چشمہ بنتی ہے۔ تنقیدی شعور کے بغیر ادب کا تصور نا مکمل ہے۔ میرے احساسات جب یاس اور آس کی سولی پر لٹکے ہوئے تھے اس عالم میں ’’اُردو ادب کا فکری و تنقیدی تناظر ‘‘ جب ٹی سی ایس سے وارد ہوئی تو جیسے ویرانے میں چپکے سے بہار آجائے۔ تنقیدی مضامین پر مشتمل تصنیف اور وہ بھی کورونا کے دنوں میں۔ دل کو بہلنے بلکہ مچلنے کا موقع مل گیا۔ لیکن کچھ مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ غزلیں نظمیں اور افسانے پڑھنے بہت ہی آسان ہوتے ہیں۔ ان پر لکھنا اور بھی سہل۔ کسی غزل سے کچھ شعر اٹھائے۔ کسی نظم سے کچھ سطور۔ کسی افسانے کا پیرا گراف۔ اور انہیں ترقی پسندی۔ ادب برائے ادب۔ ادب برائے زندگی ۔ اسلامی ادب کے خانوں میں فٹ کردیا اور تقریب رُونمائی میں تالیاں بجوائیں۔
اکیسویں صدی میں دنیائے ادب میں روشن ہونے والی اس شمع کے اجالے میں ہمیں زیادہ تر گزشتہ صدیوں اور بالخصوص بیسویں صدی کے ادبی منظر نامے میں قیام کرنا پڑتا ہے۔ توجہ زیادہ شاعری بلکہ اُردو نظم پر مرکوز ہے۔ اس کی جہات۔ ہیئت۔ اشکال کا تجزیہ ہمیں اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔ میرے لیے تو ان اوراق سے گزرنا خود اپنے ماہ و سال سے دوبارہ گزرنے کے مترادف تھا۔ 60کی دہائی میں کلچر پر دائیں اور بائیں بازو سے متعلق میں اہل قلم کے مناظرے مباحثے یاد آرہے تھے۔ ادب کے طالب علم کی حیثیت سے مجھے بہت سی قد آور ادبی ہستیوں سے ملنے۔ ان کے علم پرور مکالمے سننے کا موقع ملا ہے۔ پروفیسر قیوم نظر گورنمنٹ کالج لاہور کے میگزین ’راوی‘ کے نگراں تھے۔ میں ان کے زیر سایہ اُردو سیکشن کا مدیر رہا۔ حلقۂ ارباب ذوق کے وائی ایم سی اے ہونے والے اجلاسوں میں بھی ان حضرات و خواتین کو بہت قریب سے دیکھا اور سنا۔
’اُردو ادب کا فکری و تنقیدی تناظر۔‘‘ کی اشاعت سے مجھے ایک والہانہ خوشی اس لیے ہورہی ہے کہ پاکستان میں اُردو کی سب سے بڑی بستی کراچی سے ہی تنقید کا سورج ابھر رہا ہے۔ نقادوں کی ایک کہکشاں اس کتاب سے بھی سامنے آرہی ہے۔میرے دھیان کی سیڑھیوں پر بھی یہ نقاد پائوں دھرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ شمع افروز محمد حسین آزاد سے بات شروع کررہی ہیں۔ پھر الطاف حسین حالی۔ سر سید احمد خاں۔ ڈاکٹر محمد حسن عسکری۔ ڈاکٹر عبادت بریلوی۔ پروفیسر وقار عظیم۔
ڈاکٹر شمس الرحمن فاروقی۔ ممتاز شیریں۔ ڈاکٹر سید عبداللہ۔ احتشام حسین۔ ڈاکٹر وزیر آغا۔ ڈاکٹر ممتاز حسین۔ مولانا صلاح الدین احمد۔ مظفر علی سید۔ سعادت سعید۔ اس قبیلے کے آخری فرد ڈاکٹر محمد علی صدیقی نظر آرہے ہیں۔ پروفیسر سحر انصاری بھی تنقید کے افق پر ایک دمکتے ستارے ہیں۔ ان کے مقالات کا مجموعہ ’’تنقیدی افق‘‘۔ تنقیدی ادب میں ایک گرانقدر اضافہ ہے۔ مگر شاعر سحر انصاری نقاد سحر انصاری پر غالب رہتا ہے۔
شمع افروز کی تصنیف کا سر آغاز ہی ’پاکستانی کلچر کے مباحث کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ ہے۔ یہ بھی ایک مکالمے کی شکل ہے۔ کلچر کیا ہے۔ اس پر بحث نصف صدی بلکہ پہلے سے ہورہی ہے کہ پاکستانی کلچر کیا ہے۔ اس بحث کو اس نوجوان محقق نے بڑے بزرگانہ انداز میں سمیٹنے کی کوشش کی ہے۔ پاکستان بننے سے ٹوٹنے اور پھر نئے پاکستان میں یہ بحث بار بار سر اٹھاتی رہی ہے کو پاکستانی کلچر کیا ہے۔
وادیٔ سندھ میں 5ہزار سالہ تہذیب پھر مہر گڑھ میں دس ہزار سالہ تہذیب کے آثارملے ہیں۔ مگر ہمارا ایک مخصوص حلقہ تہذیب کو سندھ میں محمد بن قاسم کی آمد سے ہی وابستہ کرنا چاہتا ہے۔ڈاکٹر شمع افروز پاکستانی کلچر کے سرکاری تصور کا ذکر بڑے مدلل انداز میں کررہی ہیں۔ ڈاکٹر وزیر آغا اور ڈاکٹر سلیم اختر کے تصورات کو بھی سامنے رکھتی ہیں۔ مختلف مباحث سے گزرتے ہوئے ان کا اپنا موقف صفحہ 21پر ایک قول فیصل کی طرح نقش ہے۔
’’ عوام کی تعداد خواص کے مقابلے میں زیادہ ہوتی ہے اس لیے زبان ہو یا رسم و رواج، رہن سہن ہو یا روز مرہ کے کاروباری معاملات ہر جگہ عوام کی سوچ اور طریقہ کار نظر آتا ہے۔ ہر بڑے اور چھوٹے شہر میں طبقۂ امراء تو کوٹھیاں اور بنگلے بنوالیتے ہیں لیکن ان کی موجودگی میں جھونپڑیوں اور پتھاروں کے کلچر کو کوئی روک نہیں سکتا۔ چنانچہ عوامی کلچر اس قدر گہرا اور معاشرے کی جڑوں میں پیوست ہوتا ہے کہ آخر کار طبقہ اعلیٰ و طبقہ حکمراں کو بھی ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ وہ لوک موسیقی اور لوک رقص اور لوک کلچر کے اظہار کے لیے نہ صرف اپنے ملک میں بلکہ بیرونی ممالک میں بھی پاکستانی کلچر کو متعارف کرانے کے لیے اُسی عوامی طبقے سے فنکاروں کو منتخب کرتا ہے یا چُنتا ہے جو کچی آبادیوں اور جھونپڑیوں میں رہتے ہیں جنہیں ہر طبقۂ خیال کا آدمی عوام کہہ کر مخاطب کرتا ہے۔‘‘
اب تو ثقافت اور فنون لطیفہ کی ذمہ داری بھی ہمارے ہاں عساکر پاکستان نے لے لی ہے۔ کلچر۔ ادب۔ موسیقی اور ترانے اب آئی ایس پی آر میں ہی تخلیق کیے جارہے ہیں۔
کلچر کے موضوع۔ اور’’ منٹو اپنی نظر میں‘‘ کے مضامین کے علاوہ دیگر ساری تحریریں ہمیں شاعری کے شبستانوں میں لیے پھرتی ہیں۔ شاعری ہمارے ہاں بہت ہورہی ہے۔ مگر اسے عام طور پر ایک کار بے مصرف خیال کیا جاتا ہے۔ مگر دنیا کے مہذب ممالک اور بڑی طاقتوں میں اب بھی شاعری کو ایک با وقار مقام حاصل ہے۔ نئے امریکی صدر بائیڈن کی حلف برداری کے موقع پر ایک جواں سال سیاہ فام شاعرہ اماندہ گوریان کی نظم The Hill we Climb ۔ بھی اس تاریخی تقریب کا حصّہ تھی۔
انہوں نے اُردو آزاد نظم کے سب سے اہم شاعر راشد کے شاعرانہ اسلوب۔ عالی جی کی نظم ’انسان‘ جدید اُردو نظم پر تحریکوں کے اثرات پھر ثلاثی۔ کافی۔ نظمانہ۔ نعت گوئی کا بھی محاکمہ کیا ہے۔ میرے نزدیک ان کے دو مضامین ’’جدید اُردو نظم پر دیگر زبانوں کے اثرات‘‘ اور’’ جدید اُردو نظم اور ہماری تہذیب و ثقافت‘‘۔ بہت اہم تحقیقی تجزیے ہیں۔ اگر وہ اسی تناظر میں اپنی تحقیق اور تصنیف جاری رکھیں گی اور جدید شاعری کا جائزہ لیتی رہیں گی تو وہ اس خلا کو بحسن و خوبی پُر کرتی رہیں گی۔ جو اس وقت اُردو تنقید میں موجود ہے۔ ایک نقاد یونیورسٹیوں۔ میدانوں۔ صحرائوں۔ پہاڑوں۔ گلی کوچوں میں بکھری ہوی دانش کو اپنی عمیق نظری سے ایک منظم انداز میں لاکر صرف پاکستان میں ہی نہیں جنوبی ایشیا میں نشاۃ ثانیہ کے لیے راہ ہموار کرسکتا ہے۔
وہ بجا طو رپر کہہ رہی ہیں:
’’جدید نظموں کا تہذیبی مطالعہ کرتے ہوئے اس پر غور و فکر کررہے تھے کہ اس کے بنیادی تصورات کس حد تک ہندوستانی ذہن ، مزاج اور اس کی روح سے ہم آہنگ ہیں۔ جہاں تک اصناف کا تعلق ہے اسے انگریزی ادب، فارسی ادب، جاپانی ادب، فرانسیسی ادب وغیرہ سے مستعار لیا گیا ہے۔ اور کوئی بہت بڑی تبدیلی نہیں ہوئی ہے۔ مقامی اثرات بھی اس نے کسی حد تک قبول کیے۔ مقامی وغیر مقامی اثرات ہم آمیز ہوکر نظر آتے ہیں۔‘‘
یہیں وہ ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کا حوالہ دیتی ہیں:
’’ یہ درست ہے کہ اُردو شاعری نے ہندوستائی دیو مالا کو بہت کم منہ لگایا اور وہ ہندی تلمیحوں کا ذکر ایسی سہولت اور اعتماد سے نہیں کرتے جیسے عربی یا ایرانی تلمیحات کا ذکر کرتے ہیں۔‘‘ اُردو نظم کے فکری اور تنقیدی تناظر کا بہت بھرپور طریقے سے احاطہ کرتی ہے۔
’جدید اُردو نظم پر دیگر زبانوں کے اثرات۔ عالمی و علاقائی پس منظر میں:
بڑی عرق ریزی سے گندھا ہوا مضمون ہے۔ میں سوچ کر ہی حیران ہورہا تھا کہ 1857 سے 2020 تک کی نظمیں کیسے تلاش کی گئی ہوں گی اور ان میں انگریزی الفاظ کے استعمال کو کس طرح ڈھونڈا گیا ہوگا۔ صرف انگریزی ہی نہیں۔ عربی فارسی کے ساتھ ساتھ پاکستان کی علاقائی زبانوں سندھی بلوچی پشتو پنجابی کے پیوند بھی دیکھے گئے ہیں۔ مگر ہماری نئی نسل مشرقی پاکستان کی عطیم اور ادب سے مالا مال بنگالی زبان کو بھول جاتی ہے۔ وہ بھی 1947 سے 1971 تک ہمارے ساتھ رہے۔ بنگالی ادب نے بھی ہماری اُردو نظموں کو متاثر کیا ہے۔ ان کا ذکر بھی ہونا چاہئے تھا۔ یہ تو خیر ایک اشارہ تھا۔ اس مضمون میں دوسری زبانوں کے الفاظ کا ہی نہیں۔ بلکہ ان سے وابستہ روایات۔
ثقافت۔ محسوسات کے اثرات کا بھی تجزیہ ملتا ہے۔ غالب سے لے کر جاذب قریشی تک کے ہاں ان اثرات کی جستجو ہے۔کسی بھی تنقید یا تحقیق کے لیے جان جوکھوں میں ڈالنا پڑتی ہے۔ لائبریریوں کی خاک چھانی جاتی ہے۔ اب یہ انٹرنیٹ ہماری مشکلیں آسان کررہا ہے۔ مگر اس میں بار بار تصدیق کی ضرورت محسوس ہوئی۔ ڈیڑھ سو سال سے زیادہ کے ادب۔ شاعری۔ تنقید کا مطالبہ کارے دارد۔ ان مضامین سے ادب کی ایک نئی مگر مختصر تاریخ بھی مرتب ہوگئی ہے۔ نئی نسل کو لائبریریوں کی راہ نہیںدیکھنا ہوگی۔ ان تحریروں سے ہی روشنی حاصل کرسکتی ہیں۔
میری آرزو ہے اُردو ادب میں ان دنوں معروضی تنقید کا فقدان ہے۔ نئی نسل میں ہمیں شاعر افسانہ نگار ناول نویس بکثرت مل رہے ہیں۔ لیکن تنقید کا شعبہ ویران ہے۔ کوئی اس طرف رُخ نہیں کرتا۔ کیونکہ اس میں محنت زیادہ پڑتی ہے۔ پھر کتابوں کی رُونمائی کی تقریبات۔ اخبارات کے ادبی صفحات اور لٹریری فیسٹیولز نے بھی معروضی تنقید کا گلا گھونٹ دیا ہے۔ یہاں ایک دوسرے کی قصیدہ گوئی ہوتی ہے۔ ادب کی جہات پر سنجیدہ تحقیق نہیں ہوتی۔ بے وزن شاعری کے مجموعے بھی شائع ہورہے ہیں۔ سوشل میڈیا نے بھی بہت سے ملک الشعراء پیدا کردیے ہیں۔ ناول اور افسانے بھی۔ یو ٹیوب چینلوں میں سلسلہ وار چل رہے ہیں۔ رہی سہی کسر ٹی وی چینلوں کے ڈراموں نے پوری کردی ہے۔
گزشتہ دو یا تین دہائیوں سے ادب کا سنجیدہ۔ معروضی اور حقیقت پسندانہ جائزہ نہیں لیا جارہا ہے۔ حالانکہ اہل قلم کانفرنسیں ہورہی ہیں۔ کتاب میلے سج رہے ہیں۔ عالمی اُردو کانفرنس ہورہی ہے۔60اور 70کی دہائیوں میں ترقی پسندوں اور ارباب ذوق کی طرف سے ہر سال شائع ہونے والے شاعری اور افسانوں کے انتخاب سے بھی معیاری تخلیقات پڑھنے کو مل جاتی تھیں۔صرف اُردو ہی نہیں پاکستان کی قومی زبانوں پنجابی۔ سندھی۔ سرائیکی۔ بلوچی۔ براہوی۔ پشتو۔ ہندکو۔ پوٹھوہاری۔ بلتی۔ کشمیری اور دیگر زبانوں میں بہت اعلیٰ شاعری ہورہی ہے۔ افسانہ لکھا جارہا ہے۔ ان کو بھی عام پاکستانی قارئین سے روشناس کروانا چاہئے۔ ان زبانوں میں بھی معروضی تنقید ناپید ہے۔ انجمن تحسین باہمی ہر جگہ برپا ہے۔
شمع افروز اپنی تنقید میں اپنی رائے مسلط کرنے کی کوشش نہیں کرتی ہیں۔ نہ ہی تحریروں کو جدیدیت ما بعد جدیدیت۔ ساختیات۔ پس از ساختیات۔ وطن پرستی۔ روحانی یا اسلامی نقطۂ نظر سے جانچتی ہیں۔ کسی بھی ادبی تخلیق کے لیے جو آفاقی اصول قبولیت حاصل کرچکے ہیں۔ ان کی روشنی میں ماضی کا تجزیہ کرتی ہیں ۔ حال کا جائزہ لیتی ہیں۔ قاری اس کے بعد خود مستقبل کا تعین کرسکتا ہے۔