• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اللہ کے نبیﷺ نے غارِ ثور میں تین دن قیام کے بعد پیر کی صبح مدینہ منوّرہ کی جانب کُوچ کا فیصلہ فرمایا۔ سیّدنا ابوبکر صدیقؓ کو تیاری کا حکم دے دیا گیا تھا۔ اُن کے غلام، عامر بن فہیرہؓ اور صحرائی راستوں کے ماہر، عبداللہ بن اریقط، حضرت سیّدنا صدیقِ اکبرؓ کے گھر میں پَلی دونوں اونٹنیاں لے کر علی الصباح حاضر ہوگئے۔ یوں چار افراد پر مشتمل اِس مختصر سے قافلے نے ایک پُرخطر سفر کا آغاز کردیا۔ گو کہ عبداللہ بن اریقط مسلمان نہیں ہوا تھا، لیکن آنحضرت ﷺ کو اُن پر اعتماد تھا، اِسی لیے اُجرت کے عوض راستہ بتانے کی خدمت پر مامور تھا۔ 

اُس نے رسول اللہﷺ کی اونٹنی کی مہار پکڑی اور مدینہ منوّرہ کے مخالف سمت، جنوب کی جانب یمن کے راستے پر روانہ ہوگیا۔ پھر اُس نے بحرِ احمر کے ساحل کے قریب سے گزر کر ایک سنسان، اَن جان اور دشوار راستہ اختیار کیا، جس پر عام طور پر سفر نہیں کیا جاتا تھا۔ گرم دنوں میں صحرا کے درمیان سفر کرتے ہوئے دو دِنوں ہی میں زادِ راہ ختم ہوگیا۔ انعام کے لالچ میں سرگرداں لوگوں سے بچتا بچاتا یہ قافلہ وادیٔ قدیر کی بیرونی گزرگاہ کے قریب پہنچا، تو ایک بڑا خیمہ نظر آیا۔ 

یہ خیمہ ایک پختہ عُمر کی نہایت باوقار، توانا اور بارُعب خاتون، اُمّ ِ معبد کا تھا، جو اس راستے سے گزرنے والے مسافروں کی خدمت کرکے دلی سکون و راحت حاصل کرتی تھیں۔اُن کا پورا نام و نسب یوں ہے: عاتکہ بنتِ خالد بن خلید بن منقد بن ربیعہ بن احرام۔ تاریخ میں اپنی کنیت، اُمّ ِ معبدؓ کے نام سے مشہور ہوئیں۔ قبیلہ بنو خزاعہ کی شاخ، بنی کعب سے تعلق رکھتی ہیں۔ اُن کا نکاح اپنے چچازاد، تمیم بن عبدالعزیٰ سے ہوا تھا۔(طبقات ابنِ سعد، 412/8)

حضورﷺ، اُمّ ِ معبدؓ کے خیمے میں

نبی کریمﷺ نے خیمے کے قریب رُکنے کا حکم فرمایا، پھر اونٹنی سے اُتر کر خود بنفسِ نفیس خیمے کے اندر تشریف لے گئے اور فرمایا’’ اے معزّز خاتون! ہم سفر پر ہیں۔ اگر تمہارے پاس کھانے پینے کو کچھ ہو، تو ہمیں قیمتاً دے دو۔‘‘ اُمّ ِ معبدؓ نے اپنے سامنے ایک نہایت حَسین و جمیل اور نورانی شخصیت کو پایا، جن کے چہرۂ اقدس سے نور کی کرنیں پُھوٹ رہی تھیں۔ قحط کا زمانہ ہونے کی وجہ سے وہ خالی ہاتھ تھیں، لہٰذا اظہارِ تاسّف کرتے ہوئے عرض کیا’’ اِس وقت ہمارا علاقہ قحط زدہ ہے۔ واللہ! اگر میرے پاس کچھ بھی ہوتا، تو مَیں لازمی طور پر حاضر کردیتی۔

مجھے آپ لوگوں کی میزبانی کرکے بڑی خوشی ہوتی، لیکن مَیں مجبور ہوں کہ اِس وقت کچھ بھی پیش نہیں کرسکتی، جب کہ میرے شوہر بھی بکریاں چَرانے گئے ہوئے ہیں۔‘‘اِسی گفتگو کے دَوران آنحضرتﷺ کی نظرِ مبارک صحن کے گوشے میں بیٹھی بکری پر پڑی، تو آپؐ نے دریافت فرمایا’’ یہ بکری، جو اُس کونے میں بیٹھی ہے، کس کی ہے؟‘‘ اُمّ ِ معبدؓ نے جواب دیا’’ یہ بکری بھی میری ہے، لیکن بے چاری نحیف و نزار ہونے کی وجہ سے ریوڑ کے ساتھ چراگاہ نہیں جاسکتی۔‘‘ آپؐ نے پھر فرمایا’’ کیا یہ تھوڑا سا دودھ بھی نہیں دیتی؟‘‘ وہ بولیں’’ یہ دودھ دینے سے قاصر ہے۔ 

اپنی کم زوری کی وجہ سے کافی عرصے سے دودھ نہیں دیتی۔‘‘ اس پر حضورﷺ نے ارشاد فرمایا’’ اگر تم اجازت دو، تو مَیں اس کا دودھ دوہ لوں؟‘‘ اُمّ ِ معبدؓ نے تعجب بھرے لہجے میں کہا’’ اے اللہ کے برگزیدہ بندے! میرے ماں، باپ آپؐ پر قربان! ویسے تو آپ کو اجازت ہے، مگر اس کے تَھن تو کافی مدّت پہلے ہی سُوکھ چُکے ہیں۔‘‘

حضورِ انورﷺ بکری کے پاس تشریف لے گئے اور اُس کی پیٹھ سہلائی، سَر پر ہاتھ پھیرا، اپنے دستِ مبارک سے اُس کے تَھنوں کو چُھوا اور پھر دُعا فرمائی’’ یااللہ! اِس عورت کی بکریوں میں برکت عطا فرما اور اس لاغر و کم زور بکری کے تَھنوں کو دودھ سے بَھر دے۔‘‘ ابھی کچھ ہی لمحات گزرے تھے کہ بکری کے سوکھے تَھن دودھ سے لبریز ہوگئے۔ حضورﷺ نے ایک بڑا برتن منگوایا اور بسم اللہ پڑھ کر دودھ دوہنا شروع کردیا۔ وہ برتن دودھ سے بَھر گیا، لیکن تَھنوں میں دودھ کم نہ ہوا۔ آپؐ نے سب سے پہلے اُن خاتون کو دودھ پیش کیا،جنہوں نے خُوب سیر ہوکر پیا، پھر آپؐ نے اپنے رفقاء کو پیش کیا۔ وہ سب بھی شکم سیر ہوگئے۔ 

آخر میں خود پیا اور فرمایا’’ لوگوں کو پلانے والا خود آخر میں پیتا ہے۔‘‘جب خیمے میں موجود تمام افراد نے خُوب سیر ہوکر دودھ پی لیا، تو آپؐ نے دوبارہ برتن دودھ سے بَھرا اور اُمّ ِ معبدؓ کے حوالے کرتے ہوئے فرمایا’’ یہ دودھ اپنے شوہر کے لیے رکھ لو، جب وہ واپس آئیں، تو اُنھیں دے دینا۔‘‘ اس کے بعد وہ مقدّس قافلہ اپنی منزل کی جانب روانہ ہوگیا۔ اُمّ ِ معبدؓ اُن کے جانے کے بعد تک حیرت کے سمندر میں غوطہ زن تھیں۔ اُنہوں نے ایک نظر جھانک کر بکری کی جانب دیکھا، جو مزے سے جگالی کررہی تھی اور اُس کے تَھن دودھ سے بَھرے ہوئے تھے۔

شوہر کا تجسّس

کچھ ہی دیر گزری تھی کہ ابو معبدؓ اپنی دُبلی پتلی ٹانگوں والی، کم زور اور لاغر بکریاں ہانکتے ہوئے آن پہنچے۔ خیمے کے کونے میں دودھ کا بڑا برتن بَھرا دیکھا، تو حیرانی سے پوچھا’’ معبد کی ماں! یہ اِتنا سارا دودھ کہاں سے آگیا؟ بکریاں تو میرے ساتھ صحرا کے دُور دراز علاقے میں تھیں؟ اور گھر میں ایک مریل بکری کے علاوہ دودھ دینے والی کوئی اور بکری بھی نہ تھی۔‘‘ اِس پر اُمّ ِ معبدؓ نے مسرّت کا اظہار کرتے ہوئے کہا’’آج تو کمال ہی ہوگیا۔ بخدا! ہمارے گھر کے سامنے سے اللہ کے ایک برگزیدہ بندے کا گزر ہوا، جن کے ساتھ اُن کے تین رفقاء بھی تھے۔ 

وہ زادِ راہ کی تلاش میں خیمے کے اندر آئے اور اُن کی نظر ہماری لاغر بکری پر پڑی۔ بس یہ سب کچھ اُن ہی کا کمال ہے۔‘‘ اُمّ ِ معبدؓ نے واقعے کی پوری تفصیل اپنے شوہر کے گوش گزار کردی۔ شوہر حیرت زدہ تو پہلے ہی تھے، پورا واقعہ سُننے کے بعد اُن کا تجسّس مزیدبڑھ گیا۔ اہلیہ سے کہا’’ مجھے ذرا اُن کا حلیہ تو بتانا۔ مجھے شبہ ہے کہ یہ کہیں وہی صاحب نہ ہوں، جن پر قریش نے 100اونٹنیوں کا انعام مقرّر کیا ہے اور اب پورا مکّہ اُن کی تلاش میں سرگرداں ہے۔‘‘

رُخِ مصطفیٰﷺ کی مختصر، مگر جامع تصویر کشی

اُمّ ِ معبدؓ نے ایسے دِل کش اور سحرکن انداز میں آپؐ کا حلیۂ مبارک اور اوصاف و کمالات کا نقشہ کھینچا کہ جیسے آپؐ سامنے تشریف فرما ہوں۔ وہ کہتی ہیں کہ’’ مَیں نے ایک ایسے شخص کو دیکھا، جس کا حُسن و جمال نمایاں تھا۔ چہرہ روشن تھا، اخلاق پاکیزہ تھے، بدن بھاری تھا، نہ نحیف۔ خُوب صُورت اور خوش اندام۔ آنکھوں میں گہری سیاہی، پلکیں لمبی، آواز بلند مگر کرخت نہ تھی۔ آنکھوں کی پتلیاں بہت سیاہ اور ڈھیلے بہت سفید تھے۔ آنکھوں کے کونے سیاہی مائل تھے۔ 

بھویں ایک دوسرے سے بالکل الگ تھیں اور نہ بالکل ملی ہوئیں، درمیان میں ہلکے ہلکے بال تھے اور کنارے باریک تھے۔ بال نہایت سیاہ تھے، گردن خُوب صُورتی لیے ہوئے لمبی، داڑھی گھنی تھی۔ خاموش ہوتے تو باوقار، گفتگو کریں، تو پُرکشش، جیسے زبان سے موتیوں کی لڑی نکلتی چلی آرہی ہو۔ بولتے تو آواز گردوپیش پر چھا جاتی۔ کلام شیریں اور واضح، کم گو نہ باتونی، دُور سے سنو تو آواز سب سے بلند، مگر نہایت خوش آہنگ۔ قریب سے سنو، تو بہت شیریں اور بہت لطیف ۔ درمیانہ قد، نہ ایسا دراز کہ بدنُما نظر آئے اور نہ اِتنا پستہ کہ کوئی نگاہ اس سے بلند تر کی طرف متوجّہ ہو۔ اپنے ساتھیوں میں سب سے ترو تازہ، خوش نظر تھے۔ 

سب سے بہتر قدر و منزلت رکھتے تھے۔ رفقاء اُن کے گرد گھیرا بنائے رکھتے تھے، اُن کی بات کو بڑی توجّہ سے سُنتے اور کوئی حکم دیں، تو لپک کر بجا لاتے تھے۔ ترش رُو تھے اور نہ ہی درشت کلام‘‘(سیرت سرورِ عالمؐ، جلد2صفحہ733)۔ یہ سُن کر ابو معبدؓ نے کہا’’ خدا کی قسم! یہ تو وہی ہیں، جن کے بارے میں لوگ طرح طرح کی باتیں کر رہے ہیں۔ اگر مَیں اُن سے ملتا، تو اُن کی رفاقت اختیار کرنے کی درخواست کرتا۔ اگر کوئی موقع ملا، تو مَیں ضرور اِس کی کوشش کروں گا۔‘‘

میاں ،بیوی کا قبولِ اسلام

مؤرخین لکھتے ہیں کہ اِس واقعے کے کچھ عرصے بعد یہ دونوں میاں، بیوی، حضورﷺ کی زیارت کے لیے مدینہ منوّرہ گئے اور آنحضرت ﷺ کے دستِ مبارک پر بیعت کرکے مشرف بہ اسلام ہوگئے۔ حضرت اُمّ ِ معبدؓ کی یہ بکری 18؍ہجری تک زندہ رہی اور حضرت عُمر فاروقؓ کے دورِ خلافت میں جب سخت قحط پڑا، جس میں تمام جانوروں کے تَھنوں کا دودھ خشک ہو گیا تھا، اُس وقت بھی یہ بابرکت بکری صبح و شام برابر دودھ دیتی رہی۔(طبقات ابنِ سعد413/8)

ایک جِن کے اشعار

رسول اللہﷺ نے مکّے سے صبح سویرے ہجرت فرمائی تھی، پھر راستہ بھی مدینے سے مخالف سمت کا تھا، چناں چہ اہلِ مکّہ کو معلوم نہ ہوسکا کہ آپﷺ کس جانب تشریف لے گئے ہیں۔ اچانک فضا میں ایک آواز گونجی، جسے لوگ بخوبی سُن رہے تھے، لیکن بولنے والا دِکھائی نہیں دے رہا تھا۔ وہ یہ کہہ رہا تھا’’اللہ ربّ العرش ان دو رفیقوں کو بہترین جزا دے، جو اُمّ ِ معبدؓ کے خیمے میں نازل ہوئے۔ وہ دونوں خیر کے ساتھ اُترے اور خیر کے ساتھ روانہ ہوئے اور جو حضرت محمّد صلی اللہ علیہ وسلّم کا رفیق ہوا، وہ کام یاب ہوا۔ ہائے قُصیّ…! اللہ نے اس کے ساتھ کتنے بے نظیر کارنامے اور سرداریاں تم سے سمیٹ لیں۔ بنو کعب کو اُن کی خاتون کی قیام گاہ اور مومنین کی نگہداشت کا پڑائو مبارک ہو۔ 

تم اپنی خاتون سے اُس کی بکری اور برتن کے متعلق پوچھو۔ تم اگر خود بکری سے پوچھو گے، تو وہ بھی شہادت دے گی۔‘‘ حضرت اسماءؓ کہتی ہیں کہ’’ ہمیں معلوم نہ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے کدھر کا رُخ فرمایا ہے کہ ایک جن زیریں مکّہ سے یہ اشعار پڑھتا ہوا آیا۔ لوگ اُس کے پیچھے پیچھے چل رہے تھے، اُس کی آواز سُن رہے تھے، لیکن خود اُسے نہیں دیکھ پا رہے تھے۔ یہاں تک کہ وہ بالائی مکّے کی جانب نکل گیا۔‘‘ وہ کہتی ہیں کہ’’ جب ہم نے اُس کی بات سُنی، تو ہمیں معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کس طرف گئے ہیں۔‘‘ (الرحیق المختوم، ص236)

مناقب

حضرت اُمّ ِ معبدؓ وہ خوش قسمت خاتون ہیں، جو اپنی مہمان نوازی کی صفت کی بناء پر دیدارِ مصطفیٰﷺ سے سرفراز ہوئیں اور اعلیٰ مرتبہ پایا۔ یہ وہ خوش بخت صحابیہؓ ہیں کہ جنہوں نے سیرتِ طیّبہ ؐ کی مختصر ترین، لیکن جامع لفظی تصویر پیش کرکے سیرت نگاری کی تاریخ میں اپنا نام سنہری الفاظ سے رقم کروا لیا۔

تازہ ترین