• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

خیال تازہ … شہزادعلی

(گزشتہ سے پیوشتہ)

افواج کو صرف بیرکوں تک محدود کیا جائے اور شہری آبادیوں پر مشتمل علاقے کو ہر طرح کی افواج سے پاک کیا جائے اور انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کو مقبوضہ کشمیر میں داخلہ کی اجازت دے اور انسانی حقوق کی پاسداری کو یقینی بنائے، پاکستان آزاد کشمیر اور گلگت اور بلتستان پر مشتمل ایک حکومت کو پہلے خود تسلیم کرے اور پھر عالمی برادری سے تسلیم کرانے کی سفارتی مہم شروع کرے، یا دونوں خطوں کے الگ الگ ڈھانچوں کو الگ الگ طور پر تسلیم کرے،اگر پاکستان کسی وجہ سے بھی آزاد کشمیر اور گلگت اور بلتستان کی حکومتوں کو تسلیم کرنے میں کوئی امر مانع سمجھتا ہے تو پھر کم از ہنگامی بنیادوں پر بین الاقوامی سطح پر کشمیر ڈیسک قائم کرے، جن میں زیادہ سے زیادہ ذمہ داریاں خود کشمیر کے ان لوگوں کو دی جائیں جو کشمیر کے قضیے کے عالمی پہلووں سے کماحقہ آگاہ ہوں، کشمیرکے حوالے سے وسیع لٹریچر تقسیم کیا جائے اور دونوں ممالک امن عمل کو آگے بڑھانے کیلئے ایسا میکنزم اقوام متحدہ کے عالمی ادارے کی معاونت سے اپنانے کا اعلان کریں جس سے ریاست جموں کشمیر کے تمام خطوں کے منقسم لوگ آزادانہ طور پر بلا خوف و خطر ایک دوسرے سے میل ملاپ کر سکیں پاکستان اور بھارت اور ان کے درمیان خوشگوار تعلقات کار قائم کرنے کے لئے پس پردہ سہولت کار ریاست جموں کشمیر کے تمام خطوں کی قیادت کے علاوہ مہاجرین مقیم پاکستان اور برطانیہ، مشرق وسطیٰ، امریکہ اور دیگر مغربی ممالک میں آباد کشمیری باشندوں کے درمیان باہمی رابطوں اور گفت و شنید کے بامقصد مواقع فراہم کرنے کے لئے شروعات کریں تاکہ خود کشمیری اپنے مستقبل سے متعلق تمام آپشنز پر آزادانہ طور پر گہرائی سے غور کر سکیں اور کوئی اجتماعی ذہن بنا سکیں، ساتھ ہی اقوام متحدہ کی مسلمہ قراردادوں پر عمل درآمد کے لئے پاکستان اور بھارت مشترکہ طور پر درخواست کریں اور کشمیری عوام کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا اختیار تفویض کریں _ اسی طرح جو دیگر متنازع امور پاکستان اور بھارت کے عوام اور حکومتوں کو ایک دوسرے سے دور رکھے ہوئے ہیں ان کے حل کیلئے بھی سازگار ماحول تشکیل دیا جائے _ بھارت یا پس پردہ سہولت کار یہ تاثر دور کریں کہ پاکستان سے بھارت کے تعلقات کی بہتری کے لئے جس روڈ میپ کا تذکرہ ہو رہا ہے وہ صرف بھارت کو کوئی وقتی فائدہ پہنچانے کی غرض سے نہیں کیوں کہ پاکستان اور کشمیر کے وسیع حلقوں میں یہ تحفظات پائے جاتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان امن روڈ میپ دنیا کے سامنے بھارت کا ایک جمہوری اور انسانی حقوق کے حوالے بہتر چہرہ پیش کرنے کی غرض سے پیش کیا جا رہا ہے ورنہ نریندر مودی کی انتہا پسند حکومت سے یہ توقع کرنا عبث ہے کہ وہ نیک نیتی سے پاکستان کے ساتھ امن کا پراسیس شروع کرنا چاہتی ہے ۔ مگر ہمارے خیال میں ان سب خدشات، اور تحفظات کے باوجود موجودہ پیشرفت کو ہاتھ سے نکالنا دانشمندی کی بات نہیں ہوگی۔ہم دونوں ملکوں کے مقتدر حلقوں، کشمیری عوام اور تمام سٹیک ہولڈرز پر زور دیں گے کہ وہ بجائے فقط مذمتی اور مخالفت برائے مخالفت کے بیانات جاری کرنے کے اور ماضی کی طرح کی بعض روایات اور رویوں کا مظاہرہ کرنے کے بجائے قابل عمل اور معقول تجاویز سامنے لائیں جن پر عمل کر کے امن کے عمل کو آگے بڑھانے میں مدد ملے ۔ ہم یہاں پاکستان کے پالیسی ساز اداروں پر یہ بھی واضح کر دینا ضروری سمجھتے ہیں کہ اگر کشمیر پر کوئی آزادانہ ریفرنڈم منعقد ہو جاتا ہے تو یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ ریاست جموں کشمیر کے عوام کی واضح اکثریت مملکت پاکستان کے ساتھ رہنے کے حق میں ووٹ دیں گے مگر اگر اقوام متحدہ کے فریم ورک سے ہٹ کر پاکستان کسی پراسس پر راضی ہوا تو پھر قوی امکان ہے کہ کشمیر کا شاید جو علاقہ اس وقت اس کے زیر انتظام ہے وہی اسے ملے اس لئے پاکستان کی قیادت کو کشمیر پر اقوام متحدہ کے فریم ورک پر ہی زور دینا چاہئے تاہم کشمیر پر قرار داد میں بعض نقائص کو بھی دور کرنے کے لئے فوری اقدامات کئے جائیں وہ یہ ہے کہ پاکستان اس بات کو منوائے کہ رائے شماری سے پہلے کشمیر سے بیک وقت دونوں ممالک کی افواج کا مکمل انخلاء عمل میں لایا جائے کسی بھی صورت میں پاکستان کشمیریوں کو بھارت کی افواج کے رحم و کرم پر نہ چھوڑے۔ یہاں یہ بات بھی بعض جائزوں کے مطابق قابل اطمینان ہے کہ وزیر اعظم پاکستان اور آرمی چیف کے بیانات کا بغور جائزہ لینے سے یہ بات واضح طور پر سامنے آتی ہے کہ اس وقت بھی جموں و کشمیر پاکستان کی ہندوستان پالیسی کا بنیادی عنصر ہے اور پاکستان کی موجودہ سیاسی اور عسکری قیادت نے بھی بھارت پر یہ واضح کر دیا ہے کہ بھارت سے تعمیری اور بامقصد بات چیت کشمیر کے ساتھ مشروط ہے لیکن ہم یہ اضافہ بھی کرنا چاہیں گے کہ عمران خان کو چاہئے کہ وہ بھارت کے ساتھ کسی بھی روڈ میپ کی کامیابی کے لیے ملک کی تمام سیاسی قوتوں کو ساتھ لے کر چلیں۔ وہ اگر یہ واضح کر دیں کہ ان کی حکومت کا احتساب کا عمل نیب اور عدلیہ غیر جانبداری سے جاری رکھے اور حکومت کا کوئی سیاسی عمل دخل اس متعلق نہیں ہوگا اور وہ مجوزہ روڈ میپ پر اپوزیشن کا اعتماد حاصل کرنے کے لیے کوششوں کا آغاز کریں مگر جس طرح چند روز پہلے ان کی حکومت نے ایک روز ایک فیصلہ کیا کہ بھارت سے چینی اور کپاس منگوائیں گے اور اگلے ہی روز حتمی منظوری دینے کا مجاز ادارہ سمریاں مسترد کر دیتا ہے، ایسے رویئے کو دہرانے کی اب کوئی گنجائش اس لئے بھی نہیں رہی کہ اس روڈ میپ کے متعلق معاملات سامنے آنے کے بعد آپ کا کردار مزید سنجیدگی کا متقاضی ہے، آپ اس وقت تاریخ کے اس دور سے گزر رہے ہیں جہاں پر ملک اس طرح کی غلطیوں کا متحمل نہیں ہو سکتا ہے۔مختصراً یہ کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان بہتر تعلقات کی خواہش اور کوششیں مثبت قدم ہے اور اصولی طور پر پاکستان اور بھارت کے مفاد میں بھی ہے لیکن اس کیلئے ضروری ہے کہ دونوں ممالک تنازعات کی بنیاد بننے والےاہم ترین مسئلہ کشمیر پر لچک کا مظاہرہ کریں اور کشمیری عوام کی رائے کو مقدم جانتے ہوئے ان کی رائے معلوم کرنے کا مسلمہ عالمی طریقہ اپنانے کے لئے میکانزم وضع کریں جس سے صرف میری ہی نہیں میری قوم کی آنکھوں میں سجے خواب کو تعبیر مل جائے ۔

تازہ ترین