• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اگرآپ انگریزی روانی سے پڑھ اورآسانی سے سمجھ سکتے ہیں تو پھر پہلےBob Woodwardکی کتاب"Obama's Wars"پڑھیے۔ اس کے بعدAbbottabadسے OBLکو لے اڑنے پر بنی ہوئی فلم"Zero Dark Thirty"دیکھیے اور اس کے بعد"Brandon Bryant"سابقہDroneآپریٹر کاانٹرویو سن لیجیے جو1600ہلاکتوں کا اعتراف کرنے کے بعدپاگل ہوچکا ہے۔ان مشوروں پرعمل کرنے کے بعد آپ کواپنے قائدین کی امریکہ بہادر سے قربت بآسانی سمجھ میں آ جائیگی اور بحیثیت پاکستانی آپ کا سربلند ہونے کے بجائے ندامت سے یقینا جھک جائے گا۔ فکر کی کوئی بات نہیں کیونکہ9/11سے اب تک جس کسی نے بھی اس گھناؤنے فعل میں بالواسطہ یا بلاواسطہ حصہ لیا وہ اس کی سزا بھگت چکا ہے، بھگت رہاہے یاانشاء اللہ بھگتے گا۔ موجودہ الیکشن کو ہم جتنا بھی دھندلا کر لیں اس نے پاکستانیوں کو زندہ قوموں کی صف میں لاکھڑاکیاہے اوراپنے وطن سے عملی محبت کرنے والوں کی تعداد میں خاصا اضافہ کیا ہے۔اب نہ تو جھوٹ چل سکے گا اور نہ ہی قائدین کی دھوکہ دہی کام آسکے گی کیونکہ آئندہ الیکشن میں ٹرن آؤٹ انشاء اللہ 75%سے بھی زیادہ ہوگا۔
قارئین کرام! اللہ کے فضل سے مرکز اور صوبوں میں جمہوری حکومتیں قائم ہو چکی ہیں جو خوش آئند ہے۔ملکی تاریخ میں پہلی بار ایسا محسوس ہوا کہ عوام نے ایسی جماعتوں کو منتخب کیا جن سے خلوص کے ساتھ اچھی حکمرانی اور قانون کی بالادستی کی توقع ہے۔اس سمت ہماری شروعات بھی اچھی ہیں۔ مرکز میں وزراء کا چناؤ خلوص اور قابلیت پرمبنی نظر آتا ہے۔ ڈاکٹر مالک کا وزیرِاعلیٰ بلوچستان منتخب ہونا،KPKمیں تحریک انصاف کے ساتھ جماعت اسلامی کی حکومت کا بننا بھی ایک اچھا عمل ہے۔ اس موقع پر میں چند ایک گزارشات کرنا چاہوں گا۔سب سے پہلےECPکے بارے میں یہ عرض کروں کہ یہ وہ ادارہ ہے جس پرانتخابات کے انعقاد میں شفافیت اور نتائج کی قبولیت کا دارومدار ہے۔ بلاشبہ اس ادارے میں بہت سی اصلاحات ہو چکی ہیں اور موجودہ الیکشن کمیشن نے بھی بڑی خوش اسلوبی سے اپنا کام سر انجام دیا البتہ اس ادارے کو مزید فعال بنانے کے لیے کچھ بنیادی تبدیلیوں کی اشد ضرورت ہے۔ اس ضمن میں پڑوسی ملک ہندوستان جس کا الیکشن کمیشن ایک مستعد اور مستند ادارہ سمجھا جاتا ہے اس کے تجربے سے مستفید ہوا جا سکتا ہے۔ وہاں الیکشن کمشنر عدلیہ کے بجائے ایڈمنسٹریشن سے چنا جاتا ہے جس کی مدت ملازمت 6سال یا 65سال کی عمر سے زیادہ نہیں ہو سکتی۔ ہمارے یہاں الیکشن کے انعقاد کے لیے کم وبیش 70ہزار سے زائد پریذائیڈنگ آفیسرز کی ضرورت ہوتی ہے۔ موجودہ طریقہ کار سے آئندہ بھی ہمیں مختلف اقسام کی معذوریوں میں مبتلا اشخاص ہی دستیاب ہوتے رہیں گے۔ اس معذوری پر قابو پانے کے لیے آپ پاکستان کے معذور اداروں مثلاً ریلوے، PIA، واپڈا،KESCاورپاکستان اسٹیل وغیرہ سے چاق وچوبند لوگ حاصل کر سکتے ہیں۔ میرے خیال میں ریٹرنگ آفیسر تو عدلیہ سے ہونے چاہئیں مگرپریذائیڈنگ آفیسر کے لیے صرف پرائمری اسکولوں کے اساتذہ پر انحصار سے نکل کر ایسے اداروں کے اشخاص پر توجہ دی جائے جن کی نوکری مقامی ممبران اسمبلی کی دسترس سے باہر ہو۔ ضلعی سطح پر ان افراد کی فہرستیں عیاں کرکے اعتراضات وصول کیے جانے چاہئیں۔ اس کے علاوہ ووٹرز لسٹوں کی تیاری اور ووٹ ڈالنے کے طریقہ کار میں بھی جدید آلات کا استعمال ہونا چاہیے۔ بلاشبہ اگر ہم افواج پاکستان کی الیکشن کے روز بھرپور خدمات حاصل کریں تو 11اور18مئی میں جو خوف اور تضاد نظر آیا اس کو ختم کیا جا سکتا ہے۔ رہا قصہ نگران حکومتوں کا تو اس تجربے کو جس خلوص نیت سے ہمارے قائدین نے عملی جامہ پہنایا اور جس جانفشانی سے ہمارے بزرگوں نے اس کو نبھایا وہ کسی طرح بھی قابل رشک نہیں تھا لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ اس کو بھی ازسرنو پرکھا جائے۔
قارئین کرام! بلاشبہ حکومت کو بے انتہا مسائل کا سامنا ہے لیکن یہ سب کے سب قابل حل ہیں۔ اگر صحیح معنوں میں کوئی مسئلہ ہے تو وہ دہشت گردی ہے کیونکہ اس کے تانے بانے اور کنٹرول ہمارے ہاتھ میں نہیں۔ ڈرون کو نہ تو شیر کھا سکے گا،نہ ہی بلّا مارسکے گا ،نہ ہی یہ نعروں سے گرے گا اور نہ ہی ناظم الامور کی روزانہ طلبی سے رکے گا۔ اگر رکے گا یا گرے گا تو صرف ہمارے قومی اتحاد سے، عقل و فراست کے استعمال سے جس کے لیے سول اور فوجی قیادت کو مشترکہ حکمت عملی کے ساتھ آگے بڑھنا ہو گا۔ ہمیشہ کی طرح اس بار بھی جب امن کی بات شروع ہوئی تو یک لخت امریکہ کی پاکستان سے محبت جاگی اور TTPکے ایک سیاسی رہنما کو ڈرون کھا گیا۔ آئے دن آپ مختلف تجزیوں اور منظروں میں سنتے اور دیکھتے ہوں گے کہ اس دہشت گردی کی جنگ کے مختلف Stake Holders ہیں۔ یہ ہماری انتہا درجے کی کم عقلی اور کم فہمی ہے۔میری نظر میں صرف اور صرف پاکستان Stake Holder ہے باقی تمام کرنے والوں کو وہ کچھ کرنا چاہیے جو حکومت پاکستان کی منشاء اور پالیسی ہو لہٰذا حکومت کا فرض اولین ہے کہ وہ تمام متعلقہ اداروں کے ساتھ سر جوڑ کر بیٹھے اور ایک جامع حکمت عملی وضع کرے جس پر تمام ادارے ایمان کی حد تک یقین لے آئیں تاکہ اس پر عملدرآمد خوش اسلوبی سے ہو سکے ۔اگر ایسا ہو جائے تو یقین جانیے، اللہ ہمارا حامی و ناصر ہوگا۔
تازہ ترین