• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بلاشبہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں رہنے والے پاکستانیوں کیلئے پاکستان کا سفر اپنوں سے ملاقات کی خوشی کے باوجود انتہائی تکلیف دہ رہتا ہوگا ، کیونکہ ترقی یافتہ ممالک میں رہنے والے پاکستانیوں کو انسانیت کے در رخ دیکھنے کو ملتے ہوں گے ، ایک طرف دنیا کے ترقی یافتہ ممالک جہاں اخلاقیات ، سکون ، معاشی ترقی اور امن و امان جیسی سہولتیں موجود ہیں دوسری جانب پاکستان آنے کے بعد لاقانونیت،لوڈ شیڈنگ،امن وامان کی ابتر صورتحال دنیا کا ایک الگ رخ پیش کرتی ہے ، پاکستان کے تمام مسائل کی وجہ معاشی ترقی کا نہ ہونا ہے ، اگر معیشت ترقی کرتی تو پاکستان میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ نہ ہوتی ، اگر بجلی ہوتی توکارخانے چلتے ،اگر کارخانے چلتے تو لوگوں کو روزگار ملتا اور جب لوگوں کو روزگار حاصل ہوگا تو دہشت گردی اور لاقانونیت کا خود بخود خاتمہ ہوسکتا ہے ، اس وقت ہمیں جن مسائل کا سامنا ہے اس سے نکلنے کا بہترین حل یہ ہے کہ ہم اپنی معاشی حالت کو بہتر بنانے کیلئے اقدامات کریں ، جس میں بھارت کے ساتھ تجارت بھی انتہائی اہمیت کا حامل اقدام ہوسکتا ہے ، اپنی ترقی کیلئے ہمیں جاپان اور چین جیسے ترقی یافتہ ممالک کے تجربات سے سیکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ چین اور جاپان کے درمیان بھی سخت نظریاتی ،سیاسی اور سرحدی تنازعات موجود ہیں لیکن اس کے باوجود ملکی ترقی کے لئے جاپان نے سب سے بھاری سرمایہ کاری چین میں ہی کر رکھی ہے اسی طرح چین کی برآمدات کا بہت بڑا حصہ جاپان کو ہی جاتا ہے ، لہٰذا بھارت اورپاکستان اپنے باہمی سیاسی ،نظریاتی اور سرحدی تنازعات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ایک دوسرے کے ساتھ تجارت کو بڑھا کر دونوں ممالک کے عوام کو کئی اہم مسائل سے نکال سکتے ہیں ،بلاشبہ ہر قوم اور ملک عالمی برادری میں اپنا مقام بلند رکھنے کیلئے دو راستوں میں سے کسی ایک راستے کو چنتا ہے ایک راستہ طاقت کے ذریعہ دوسری قوم کو زیر کرنے کا ہوتا ہے تودوسرا راستہ معاشی اہداف کو حاصل کرکے مہذب اقدار کے ذریعہ دیگر ممالک میں نمایاں مقام حاصل کرنے کا ہے۔دوسری جنگ عظیم سے قبل جاپانیوں نے پہلا راستہ اپنایا ہواتھا۔ مگر شکست کے بعد جس طرح دوسرے راستے کو اپنایا اور اقوام عالم میں اپنا مقام بنایا وہ ایک نمونہ عمل ہے۔آج بھی بہت سے ترقی یافتہ ممالک اپنے مفاد کیلئے جنگوں کا راستہ اپنائے ہوئے ہیں مگر جاپان نے معاشی مسائل کے حل کی جانب قدم بڑھانے کو ترجیح دی ہے جس سے آج اس کے تعلقات پوری دنیا سے مثالی ہیں،گو کہ چین اور جاپان میں کچھ جزائر کے حوالے سے کشیدگی بھی ہے مگر مجموعی طور پر دیکھیں تو چین میں جاپانی سرمایہ کاری قابل تعریف ہے۔
چین میں جاپانی مصنوعات کی آج بھی اتنی ہی مانگ ہے جتنی چند دنوں قبل تھی ۔جزائر پر بڑھنے والی کشیدگی کے بعد دونوں ملکوں خصوصاً چین میں جاپانی فوڈ سینٹر اور جاپانی مصنوعات بنانے والی کمپنیوں کو نقصان پہنچایا گیا مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ جاپانی سرمایہ کاری بند ہوگئی ہو۔ جیساکہ ہم نے کہا کہ جاپانی مہذب اقدار کے تحت معاشی ترقی میں معاونت کرتے ہیں اس لئے کسی دوسرے ملک کو ان کی سرمایہ کاری سے کوئی خوف یا شکایت نہیں ہوتی ۔جاپانی سرمایہ کار دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی سرمایہ کاری کر رہے ہیں اور مزید سرمایہ کاری کے لئے آمادہ بھی ہیں مگر پاکستان خصوصا ً کراچی میں امن وامان کے حوالے سے بگڑی ہوئی صورتحال پر محتاط رویہ اپنائے ہوئے ہیں حکومت نے غیر ملکی سرمایہ کاری کیلئے یوں تو کئی اقدام اٹھائے مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ یہ قدم وقتی جذبات کی عکاسی کرتے ہیں اور وقت گزرتے ہی پاکستان کی وزارت تجارت وصنعت اور سرمایہ کاری بورڈپھر وہی اپنی پرانی روش پر دکھائی دیتے ہیں۔پاکستان میں یوں تو اب ہرسال ہی صنعتی و تجارتی ترقی کے حوالے سے ایکسپو منعقد کی جارہی ہے جس میں دنیا بھر کے سرمایہ کاروں اور تاجروں کو مدعو کیاجاتاہے انہیں ترغیبات بھی دی جاتی ہیں جس سے سرمایہ کار بڑی حد تک مطمئن بھی ہوجاتے ہیں مگر ایکسپو کے خاتمے کے بعد مطلوبہ مقاصد کے حصول کیلئے بھرپور کوششیں نہیں کی جاتیں ہمیں یاد ہے کہ سال 2011-12میں منعقد نمائش میں شرکاء کے ایک گروپ نے یہ تجویز دی تھی کہ اگر حکومت چھوٹے صنعتی زون بنا کر ان علاقوں میں بنیادی ضروریات کے ساتھ غیر ملکی سرمایہ کاروں کو مکمل تحفظ بھی دیا جائے تو غیر ملکی سرمایہ کار بڑی تعداد میں اس طرف آسکتے ہیں اس وقت ملک میں توانائی کا بحران ہے اگر حکومت غیر ملکی سرمایہ کار کو تحفظ دے اور سرمایہ کاری کیلئے ون ونڈو آپریشن ہو تو بہت سے غیر ملکی توانائی کے شعبے میں سرمایہ کاری کیلئے تیا رہیں مگردو سال گزر جانے کے بعد بھی حکومت نے امن وامان کی صورت کو کنٹرول نہیں کیا۔
گزشتہ دنوں کراچی میں ہونے والی ایکسپو میں بڑی تعداد میں غیر ملکی سرمایہ کار آئے انہیں حکومت نے مکمل سہولتیں دیں وہ کافی حد تک اس تجارتی وصنعتی نمائش اور مصنوعات سے متاثر بھی ہوئے مگرجب غیر ملکی سرمایہ کار کی نظر اخبارات پر پڑتی تھی تو وہ حیران ہو کر پوچھتے تھے کہ یہ سب کیا ہے خاص طور سے کراچی کے صنعت کاروں اور تاجروں سے جب گفتگو ہو ئی تھی تو وہ بھی غیر مطمئن نظرآتے تھے اب ایک خبر نے مزید جاپانی سرمایہ کاروں کو پریشان کردیاہے کہ کراچی کی بگڑتی ہوئی صورتحال پر کراچی کے تاجروں اور صنعتکاروں نے اپنی سرگرمیوں کو بند کرکے ہڑتال کی دھمکی دی ہے اسی طرح کراچی کے بزنس مین بھتہ ،اغواء برائے تاوان کے مسئلے سے دوچار ہیں جس پر حکومت قابو پانے میں ناکام ہے ۔ تاجروں کا کہنا ہے کہ صورتحال ناقابل برداشت ہوگئی ہے ۔صنعت و تجارت سے وابستہ افراد کی جانب سے جب یہ خبریں اور حالات انٹرنیشنل میڈیا میں آتے ہیں تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ غیر ملکی سرمایہ کار پاکستان میں سرمایہ کاری کیلئے سوچے۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ دیگر معاملات سے پہلے ملک میں امن وامان کی صورتحال پر توجہ دے اگر ملکی صنعتکار اور تاجر مطمئن ہوئے تو غیر ملکی بھی اطمینان سے سرمایہ کاری کرنے پر آمادہ ہوں گے۔ایکسپو 2013میں غیر ملکی مہمانوں نے خاصی دلچسپی ظاہر کی ہے بہت سے آرڈر بھی آئے ہیں مگر یہ آرڈر تبھی پورے ہوسکتے ہیں جب ملکی صنعتکار اور تاجر یکسوئی سے کام کرے گا، بنیادی سہولتیں میسر ہوں،پانی ،گیس اور بجلی وافر ملتی رہے ،جب جان ومال دونوں کا خطرہ ہو تو پھر کیسے آرڈر وقت پر تیار ہو سکیں گے ، صرف جاپان ہی نہیں پاکستان کو اب تجارت کیلئے اوپن پالیسی اپنانی چاہیے ، بیرون ملک سفارتخانوں میں بہترین افسران تعینات کیے جائیں ، جو پاکستان کی مصنوعات کو عالمی سطع پر متعارف کراسکیں ، پاکستان بزنس انڈسٹری کے لوگوں کو دنیا بھر کے تجارتی ایکسپو میں سرکاری کفالت میں شرکت کے موقع فراہم کئے جائیں ، نظریاتی اور سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر بھارت کے ساتھ تجارت کو ترجیح دی جائے تاکہ جو اشیاء ہم دیگر ممالک سے مہنگے داموں خرید رہے ہیں اسے کم قیمت میں پاکستان لایا جائے اور پاکستانی اشیاء کو ایک ارب سے زائد افرا د کی منڈی حاصل ہوسکے ، تاہم ان تمام اقدامات میں ملکی قیادت کا رول انتہائی اہمیت کا حامل ہے لیکن توقع ہے کہ میاں نواز شریف کی نئی حکومت ان تمام چیلنجوں سے نبرد آزما ہوسکے گی ۔
تازہ ترین