• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر:حافظ عبدالاعلیٰ درانی۔۔۔ بریڈفورڈ
کسی بھی بڑے آدمی کی طرف جھوٹ منسوب کرنانہایت قبیح حرکت سمجھی جاتی ہے تو اللہ کے بعد تو سب سے بڑے ہمارے نبی اقدس صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں، ان کی طرف جھوٹ منسوب کرنا کتنی دلیری کا کام ہے، آج کے کالم میں اس کی تھوڑی سی تفصیل بیان کی جائیگی ۔قرآن کریم نے فرمایاکہ جب کوئی ایرا غیرابندہ کوئی خبر دے تو اس کی تحقیق کرلیا کرو ورنہ بعد میں پچھتاوا ہوگا۔صحیح بخاری میں نبی اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے۔’’ کہ میری طرف جھوٹی بات منسوب کرنے والا اپنا ٹھکانہ جہنم میں سمجھے، یعنی یہ بڑی سخت جسارت ہے ۔(صحیح بخاری حدیث نمبر1229) مقدمہ صحیح مسلم میں بھی اس حدیث کا ذکرکیا گیا۔دوسری روایت میں ہے ’’ مجھ پر جھوٹ باندھنے والا شخص جہنم میں جائیگا (106)صحیح مسلم میں ہے جو میری طرف جھوٹ منسوب کرے گا وہ زمانے بھرکاجھوٹاشخص شمار ہوگا۔امام ابن حجر عسقلانی ؒنے مقدمہ فتح الباری میں الشیخ محمد بن ابراہیم الجوینی اور ان کے ساتھ محقق علماء کی جماعت کے بارے میں ذکر کیا ہے کہ یہ علماء ایسے شخص کے کفرکے بھی قائل ہیں۔ ایسا ہی فتوٰی امام ابن منیرکابھی ہے ۔(فتح الباری ج1ص224) شیخ الاسلام امام اہل السنہ ابن تیمیہ نے ’’ الصارم المسلول علی شاتم الرسول‘‘ کتاب لکھ کر نبی اقدس کی شان میں گستاخان کیلئے اسلام کا دروازہ ہی بند کردیااور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ محبت و ایمان کاحق ادا کردیا ہے جس میں گستاخ رسول کی صرف ایک سزا پر امت کا اتفاق ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی گستاخی کا مرتکب ہو (عوام نہیں ریاست)ایسے شخص کے قتل کا حکم دے ۔انہوں نے فرمایانبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارک میں ایک شخص کسی قبیلے کی خاتون سے شادی کرنا چاہتاتھا لیکن وہ راضی نہ تھی اس نے ایک جبہ پہنا اور کہا یہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہناکرنکاح کا پیغام دے کر تمہاری طرف بھیجا ہے ۔ لوگوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کوخبرکردی آپ نے فرمایا اس اللہ کے دشمن نے جھوٹ بولااورایک آدمی کو بھیجا کہ اگر وہ مل جائے تواس کی گردن ماردو ۔شیخ الاسلام نے اس حدیث کا ذکرکرکے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم پر جھوٹ باندھنے کی سزا اور شناعت پر تفصیلی گفتگو فرمائی کہ نبی اقدس پر جھوٹ بولنے والا مسلیمہ کذاب، اسود عنسی جیسا ہے،اس قسم کے واعظ علماء و مبلغین کو چاہیئے کہ وہ فتح الباری ج1ص224 )اور شیخ الاسلام کی معروف زمانہ ’’ الصارم المسلول علی شاتم الرسول ج2 ص 228سے239ملاحظہ کرلیں)اللہ تعالیٰ محدثین کرام کو جزائے خیر عطا فرمائے جنہوں نے امت میں روایات کی سند دیکھنے اور تحقیق کرنے کی روایت ڈالی ۔ اگر اہتمام اسناد نہ کیا جاتا تو یہ امت راہ راست پہچان ہی نہ پاتی ۔ حضرت عبداللہ بن مبارک نے فرمایا ’’ان الاسناد من الدین ولولا الاسناد لقال من شاء و ماشاء‘‘ ۔کہ تمہارا دین سند کے ساتھ مضبوط ہے ورنہ ہر کوئی جھوٹ سچ کہنے میں آزاد ہوتا ۔امام ابراہیم نخعی فرماتے ہیں کہ صحابہ کرامؓ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کو اپنا کر دکھایا کیونکہ انہوں نے اس دین کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے براہ راست حاصل کیا تھا ۔امام سفیان ثوری کہتے ہیں اسناد حدیث مومن کا ہتھیار ہے اگر ہتھیار نہ ہو تو لڑائی کس کے ساتھ کی جائے گی ۔امام ابن تیمیہ ؓ فرماتے ہیں اگر سند ثابت نہ ہو تو روایات میں جھوٹ یا سچ کو کیسے پرکھا جائے گا ؟ حضرت عبداللہ بن مبارکؓ فرماتے ہیں کہ سند حدیث کی مثال سیڑھی کی ہے ، اگر سیڑھی نہ ہو توچھت پر کیسے چڑھا جاسکتاہے۔ محدث بقی بن مخلدفرماتے ہیں اللہ نے اس امت کو سچ وجھوٹ کے درمیان فرق برتنے کیلئے سند کی تحقیق کا اعزاز دیا ہے ورنہ یہود و نصاریٰ کی طرح روایات میں الجھاؤ ہی ہوتا۔مزید فرماتے ہیں سچائی اور کذب کے درمیان ایک ہی حد فاصل ہے وہ ہے روایت کی سند ۔ اس کے سوا باقی سب شیطان کے وساوس ہیں۔حضرت سعید بن قطان ؒکہتے ہیں حدیث کو نہیں سند کو دیکھو اگر وہ صحیح ہے تو حدیث مان لو ورنہ رہنے دو ۔یہ تفصیلات مقدمہ صحیح مسلم ۔از ۱مام النووی، شرف اصحاب الحدیث از خطیب بغدادی ، منہاج السنۃ ج4۔ازامام ابن تیمیہ اور دیگر کتب اصول حدیث میں بھی تفصیل سے موجود ہیں ۔ جس رہنما کے ساتھ عقیدت ہوتی ہے اسی کی بات لوگ مانتے ہیں اس کی اداؤں کی نقل کرناکامیابی و سعادت کی بات سمجھتے ہیں، سب سے بڑی ہستی تو قائد اسلام کی ہے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کوئی بات منسوب کی جاتی ہے تو سننے والے کی آنکھیں عقیدت سے جھک جاتی ہیں اس لیے جوعلم کی بجائے جہالت کے دلداہ ہوتے ہیں وہ بغیر ہکلائے جھوٹی باتیں بھی رسول اقدس کی جانب منسوب کردیتے ہیں جو بہت سخت نقصان دہ ہے، اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب روایات کے پرکھنے کیلئے بڑے سخت اصول بنائے جن کی وجہ سے آج یہ امت دنیا میں منفرد امت ہے جس کی ہر بات کی سند موجود ہے، جس کی سند نہیں ہوتی اسے قبول نہیں کیاجاسکتا۔ہمارے مبلغین حضرات لچھے دار گفتگو کرنے کے ماہرہوتے ہیں بعض دفعہ نہیں بالعموم ایسی مجہول روایات بیان کرجاتے ہیں کہ سن کر بھی شرم آتی ہے جیسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا جنازہ سب سے پہلے اللہ نے پڑھایا۔ حور عین کا گانا سنا جائے گا، پہلے اللہ تعالیٰ گائیگااس گانے کی طوالت ستر سال ہوگی ۔ پھر جبرائیل کاگانا ہوگا جو شاید ایک کم ستر سال لمبا ہوگا پھر فلاں فلاں پھربموقع معراج ،عرش رب العالمین پرعبدو معبود کے درمیان خفیہ گفتگو ان کے ہاتھ لگ گئی اورایسے انداز سے بیان کیا جاتاہے کہ جیسے دو بچھڑے ہوئے محبوب پہلی دفعہ ملے ہیں نعوذ باللہ ۔حالانکہ کائنات میں اللہ عزوجل کا ادب و احترام سب سے زیادہ انبیاء کرام علیہم السلام کرتے تھے اور ان سب سے زیادہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کیا کرتے تھے لیکن ہمارے واعظوں نے اللہ سبحانہ وتعالی اور نبی اقدس کے درمیان کچھ ایسارومانوی رشتہ پیدا کردیا جس کا ادب واحترام میں کوئی مقام نہیں ۔ گویاہیررانجھا کی داستان ہے لاحول ولا قوۃ الا باللہ ۔ یعنی نہ توباری تعالیٰ کی عظمت و شان کے لائق ہے اور نہ نبی اقدس ؐ کی شایان شان ۔ حضرت یعقوب علیہ السلام نے بھیڑیئے سے گفتگوکی یا نہیں کی لیکن وہ مکمل تفصیلات کے ساتھ ہمارے واعظوں تک پہنچ گئی، اسی طرح اصحاب کہف کے کتے کی تقریربھی۔ سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب روایات بھی بڑی گستاخانہ ہوتی ہیں کہ انہوں نے ہزاروں ٹن وزنی درہ خیبر ایسے اکھاڑاکہ زمین و آسمان کے قلابے ملادیے ۔ایک بزرگ الشیخ عبدالقادر جیلانیؒ کو غوث اعظم بنا کر اتنے اختیارات دے دیے کہ انہوں نے عزرائیل سے قبض کی گئی روحوں کا تھیلا ہی چھین لیا،اسے چانٹا بھی مارا جس پر اس نے بارگاہ ربانی میں استغاثہ دائر کردیاتو رب کا جواب تھا کہ شکر کروتم سے روحیں ہی چھین لی گئیں اگر وہ یہاں تک آجاتے تو (اگلی بات ناقابل بیان ) نعوذ باللہ ۔ یمنی تابعی حضرت اویس قرنیؒ کی طرف بھی بے شمار روایات منسوب کرڈالیں ۔اس طرح کی جھوٹی غیر سنجیدہ بلکہ نالائق روایتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منبرپر کھڑے ہوکربیان کی جاتی ہیں جو بادشاہ ارض و سما کے حق میں بہت بڑی جسارت بلکہ گستاخی کے ضمن میں آتی ہیں۔ حالانکہ منبر رسول پر صرف اللہ و رسول کی بات ہی ہونی چاہیئے ۔اسی طرح نبی اقدس کی طرف جھوٹی احادیث منسوب کردی جاتی ہیں کہ جو شخص کسی کو رمضان کی خبر دے گا اس کیلئے جنت واجب ہے اور یہ خواب دس بندوں تک پہنچانے والے کیلئے لامتناہی فائدے حاصل ہوں گے وغیرہ وغیرہ ۔ جھوٹی روایات کا ایک لامتناہی سلسلہ ہے جسے اس کالم میں سمیٹا نہیں جاسکتا۔ ایسے واعظ عموماً بے علم ، دینی و دنیوی علوم کے جاہل ہی نہیں بلکہ کئی تو بڑے عالم سمجھے جاتے ہیں لیکن لچھے دار گفتگو کی خاطریہ غیر سنجیدہ رویہ بھی اختیار کرلیتے ہیں لیکن اگر یہ واعظین و مبلغین قرآن و حدیث کا علم رکھتے اور پھرروایات کے صحیح یا غلط ہونے کا معیارجانتے یعنی اصول حدیث سے واقف ہوں تو کبھی ایسی جسارتیں نہ کر پائیں ۔
تازہ ترین