• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حکومت اور کالعدم تحریک لبیک کے درمیان کب کیا ہوا

اسلام آباد (ایوب نا صر/خصوصی نامہ نگار) تحریک لبیک پاکستان کے سربراہ سعد حسین رضوی کی 12اپریل کو گرفتاری سے 20اپریل کو قومی اسمبلی میں فرانس کے سفیر کو ملک بدر کرنے کی قرارداد کی پیشی تحریک لبیک کی سیاسی حیثیت سے کامیابی کی نوید سناتی ہے۔

 وزیر داخلہ شیخ رشید احمد کے اس موقف کو رد نہیں کیا جا سکتا کہ کالعدم تحریک لبیک پاکستان ایک حقیقت ہے اور سیاسی جماعت کی حیثیت سے صوبائی اسمبلیوں کی تین نشستیں اور پنچاب میں تیسرا بڑا ووٹ بنک حاصل کر کے اپنا وجود بنوا لیا ہے۔

 12اپریل سعد رضوی گرفتا ر ہوئے ،12 اپریل تحریک لبیک نے ملک بھر میں ٹریفک کا پہیہ جام کر کے اپنی عوامی قوت کا اظہار کیا ،13اپریل تحریک لبیک پر پابندی لگا دی گئی ،جسے کا بینہ نے منظور کر لیا ۔ 

16 اپریل وفاقی وزیر داخلہ نے کہاکہ تحریک لبیک نے کال دی مگر کوئی باہر نہیں نکلا ،17 اپریل وزیر اعظم نے مغرب پر زور دیا کہ وہ توہین رسالت پر سزائیں دیں۔

تحریک لبیک نے ریاست کی رٹ کو چیلنج کیا جس پر اس کیخلاف انسداد دہشتگردی قانون کے تحت کارروائی کی گئی ۔

18 اپریل وفاقی وزیر داخلہ نے اپنی پریس کانفرنس میں دعویٰ کیا کہ 12 پولیس اور رینجرز اہلکاروں کی بازیابی کیلئے لاہور میں آپریشن کیا گیا ،ریاستی رٹ کی بحالی کیلئے اقدامات کرنا پڑے، ٹی ایل پی سے کوئی مذاکرات نہیں ہو رہے ۔

19 اپریل قوم سے خطاب کرتے ہو ئے وزیر اعظم عمران خان نے کہاکہ کالعدم تحریک لبیک سے حرمت رسول کیلئے حکمت عملی پر اختلاف ہے ،فرانس کا سفیر نکالنے سے ان کا نہیں ہمارا نقصان ہو گا۔

ایک طرف تو وزیر داخلہ نے مذاکرات نہ ہونے کی بات کی مگر اسی روز مفتی منیب الرحمان نے تحریک لبیک کی حمایت میں ملک گیر پہیہ جام شٹر ڈائون کا اعلان کر کے حکومت کو پسپائی پر مجبور کر دیا اور 24 گھنٹے کے دوران حکومت نے تحریک لبیک کی شوریٰ سے مسلسل مذاکرات کر کے امن بحال کرنے کی کوششیں کیں۔

 19اپریل رات سے صبح تک مذاکرات کے دور چلتے رہے ،جس کے نتیجے میں حکومت نے فرانس کے سفیر کی ’’ملک بدری ‘‘ سے متعلق قرارداد ایوان میں پیش کرنے کا معاہدہ کر لیا اور 20 اپریل کو قومی اسمبلی کا خصوصی ہنگامی اجلاس بلا کر ایوان میں قرارداد پیش بھی کر دی گئی۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) نے قرار داد پیش کرنے کے طریقہ کار کی مخالفت کی جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی نے قرارداد پیش کرنے کے موقع پر اجلاس سے واک آئوٹ کر دیا،تحریک لبیک پاکستان کے پس منظر میں جا ئیں تو پتہ چلتا ہےکہ 9 جنوری 2012 کو پیپلز پارٹی کے گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے قتل اور 29 فروری کو اڈیالہ جیل میں کانسٹیبل ممتاز قادری کی بھانسی کے بعد تدفین کاموقع تحریک لبیک کی سیا سی قوت کا پہلا مظاہرہ ثابت ہوا۔

نواز شریف حکومت کے دور میں الیکشن ایکٹ میں ہونے والی ترمیم میں ختم نبوت ؐ اور جماعت احمدیہ سے متعلق شک کو تبدیل کیا گیا تو تحریک لبیک نے راولپنڈی اسلام آباد کے سنگم فیض آباد انٹر چینج پر قبضہ کر لیا جو طویل ترین ثابت ہوا ،پولیس ناکام رہی اور بعد میں مقتدر قوتوں کو دھرنا ختم کرانے کیلئے متحرک ہونا پڑا۔

توہین آمیز خاکوں کے خلاف احتجاجی دھرنے کے موقع پرنومبر2020 ء میں حکومت کو اس جما عت کیساتھ فرانسیسی سفیر کی ملک بدری کیلئے اس وقت کے وزیر داخلہ اعجاز شاہ کے دستخطوں سے معاہدہ کر نا پڑااور فروری 2021ء میں قرارداد قومی اسمبلی میں پیش کرنے کا وعدہ کیا گیا ،جس پر چیف کمشنر اسلام آباد عامر علی احمد کے بھی دستخط موجود ہیں مگر حکومت نے قرارداد کے لیے ٹی ایل پی سے مزید وقت مانگ لیا اور گیارہ اپریل کو وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد اور وزیر مذہبی امور نورالحق قادری مذاکرات کیلئے گئے تو بات بگڑ گئی اور ٹی ایل پی نے دیکھائی جانے والی قراردادکا مسودہ مسترد کر دیا۔

ان کا موقف تھا کہ حکومت فرانس اور یورپی ممالک کے نام لے کر ان کے خلاف قومی اسمبلی میں قرار داد پیش کرے،حکومت نے جلد بازی کا مظاہرہ کیا اور آئی جی پنجاب کو حکم دیا کہ سعد رضوی کو گرفتار کر لیں،عمل در آمد کے بعد ان کے خلاف زیر دفعہ 302 اور انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج ہوااور آخری خبریں آنے تک رہا نہیں ہوئے ۔

تازہ ترین