• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن


لاہور ہائیکورٹ کے فل بینچ نے مسلم لیگ نون کے صدر شہباز شریف کی ضمانت متفقہ طور پر منظور کرلی۔

آمدن سے زیادہ اثاثوں کے کیس میں مسلم لیگ نون کے صدر شہباز شریف کی ضمانت کی درخواست کی سماعت لاہور ہائیکورٹ کے فل بینچ نے کی۔

لاہور ہائیکورٹ کے تین رکنی بینچ کی سربراہی جسٹس علی باقر نجفی کر رہے تھے جبکہ بینچ میں جسٹس عالیہ نیلم اور جسٹس شہباز رضوی بھی شامل تھے۔

لاہور ہائیکورٹ نے شہباز شریف کی ضمانت کا مختصر تحریری فیصلہ جاری کردیا، اور ان کی ضمانت بعد از گرفتاری کی درخواست منظور کرلی، 3 رکنی بینچ نے شہباز شریف کو 50 لاکھ روپے کے دو مچلکے جمع کرانے کا حکم بھی دیا۔

کیس کی سماعت کے موقع پر مسلم لیگ نون کی رہنما مریم اورنگزیب، رانا ثناء اللّٰہ، عظمی بخاری اور رانا ارشد کے علاوہ شہبازشریف کے وکیل اعظم نذیر تاڑر، امجد پرویز اور نیب پراسیکیوٹر بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے۔

شہباز شریف کی درخواست ضمانت پر سماعت کے آغاز میں نیب کے وکیل نے کہا کہ کل شہبازشریف کے وکلاء نے کہا کہ ایسا نہیں دیکھا کہ ضمانت منظوری کے بعد مسترد ہوئی ہو، وکیل اعظم نذیر تارڑ کا ایسا کہنا توہین عدالت ہے،اس پر شہباز شریف کے وکیل نے نیب کے وکیل فیصل رضا بخاری کو ٹوک دیا۔

عدالت نے ریمارکس دیئے کہ اگر دلائل کے لیے راضی نہیں تو سماعت ملتوی کر دیتے ہیں جس کے بعد لاہور ہائیکورٹ نے نیب کے وکیل کو کیس پر دلائل جاری رکھنے کی ہدایت کردی۔

نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ 5 ملزمان بیٹے بیٹیاں مفرور ہیں سلمان شہباز، نصرت شہباز، رابعہ عمران، ہارون یوسف داماد سمیت سید طاہر نقوی اور علی احمد ملازم مفرور ہیں، ہائیکورٹ نے نصرت شہباز کو بذریعہ وکیل کیس میں شامل ہونے کی اجازت دی ہے۔

نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ ہائیکورٹ کے فیصلے سے نیب نے اختلاف نہیں کیا، کال آف نوٹس بھجوائے مگر اس کا کسی نے جواب نہیں دیا ۔

وکیل فیصل رضا بخاری نے کہا کہ 1990ء میں اثاثے 21 لاکھ روپے اثاثے ظاہر کیے گئے، 1998ء میں ایک کروڑ 48 لاکھ روپے کے اثاثے ہوئے، 2010ء سے 2018ء تک ماڈل ٹاؤن میں گھر کو وزیراعلیٰ کیمپ آفس بنایا گیا۔

نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ 7 ارب 32 کروڑ 80 لاکھ کے اثاثے ظاہر کیے گئے،یہ تمام اثاثے 2005ء کے بعد بنائے گئے۔

کیس میں دلائل دیتے ہوئے نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ حمزہ شہباز کے اکاؤنٹ میں دبئی اور برطانیہ سے23 ٹی ٹیز آئیں، جن کےنام سے ٹی ٹیز آئیں ان کا کہنا تھا وہ ملک سے کبھی باہر نہیں گئے، بعض کا تو پاسپورٹ ہی نہیں بنا۔

کیس کی سماعت میں نیب پراسیکیوٹر نے جسٹس اسجد جاوید گھرال کا فیصلہ بھی پڑھا جس میں لکھا تھا کہ شہباز شریف فیملی کے اکاؤنٹس میں بھاری رقوم کی ٹی ٹیز آئیں،اربوں روپے حمزہ اور سلیمان کے ذاتی بینک کھاتوں میں جمع کرائے گئے، عدالت نے لکھا کہ شہباز شریف کنبہ استعمال فنڈز کے ذرائع کا جواز پیش کرنے میں ناکام رہے۔

اس موقع پر شہباز شریف کے وکیل اعظم نذیر تارڑ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ نیب نے آمدن سے زائد اثاثوں کا کیس بنایا ہے، نیب نے اہلخانہ کو بدنیتی سے بےنامی دار قرار دیا ہے، موجودہ حکومت کےسیاسی اثر و رسوخ کی وجہ سےنیب نے انکوائری شروع کی۔

وکیل اعظم نذیر تارڑ نے بتایا کہ کسی ایک گواہ یا وعدہ معاف نےشہباز شریف کو گنہگار قرار نہیں دیا، کسی نے نہیں کہا کہ شہباز شریف نے کرپشن کی ہو یا رشوت لی ہو،شریف فیملی انڈسٹریل ہے، بس میں چیزیں بیچنے والے نہیں۔

اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ شہباز شریف نے 10 سال کی تنخواہیں خیرات کیں، میڈیکل ذاتی جیب سے کرایا،چینی سبسڈی میں شہباز شریف نے فیملی کی شوگر ملوں کو 2 ارب روپے کا نقصان پہنچایا، اپنی شوگر ملوں کو نقصان پہنچانے سے ان کی نیک نیتی ظاہر ہوتی ہے۔

شہباز شریف کے وکیل نے مزید کہا کہ گذشتہ 7 ماہ میں ایک مرتبہ پروڈکشن آرڈر جاری ہوا،پروڈکشن آرڈر سینیٹ الیکشن پر جاری ہوا تھا، کل ناموس رسالت پر جب بل پیش ہونا تھا اتنا اہم دن تھا، بطور اپوزیشن لیڈر پروڈکشن آرڈر جاری نہیں کیا گیا۔

وکیل شہباز شریف نے کہا کہ نیب شہباز دور کی 56 کمپنیوں کی تحقیقات کر چکا ہے، شہباز شریف کے خلاف ایک روپے کی کرپشن سامنے نہیں آئی ہے۔

فل بینچ نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد فیصلے میں مسلم لیگ نون کے صدر شہباز شریف کی ضمانت متفقہ طور پر منظور کرلی۔

واضح رہےکہ پہلے فیصلے میں 2 رکنی بینچ کے جسٹس اسجد جاوید گھرال نے اختلافی نوٹ لکھا تھا جس کے بعد چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ قاسم خان نے تین رکنی فل بنچ تشکیل دیا تھا ، بینچ نے دو دن تک کیس کی سماعت کی۔

کیس میں گزشتہ روزشہبازشریف کے وکلا اعظم نذیر تارڑ ،امجد پرویز نے دلائل دئیے تھے اور آج نیب پراسیکیوٹر فیصل بخاری نے ضمانت منسوخی کے لیے دلائل دئیے۔


تازہ ترین