• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈاکٹر حافظ محمد ثانی

یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ ’’عرب وہند‘‘ کے روابط و تعلقات زمانۂ قدیم سے چلے آرہے ہیں۔ ان روابط اور تعلقات کی بنیاد باہمی تجارت پر تھی۔ میرِ عرب، امام الانبیاء، سیّدالمرسلین حضرت محمد ﷺ کی بعثت کے بعد جب سرزمینِ عرب اسلام کے نور سے منور ہوئی، تو عرب و ہند کے تعلقات کو مزید فروغ حاصل ہوا، مسلمان ملّاح اور عرب تاجر تجارتی مال و اسباب سے لدی اپنی کشتیاں اور بحری جہاز لے کر عرب سے ہندوستان اور لنکا کے ساحلوں پر تجارتی مقاصد سے آتے جاتے رہے، جو تجارت کے فروغ کے ساتھ ساتھ تبلیغِ دین اور اشاعتِ اسلام کا ابتدائی سبب بنے۔ 

اسلامی عرب اور خطۂ سندھ و ہند کے باہمی روابط کا پتا قدیم تاریخی مآخذ بالخصوص اصطخری کی ’’المسالک والممالک‘‘ مقدسی کی کتاب ’’احسن التقاسیم فی معرفۃ الاقالیم‘‘ ابو حنیفہ دینوری کی ’’الاخبار الطوال‘‘ بزرگ بن شہریار کی ’’عجائب الہند‘‘ غلام علی آزاد بلگرامی کی ’’سحبۃ المرجان فی آثار ہندوستان‘‘ قاضی اطہر مبارک پوری کی کتب ’’العقد الثمین فی فتوح الہند‘‘ ’’عرب و ہند عہدِ رسالتؐ میں‘‘، خلافتِ راشدہ اور ہندوستان‘‘ اور ’’خلافتِ امویہ اور ہندوستان‘‘ کے مطالعے سے چلتا ہے۔

اسلامی عرب اور خطۂ ہندوپاک کا پہلا واسطہ جس کا ذکر تاریخ کی کتابوں میں ملتا ہے، پہلی صدی ہجری کے نصفِ اوّل میں خلیفۂ دوم حضرت عمر فاروقؓ کے دور میں ہوا۔مشہور مؤرخ طبری کے مطابق حضرت عمرؓ کے عہدِ خلافت میں حَکم بن عمرو تغلبی اسلامی فوج لے کر مکران جارہے تھے کہ راستے میں ایرانی فوج نے ان کا مقابلہ کیا، ایرانیوں نے اس مو قع پر سندھ کے راجا سے فوجی مدد لی، جو عربوں کے خلاف صف آراء ہوئی، لیکن اس ابتدائی معرکے میں ایران اور سندھ کی متحدہ فوج کو شکست ہوئی، بعدازاں مختلف مسلم امراء کا بھروچ اور سندھ میں مختلف مقاصد سے آنے کا ذکر ملتا ہے۔ تاریخی حقائق سے اس امر کا پتا چلتا ہے کہ مسلمانوں نے اموی خلیفہ ولید بن عبدالملک کے زمانے تک سندھ و ہند پر باقاعدہ لشکر کشی نہیں کی۔

دوسری جانب سندھ پر مشہور ہندو راجا داہر کی حکومت تھی۔ راجا داہر نے اپنے عمل سے بارہا اس کا ثبوت فراہم کیا کہ وہ اسلام اور مسلمان دشمنی میں کسی سے پیچھے نہیں۔ داہر نے اس سے قبل ہی اموی خلافت کے مکران کے لیے نام زد گورنر سعید بن اسلم کے قاتلوں کو پناہ دے کر اسلامی حکومت سے مخالفت کی بنیاد رکھ دی تھی۔ راجا داہر کا طرزِ عمل سب سے جداگانہ اور معاندانہ تھا۔ اس نے آغاز سے اختتام تک معاندانہ راہ اختیار کی۔ اس کے برخلاف ہندوستان کے دوسرے راجائوں نے ابتدا میں مقابلہ کیا، تاہم بعد میں ہوا کا رُخ دیکھ کر دوستانہ مراسم اور تعلقات قائم کرنے میں عافیت جانی، مگر راجا داہر نے ان کے برخلاف شروع سے مخالفت کی اور آخر تک اس پر اڑا رہا، کچھ ہی عرصے میں سندھ میں ایک اور حادثہ رونما ہوا، جو اموی خلافت کے لیے سخت آزمائش سے کم نہ تھا۔

تاریخی روایات کے مطابق سرندیپ کے راجا نے بحری جہاز حجاج بن یوسف کی طرف روانہ کیا تھا، جس میں عرب تاجروں کی بیوہ خواتین، یتیم بچّے، بچا کھچا سامانِ تجارت اور بعض مسلمان سوار تھے، جو فریضۂ حج کی ادائیگی کے لیے حجازِ مقدس جارہے تھے۔ نیز ان مسلمانوں کی بیویاں اور بچّے بھی سوار تھے، جو لنکا میں وفات پا گئے تھے۔ بادِ مخالف اس جہاز کو ساحل دیبل (موجودہ کراچی سے تھوڑی دُور) پر لے گئی، جو اُس زمانے میں مملکت سندھ کی بڑی بندرگاہ تھی۔ یہاں کے بحری قزاقوں نے نہ صرف جہاز کے سازوسامان اور مال و دولت کو لُوٹا، بلکہ ان میں سوار یتیم بچّوں، اور خواتین کو بھی قید کرلیا۔ عورتوں اور مردوں کو گرفتار کرکے اندرونی علاقے میں لے گئے۔ 

راجا داہر نے اس بار بھی ان کی سرپرستی کی، جب کہ تاریخِ فرشتہ کے مؤلف کے بیان سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ کشتیاں باقاعدہ حاکم سندھ کے حکم سے لُوٹی گئیں۔ یہ دوسرا بڑا واقعہ تھا، جس میں اس کا رویّہ غیر ذمّے دارانہ تھا۔ ان مظلوم مسافروں میں سے کسی طرح بچ بچا کر بھاگ نکلنے میں کام یاب ہونے والے چند مسافر جب عراق پہنچے تو انہوں نے حقیقت حال سے آگاہ کیا۔ حجاج بن یوسف کو جب یہ خبر ملی تو اسے شدید طیش آیا۔ اس نے فوری طور پر راجا داہر کے پاس اپنا سفیر روانہ کیا اور یہ پیغام بھیجا کہ وہ گرفتار شدہ مردوں، عورتوں، یتیم بچّوں کو رہائی دلائے، سازوسامان اور تحائف دارالخلافہ واپس بھجوائے، بحری قزاقوں جو اس کی مملکت اور ریاست میں آتے ہیں، ان کے خلاف سخت تادیبی کارروائی کرے۔

حجاج بن یوسف کے سفیر کے ذریعے ملنے والا یہ پیغام راجا داہر نے یکسر رد کرتے ہوئے صاف جواب دیا کہ یہ ڈاکو میرے بس میں نہیں ہیں، ان عورتوں کو جن لٹیروں نے پکڑا ہے، میں ان پر اقتدار اور قدرت نہیں رکھتا۔ (بلاذری/ فتوح البلدان، ص423)ایک روایت کے مطابق حجاج بن یوسف نے کمال دُوراندیشی سے راجا داہر کو ہی اس کا اختیار تفویض کردیا کہ وہ اسلامی فوج کی مدد اور اعانت سے قزاقوں کے خلاف مؤثر اقدامات کرے، راجا کی ریاست میں اسلامی فوج اس کی کمان میں رہتے ہوئے قیامِ امن میں اس کی مدد کرے گی، مگر راجا داہر نے اس پیشکش کو بھی یکسر نظر انداز کردیا۔ 

بعد ازاں حجاج بن یوسف نے راجا داہر کو قرار واقعی سبق سکھانے کے لیے ہندوستان پر حملے کا فیصلہ کیا، چناں چہ ابتدا میں عبداللہ اسلمی چھ ہزار کے لشکر کے ساتھ سندھ پر حملہ آور ہوئے، لیکن انہیں کام یابی حاصل نہ ہوئی، عبداللہ اسلمی شہید ہوگئے، اس کے بعد بدیل بن طہفہ کی زیرِ سرکردگی چھ ہزار مجاہدین کا لشکر روانہ ہوا، یہ بھی شکست سے دوچار ہوئے اور راجا داہر کے بیٹے جے سنگھ نے انہیں شہید کردیا۔ان حالات نے حجاج بن یوسف کو اس پر مجبور کردیا کہ وہ ان کے خلاف بھرپور اور مؤثر فوجی اقدام کرے اور ایسا فیصلہ کن معرکہ ہو، جو راجا داہر کی جانب سے مسلمانوں کو آئندہ کے لیے محفوظ اور مطمئن کردے۔ چناں چہ اس نے اپنے نوجوان بہادر بھتیجے اور داماد عمادالدین محمد بن قاسم والی فارس کو چھ ہزار شامی فوج کے ساتھ سندھ کی مہم پر روانہ کیا۔

محمد بن قاسم نے بصرہ میں امارت وحکومت کے گہوارے میں آنکھ کھولی اور بچپن کے ایام اس کے گلی کوچوں میں گزارے،جہاں حضرت انس بن مالک ؓ ،امام حسن بصریؒ اور امام محمد بن سیرینؒ کے وجود کی برکتیں عام تھیں۔محمد بن قاسم نے اپنی زندگی کے سترہ سال اسی مقدس ماحول میں گزارے۔عین عالم شباب میں فارس کے امیر وحاکم بنائے گئے۔ اس کے بعد 92ہجری سے سندھ و ہند کی عسکری مہمات اور فتوحات کی قیادت کی۔اس جواں سال غازی و فاتح محمد بن قاسم نے فارس کے میدان جنگ سے اپنا سفر شروع کیا اور سندھ و ہند سے ہوتا ہوا واسط کے جیل خانے میں موت کی وادی کا شکار ہوا۔سندھ وہند میں محمد بن قاسم کی فوجی مہمات اور فتوحات کا دور 92ھ سے 96ھ تک ہے۔ان کی اولین زندگی کا آغاز میدان جہاد سے ہوا اور انجام بھی اسی پر ہوا۔

اس نے پہلی بار پاک و ہند کے علاقے باب الاسلام سندھ پر قدم رکھا اور مختصر عرصے میں اپنی جرأت، فراست، عسکری مہارت، بہادری، غیرتِ ایمانی، دینی حمیت، رواداری، نرم دلی، حسنِ سلوک اور حکمت و دانش سے یہاں آباد غیر مسلموں کو متاثر کیا، ان کے سروں کو نہیں، بلکہ دلوں کو فتح کیا۔ محمد بن قاسم 711ء کے موسمِ خزاں میں دیبل پہنچا اور شہر کا محاصرہ شروع کیا، مگر راجا داہر کی روش اب بھی نہ بدلی، بلکہ وہ اپنے پورے لشکر و سپاہ کے ساتھ میدانِ جنگ میں اتر آیا۔ معرکۂ جنگ کے باقاعدہ آغاز سے قبل غازی محمد بن قاسم نے راجا داہر کے نام ایک خط ارسال کیا، اس کا بیش تر حصّہ اُن آیاتِ قرآنی سے معمور تھا، جن میں حق و باطل کے معرکے میں اہلِ کفر اور باطل کے سرپرستوں کا انجام ظاہرکیا گیا ہے۔ 

خط کے مندرجات میں ایک جملے میں یہ بھی تحریر تھا ’’تمہاری بداعمالیوں، بری عادتوں اور تکبّر کی وجہ سے ہمیں تم پر لشکر کشی نے مجبور کیا۔‘‘ بعد ازاں جانبین میں خونی معرکے ہوئے۔ اسلامی فوج کو کئی روز تک کام یابی حاصل نہ ہوئی، لیکن بالآخر ’’العروس‘‘ نامی ایک بڑی منجنیق کی مدد سے جسے پانچ سو سپاہی چلاتے تھے، قلعہ فتح ہوگیا۔ محمد بن قاسم نے قلعے پر قبضہ کرکے ان قیدیوں کو رہائی دلائی جو راجا داہر کے زیرِ اثر بحری قزاقوں کی قید میں تھے۔ داہر نے میدانِ جنگ سے راہِ فرار اختیار کرکے حدود سندھ سے باہر سوراشٹر کے علاقے ’’کچھ‘‘ میں پناہ لی اور رمضان 93ھ میں ایک خونی معرکے کے بعد میدان جنگ میں کام آگیا۔

یہ فوجی مہم اس لحاظ سے بڑی تاریخی کہی جاسکتی ہے کہ لشکر کشی کے باوجود اس میں مذہبی رواداری اور فراخ دلی کا وہ نمونہ پیش کیا گیا جو اسلام کی حقیقی تعلیم ہے۔سندھ کی فتح کے بعد غازی محمد بن قاسم نے غیر مسلم مفتوحین،صلح خواہوں اور امن پسندوں سے جو روادارانہ سلوک اور فیاضانہ برتاؤ کیا، وہ دنیا کی تاریخ میں اپنی مثال آپ ہے۔اس طرح سندھ کو ’’باب الاسلام‘‘ بننے کا شرف حاصل ہوا اور یہاں کے لوگ ظلم و بدامنی کے سیاہ دور کے خاتمے کے بعد رواداری، انسان دوستی، حسنِ سلوک اور اسلام کے مثالی عادلانہ نظام سے آشنا ہونے کے بعد جوق در جوق دائرۂ اسلام میں داخل ہوئے۔ سندھ اسلام کے نور سے منور ہوا اور یہ علاقہ ’’باب الاسلام‘‘ کہلانے کا حق دار قرار پایا۔

دیبل کی فتح کے بعد غازی محمد بن قاسم (موجودہ حیدرآباد سندھ کے قریب) نیرون گیا، جہاں کے حاکم نے بغیر معرکہ آرائی کے ہتھیارڈال دیے، پھر سہوان کے علاقے میں داخل ہوا، یہاں کا حاکم راجا داہرکا بھتیجا تھا، رعایا نے اس کے خلاف بغاوت کردی، راجا داہر کے بیٹے جے سنگھ کو بدترین شکست ہوئی، غازی محمد بن قاسم نے پھر مدینۃ الاولیاء ملتان میں قدم رکھا اور 713ء میں یہ تاریخی، تہذیبی اور ثقافتی مقام بھی فتح ہونے کے بعد اسلام اور مسلمانوں کے زیرِ نگیں آگیا۔ اس طرح عمادالدین غازی محمد بن قاسم کی جرأت و شجاعت، تدبروفراست، عسکری مہارت، ایمانی غیرت و حمیت، رواداری، رحم دلی اور حسنِ سلوک کی بدولت یہ خطہ اسلام کے نور سے معمور اور رشد وہدایت کی روشنی سے منور ہوا۔ 

مولانا قاضی محمد اطہر مبارک پوریؒ محمد بن قاسم کی رواداری، حسنِ سلوک اور عدل و مساوات کے ہندو معاشرے پر اثرات کے حوالے سے لکھتے ہیں: ’’ہندوستان کے عوام و خواص اپنے اس عادل و منصف اور بے نظیر امیر کے لیے مدتوں تڑپتے رہے اور اس کی جدائی اور موت پر ان کی آنکھیں یوں روئیں کہ ان کے آنسو محمد بن قاسم کے مرثیے کا عنوان بن گئے۔‘‘(بحوالہ: خلافتِ امویہ اور ہندوستان ص 123)نامور مورخ بلاذری نے لکھا ہے: ’’فبکیٰ اھل الہند وصوّرہ بالکیرج‘‘ (فتوح البلدان، ص 428)

الٰہ آباد یونیورسٹی کے سابق ہندو پروفیسر ڈاکٹر ایشوری پرشاد نے محمد بن قاسم کی عسکری مہمات پر جہاں تنقید کی ہے، وہاں وہ یہ بھی لکھتے ہیں:’’سندھ پر محمد بن قاسم کا حملہ تاریخ کی رومانوی داستانوں میں سے ایک ہے،اس کی جرأت مندی،بہادری اور فوجی مہمات کے درمیان اس کے روادارانہ، شریفانہ برتاؤ اور آخر میں اس نے نوجوانی میں سپہ گری کے جو جوہر دکھائے ،اس سے اس کی ذات سے بڑی امیدیں بندھ گئیں…محمد بن قاسم نے اپنے جھنڈے کے نیچے ان جاٹوں اور میدوں کو جمع کیا جو ہندوؤں کی غیرروادارانہ حکومت سے عاجز تھے اور بہت ذلت برداشت کررہے تھے۔

وہ گھوڑے پر سوار نہیں ہوسکتے تھے،ان کے لیے اچھے کپڑے پہننے کی ممانعت تھی۔انہیں ننگے سر رہنے کا حکم تھا۔اس ذلت کے باعث وہ محض لکڑہارے اورغلام بن کر رہ گئے تھے،ان کے دلوں میں اپنے حکمرانوں کے عدم روادارانہ اور غیر منصفانہ برتاؤ کے باعث ایسا عناد بھرا ہوا تھا کہ انہوں نے اپنی قسمت کو ایک اجنبی (فاتح محمد بن قاسم)کے سپرد کردیا‘‘۔ (بہ حوالہ:سید صباح الدین عبدالرحمن/ہندوستان کے عہد ماضی میں مسلم حکمرانوں کی مذہبی رواداری 36/1)

اہلِ ہند محمد بن قاسم کی موت اور اس سے بچھڑنے پر روئے اور اس کی تصویری یادگار قائم کی۔نام ور ہندو محقق ڈاکٹر تارا چند اپنی کتاب ’’ہسٹری آف انڈیا‘‘ میں محمد بن قاسم کی مذہبی رواداری، فراخ دلی اور یہاں کے غیر مسلم باشندوں کے ساتھ اس کے حسنِ سلوک پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’مسلمان فاتح، محمد بن قاسم نے مفتوحوں کے ساتھ رواداری اور فیاضی کا سلوک کیا… ہندو پجاریوں اور برہمنوں کو مندروں میں پرستش کی آزادی فراہم کی، ان سے حسن سلوک کا مظاہرہ کیا۔‘‘فتوحات کے بعد غازی محمد بن قاسم نے مختلف علاقوں میں مساجد قائم کیں۔ 

جن میں ایک مسجد دیبل میں قائم کی، جہاں چار ہزار مسلمانوں کو آباد کیا اور دوسری مسجد اروڑ کے مقام پر قائم کی، جو ہندوستان کی سب سے قدیم اور پہلی مسجد کے طور پر جانی جاتی ہے۔ اس کے آثار آج بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔ غازی محمد بن قاسم اور مسلم فاتحین کی اس خطے میں آمد سے ظلم و بدامنی، جبر و استحصال، غلامی اور نا انصافی کے تاریک دور کا خاتمہ ہوا، کفر و شرک اور اصنام پرستی کا سورج غروب ہوا۔ صنم کدے نعرۂ توحید سے گونج اٹھے۔ صدیوں سے رائج باطل اور ظالمانہ نظام سے لوگوں کو رہائی ملی۔ یہ خطہ توحید کے نور سے منور اور اسلام کی تہذیبی، ثقافتی اور معاشرتی اقدار سے روشن اور معمور ہوا۔

تازہ ترین