• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بجٹ کیا آیا کہ مہنگائی کا ایک بہت بڑا طوفان آگیا۔ عام آدمی جو پہلے ہی مہنگائی کی وجہ سے پس رہا تھا کا کچومر نکل گیا۔ وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار نے اس سونامی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ بجٹ نے تو مہنگائی نہیں بڑھائی بلکہ ہم خود ہی مختلف حیلے بہانوں سے قیمتوں میں اضافہ کرلیتے ہیں۔ اگر ایک لمحہ کیلئے ان کی بات کو درست بھی مان لیا جائے تو یہ انہی کی ذمہ داری ہے کہ وہ گراں فروشوں کے غیر اخلاقی اور غیر قانونی دھندے کو روکیں اور ذمہ داروں کو سخت سزا دیں۔ اگر حکومت ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھی رہتی ہے اور دکاندار اپنی من مانی کرتے ہیں تو یہ بڑا ظلم اور بے حسی ہے۔ اسے پاکستان کے کم از کم70 فیصد علاقے (یعنی پنجاب اور بلوچستان جہاں وفاقی حکمران جماعت کے پاس اقتدار ہے) میں تو عوام کی چمڑی کند چھری سے اتارنے والوں کوآہنی ہاتھوں سے روکنا چاہئے۔ عام لوگوں کو اس سے کچھ واسطہ نہیں کہ کتنے ارب کھرب کا بجٹ پیش ہو گیا۔ ہائبرڈ کاروں پر ڈیوٹی اور ٹیکس کی چھوٹ دے دی گئی، جی ڈی پی کیا جادو ہے، بجٹ خسارہ کیا ہے اور ڈٹ سروسنگ کیا ہے۔ وہ تو صرف یہ جانتے ہیں کہ نئی حکومت کا پہلا بجٹ ان کیلئے کیا لایا ہے اور دال، چینی، آٹا، گھی، انڈے، مرغی اور دوسری روزمرہ استعمال کی چیزوں کی قیمتوں میں کیا فرق پڑا ہے۔ ہمیں خاتون خانہ بتا رہی تھی کہ جونہی وزیر خزانہ کی بجٹ تقریر ختم ہوئی ان اشیاء کی قیمتوں میں کافی اضافہ ہوگیا ۔ یہاں تک کہ حکومت کے یوٹیلٹی اسٹور نے بھی اس بہتی گنگا میں اس طرح ہی ہاتھ دھوئے جیسے عام دکانداروں نے ۔حالانکہ بجٹ کا نفاذ یکم جولائی سے ہونا ہے۔ یہ حکومتی عدم کنٹرول کی بڑی مثال ہے کہ دکاندار اس بے رحمی سے اپنی من مانی شروع کر دیں بغیر کسی خوف کے کہ کوئی ان کو ہاتھ لگانے والا نہیں ہے۔
اسحاق ڈار بجٹ پر سب سے بڑا اعتراض جو جائز ہے وہ یہ ہے کہ اس میں بڑی مچھلیوں اور ٹریڈروں کو ٹیکس نہیں کیا گیا۔ فیوڈل لارڈ کو بھی اسپیئر کیا گیا ہے۔ اکثر لاہور کی لبرٹی مارکیٹ کی مثال دی جاتی ہے کہ اس طرح کے شاپنگ سینٹروں کے کروڑ پتی دکانداروں پر اگر صحیح معنوں میں ٹیکس لگایا جائے تو ٹیکس وصولی میں خاطر خواہ اضافہ ہوسکتا ہے۔ حکومت ہمیشہ سے ہی بگ بزنس اور ٹریڈرز کے بارے میں نرم گوشہ رکھتی ہے کیونکہ یہ اس کے قدرتی حلیف ہیں اور اسے ہر الیکشن میں سپورٹ کرتے ہیں۔ بھلا وہ کیوں ان کو کسی طرح بھی ناراض کرنے کیلئے کوئی اقدام کرے گی۔ ایسی حکومت فکسڈ ماہانہ انکم والے طبقہ پر ٹیکس لگانا زیادہ آسان سمجھتی ہے اور ان ڈائریکٹ ٹیکسیشن پر توجہ دیتی ہے۔ بڑی ٹیکس وصولی صرف بڑے سرمایہ داروں سے ہی ممکن ہے۔
یہ ہم سب کے علم میں ہے کہ بڑے بڑے بزنس مینوں کے چارٹر اکاؤنٹنٹ بھی ان کو ٹیکس ادائیگی سے نہیں بچا سکتے اگر حکومت کی پالیسی ان سے ٹیکس وصول کرنا ہو۔ اسحاق ڈار کہتے ہیں کہ کچھ عرصہ کیلئے عوام کو کڑوی گولی نگلنا پڑے گی اور دو سال بعد حالات بہتر ہو جائیں گے اگرچہ ان کی زندگی میں انقلاب پھر بھی نہیں آئے گا۔ اس طرح کی باتیں اکثر حکومتیں کرتی ہیں اور جب ان کی طرف سے دی گئی اس طرح کی مدت ختم ہو جاتی ہے تو بھی عوام کی حالت کچھ بہتر نہیں ہوتی۔ گزشتہ حکومت بھی اس طرح کی خوشخبری سناتے سناتے تاریخ کا حصہ بن گئی۔ تنخواہوں میں سالانہ اضافہ نہ ہونے کی وجہ سے سرکاری ملازمین سراپا احتجاج ہیں۔ وزیر خزانہ کہتے ہیں کہ کچھ عرصہ قبل ہی ان کی تنخواہوں میں20 فیصد اضافہ کیا گیا تھا لہٰذا بجٹ میں مزید اضافے کا جواز نہیں بنتا۔
عام لوگ اکثر و بیشتر سرکاری ملازمین جن سے انہیں پالا پڑتا ہے سے سخت بیزار ہیں کیونکہ وہ نہ صرف کرپٹ بلکہ نااہل اور نکمے بھی ہیں۔ عوام ان کے ہاتھوں بہت ذلیل و خوار ہوتے ہیں جس کا مظاہرہ روزانہ سرکاری دفاتر میں ہوتا ہے مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ سب سرکاری ملازم ہی ایسے ہیں۔ کچھ میں واقعی خوف خدا موجود ہے تاہم ان کی تنخواہوں میں عدم اضافے سے ان میں بے چینی بڑھے گی اور حکومت کیلئے مشکلات پیدا ہوں گی۔ حکومت یہ نہیں کہہ سکتی کہ اس نے یہ بجٹ عجلت میں پیش کیا ہے کیونکہ اسے یہ اقتدار سنبھالنے کے صرف ایک ہفتہ بعد ہی ایسا کرنا پڑا۔ درحقیقت11مئی کے عام انتخابات کے فوراً بعد ہی اسحاق ڈار بجٹ کی تیاری میں مصروف ہوگئے تھے لہٰذا اس کیلئے انہیں کافی مناسب وقت مل گیا تھا۔ عام طور پر اسحاق ڈار کی پہلی پیشکش کو ایک ambitious بجٹ کہا گیا ہے جس کے اہداف کا حصول کافی مشکل ہے۔ یہ تو مالی سال 2013-14ء کے آخر میں معلوم ہوگا کہ وہ کس حد تک اس میں کامیاب ہوئے ہیں۔ فی الحال تو مہنگائی نے عوام کی کمر توڑ دی ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ فوری ایسے اقدامات کرے جس سے مہنگائی کے جن کو بوتل میں واپس بند کیا جاسکے اس کیلئے اسے انتظامی مشینری کو متحرک کرنا ہوگا ۔ساتھ ساتھ حکومت کو چاہئے کہ کرپشن اور لوٹ مار کرنے والوں پر بھی ہاتھ ڈالے۔ موجودہ حکومت کی کارکردگی چاہے کیسی بھی ہو اور عوام اس پر کتنی بھی نکتہ چینی کر لیں یہ پچھلے دور سے یقینا بہت بہتر ہوگی۔
وزیرخزانہ نے گزشتہ حکومت پر نرم الفاظ میں تنقید کی کہ اس نے معیشت کا بیڑہ غرق کر دیا ہے مگر یہ تلخ حقیقت ہے کہ گزشتہ حکومت نے ملک کو ان اندھیروں میں دھکیل دیا جہاں سے واپسی میں کئی سال لگ جائیں گے۔ اس کے پاس مسائل کا سب سے آسان حل نوٹ چھاپنا تھا۔ پاکستان کی65 سالہ تاریخ میں ملک کے قرضے اتنے نہیں بڑھے جتنا ان میں گزشتہ پانچ سال کے دوران اضافہ ہوا۔ اس بدحالی کے علاوہ کرپشن اور لوٹ مار کا بازار ایسا گرم ہوا کہ ایک نئی تاریخ رقم ہوئی۔ اس کا خمیازہ نہ صرف عوام نے پانچ سال بھگتا بلکہ مزید کئی سال بھگتتے رہیں گے۔ موجودہ بجٹ اس کی عکاسی کرتا ہے کہ سوائے اس کے کہ عوام پر بہت بڑا بوجھ ڈال دیں کوئی چارہ ہی نہیں رہا تاہم اس کے ساتھ ساتھ بگ بزنس اور ٹریڈرز بھی اس بوجھ کو شیئر کرتے تو شاید عوام اتنی چیخ و پکار نہ کرتے۔ سینیٹر ڈار کو بڑے بڑے چیلنجوں کا سامنا ہے۔ اگر وہ ملکی معیشت کو کافی حد تک صحیح سمت پر ڈال دیتے ہیں خصوصاً عام آدمی کی زندگی پر اس کے مثبت اثرات پیدا کرتے ہیں تو نہ صرف ملک کی بڑی خدمت کر جائیں گے بلکہ اپنی جماعت نون لیگ کیلئے بھی ایک قیمتی اثاثے سے کم نہیں ہوں گے اور ”یہ رشتے داروں کی حکومت ہے“ اور ”یہ بجٹ ایک چارٹر اکاؤنٹنٹ کا ہے“ جیسے طعنے بے معنی اور بغض پر مبنی سمجھے جائیں گے اور یہ کسی اور کے کہنے پر لگائے جا رہے ہیں۔ یہ ملک کی معاشی بدحالی ہی ہے کہ وزیراعظم نوازشریف کے چہرے سے مسکراہٹ غائب ہوگئی ہے وہ ہر وقت اس سوچ میں گم ہیں وہ کیسے ان حالات سے نبرد آزما ہوں گے۔ ہم تو صرف انہیں گڈلک ہی کہہ سکتے ہیں۔
تازہ ترین