ایک دن فیض صاحب، عبدالرحمٰن چغتائی کے ہاں لے جا رہے تھے۔ نسبت روڈ سے گزرے تو انہیں سڑک کے کنارے ’’قاسمی پریس‘‘ کا ایک بڑا سا بورڈ دکھائی دیا۔ معلوم نہیں کہ یہ کن صاحب کا پریس تھا مگر بہرحال قاسمی پریس کا بورڈ تھا۔ فیض صاحب کہنے لگے ’’آپ چپکے چپکے اتنا بڑا کاروبار چلا رہے ہیں۔‘‘ اس پر ہم دونوں ہنسے۔
تھوڑا آگے گئے تو میو اسپتال کے قریب مجھے ایک بورڈ نظر آیا۔ میں نے کہا ’’فیض صاحب، کاروبار تو آپ نے بھی خوب پھیلا رکھا ہے، وہ بورڈ دیکھئے۔‘‘ بورڈ پر ’’فیض ہیئر کٹنگ سیلون‘‘ کے الفاظ درج تھے۔ فیض صاحب اتنا ہنسے کہ انہیں کار سڑک کے ایک طرف روک لینا پڑی۔
…٭…٭…٭…
سیف الدین سیف بیان کرتے ہیں: ایک بار کوئی صاحب آئے اور فیض صاحب کو اپنا کلام سنانے لگے۔ انہوں نے اپنی ایک نظم سنائی جس میں ہر تیسرا، چوتھا مصرع فیض صاحب ہی کا تھا۔ فیض صاحب انہیں مسلسل داد دیتے رہے۔ ان کے جانے کے بعد میں نے کہا:’’فیض صاحب! یہ کیا قصّہ ہے، آدھا کلام تو آپ کا تھا اور آپ واہ وا کئے جا رہے تھے۔‘‘
فیض صاحب مسکرا کر کہنے لگے:’’بھئی کیا کرتا، پہلی بار تو اپنے اشعار پر داد دینے کا موقع ہاتھ آیا تھا۔‘‘