• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تحریر: نرجس ملک

میزبان:ڈاکٹر فیصل ہاشمی، مسز فرزانہ فیصل،امیر علی ہاشمی

مہمان:شاہد قادر، مسزسائرہ شاہد، اشنٰی بھٹی، سالار بھٹی، احد بھٹی، نور قادری

عکّاسی: عرفان نجمی

لے آؤٹ: نوید رشید

رمضان کریم کا دوسرا عشرہ (عشرئہ مغفرت) بھی ختم ہونے کو ہے۔ یہ مسلسل دوسرا رمضان ہے، جو خالقِ کائنات کی ناراضی کے اشارے کے ساتھ آیا ہے۔ دسمبر 2019ء سے دنیا بھر پر جو کورونائی بلا مسلّط ہے، تاحال اُس سے مکمل نجات کی کوئی صُورت (کم از کم ترقی پذیر ممالک میں تو )دکھائی نہیں دیتی۔ اس کے باوجود کسی کو، کہیں ایک پَل کو بھی یہ محسوس ہوا کہ ہم نے اس عذابِ الٰہی سے کوئی سبق، کوئی عبرت حاصل کی ہے۔ ہمارے عمومی رویّوں میں ذرّہ بھر بھی تبدیلی آئی ہے، خصوصاً رمضان المبارک کے ان 20 ایّام میں تو ہر طرف ایک ایسی افراتفری، نفسانفسی کا عالم دکھائی دیا کہ لگا ہی نہیں کہ یہ ماہِ قرآن، اللہ کےمہمان کا استقبال، اُس کے ساتھ روا رکھا جانے والا سلوک ہے۔ 

ہمارا عموماً جو انداز اچانک گھر آنے والے مہمانوں کے ساتھ ہوتا ہے، وہی رویّہ ہم نے اللہ کے اس انتہائی معزّز و مکرّم، مقدّس و متبرّک مہمانِ گرامی کے ساتھ اختیار کرلیا ہے۔ اللہ عزّو جل نے سورۃ البقرۃ کی آیت نمبر 183میں باقاعدہ ہم سے مخاطب ہو کر فرمایاہےکہ ’’اے ایمان والو!تم پر روزے فرض کردیئے گئے ہیں، جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر (انبیاء کے پیروئوں پر) فرض کیے گئے تھے، تاکہ تم میں تقویٰ پیدا ہو (متقی اور پرہیز گار بن جائو)۔‘‘ 

پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کےکیسے واضح ارشادات ہیں، ’’جب تم روزہ رکھو، تو چاہیے کہ اپنے کانوں، اپنی آنکھوں، اپنی زبان، اپنے ہاتھوں اور اپنے جسم کے تمام اعضاء کو اللہ کی ناپسندیدہ باتوں اور اُس کے منع کردہ کاموں سے باز رکھو۔‘‘ ، ’’جس شخص نے روزہ رکھ کر جھوٹ بولنا اور جھوٹ پر عمل کرنا نہیں چھوڑا، تو اللہ تعالیٰ کو اس کی کوئی ضرورت نہیں کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑ دے۔‘‘ اور ’’بہت سے روزے دار ایسے ہیں، جنہیں اپنے روزوں سے بھوک و پیاس کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوتا۔‘‘ تو کیا ہم میں سے کوئی ایک بھی ایمان و احتساب کےجذبے کے ساتھ یہ اقرار کرسکتا ہے کہ ’’ہاں، ہم نے رمضان المبارک کا صحیح حق ادا کیا‘‘۔ علّامہ ابنِ جوزی فرماتے ہیں، ’’بہت سے روزے دار، روزے تو بہت پابندی سے رکھتے ہیں، لیکن وہ یہ خیال نہیں رکھتے کہ جس چیز سے روزہ افطار کر رہے ہیں، وہ حلال ہے یا حرام۔ وہ دن بھر غیبت سے پیٹ بھرتے ہیں، نامحرم چہروں سے آنکھیں سینکتے ہیں اور ذرا باک نہیں کرتے۔ فضول گفتگو میں لگے رہتے ہیں اور شیطان اُنہیں اطمینان دلاتا رہتا ہے کہ آپ روزے دار ہیں۔‘‘

ذرا سوچیے، ہم میں سے کتنے ہیں، جنہیں رمضان المبارک کے طفیل متقّی و پرہیز گار بننے کی توفیق حاصل ہوئی۔ کتنوں نے حالتِ روزہ میں اپنے کانوں، آنکھوں، زبان، ہاتھوں اور جسم کے تمام اعضاء کو اللہ کی ناپسندیدہ باتوں اور منع کردہ کاموں سے روکے رکھا۔ کتنوں نے روزہ رکھ کر جھوٹ بولنا اور جھوٹ پر عمل کرنا چھوڑ دیا۔ شاید چند ایک، یا شاید کوئی بھی نہیں، تو پھر کیا ہمیں اس ’’ماہِ صیام ‘‘ سے علاوہ بھوکا، پیاسا رہنے کی اذیت کے، کچھ حاصل نہیں ہوا۔ اپنے بچپن کے رمضان یاد آتے ہیں، تو آنکھیں بھر آتی ہیں کہ کیا شان دار، شایانِ شان استقبال ہوتا تھا، اللہ کے اس خاص الخاص مہمان کا۔ اور پھر کیا اہتمام، کیسی کیسی خاطر مدارات ہوتی تھیں، اس ربِ کائنات کے مہینے، باقی تمام مہینوں کے سردار کی۔ 

پتا نہیں، گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ ہم دن بہ دن پستی و تنزّلی کے گڑھے ہی میں کیوں گرتے چلے جارہے ہیں، حالاں کہ اس آفتِ ناگہانی (کورونا) کے بعد تو بہت کچھ بدل جانا چاہیے تھا۔ بظاہر کتنا کچھ بدلا ہے، تو کیا انسان کے اندر خانے، باطن میں کوئی Drastic Change نہیں آنا چاہیے تھا، خاص طور پر اس ماہِ مبارکہ میں کہ اسی سرچشمہ ٔ فضلِ خدا، ماہِ صیام کی اہمیت و فضیلت سے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قدر خُوب صُورت ارشادات بھی موجود ہیں کہ اگر بندہ صرف اُن ہی سے اصلاح و رہنمائی حاصل کرلے، فیض یاب ہوجائے، تو صحیح معنوں میں سدھر جائے، بندہ بن جائے۔ 

ارشادات گرامی ہیں، ’’جس نے ایمان کے جذبے اور طلبِ ثواب کی نیّت سے رمضان کا روزہ رکھا، اُس کے گزشتہ گناہوں کی بخشش ہوگئی۔‘‘ ، ’’رمضان میں جنّت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں، دوزخ کے دروازے بند ہوجاتے ہیں۔ اور شیاطین کو طوق پہنادیئے جاتے ہیں۔ ہلاکت ہے اُس شخص کے لیے، جو رمضان کا مہینہ پائے اور اس کی بخشش نہ ہو۔‘‘ ، ’’انسان جو نیک عمل کرتا ہے، (اُس کے لیے عام قانون یہ ہے کہ) نیکی دس سے لے کر سات سو گنا تک بڑھائی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں، لیکن روزہ اس (قانون) سے مستثنیٰ ہے، کیوں کہ وہ میرے لیے ہے اور مَیں خود اس کا (بے حد و بے حساب) اجر دوں گا۔‘‘ ، ’’روزہ اور قرآن بندے کی شفاعت کرتے ہیں۔‘‘ ، ’’ رمضان میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے والا بخشا جاتا ہے اور اس مہینے میں اللہ تعالیٰ سے مانگنے والا بےمُراد نہیں رہتا۔‘‘ ، ’’بے شک رمضان کے ہر دن رات میں اللہ تعالیٰ کی جانب سے بہت سے لوگ (دوزخ سے) آزاد کیے جاتے ہیں اور ہر مسلمان کی دن رات میں ایک دُعا قبول ہوتی ہے۔‘‘ ، ’’روزہ دار کی دُعا افطار کے وقت رَد نہیں ہوتی۔‘‘ ، ’’روزہ دار کے لیے دو خوشیاں ہیں، ایک افطار کے وقت اور دوسری خوشی اپنے رب سے ملاقات کے وقت۔‘‘ اور ’’روزہ جہنم کی آگ سے ڈھال ہے۔‘‘

تو ان ڈھیروں خوش خبریوں، جنّت میں داخلے کے سیدھے سیدھے رستوں کے باوجود بھی اگر کوئی بے نیلِ مرام رہتا ہے، تو اُس سے بڑھ کر بدقسمت کون ہوگا۔ ابھی بھی نارِ جہنم سے نجات کا عشرہ باقی ہے، اور بہرحال ہم خوش نصیب ہیں کہ تاحال اپنے اعمالِ صالح کے ذریعے اللہ کے مقّرب بندوں میں شامل ہونے کا موقع میسّر ہے، وگرنہ کیا اُن لوگوں کی تعداد انگلیوں پر گِنی جاسکتی ہے، جو سالِ گزشتہ ہمارے ساتھ، ہمارے بیچ موجود تھے اور اب پیوندِ خاک ہیں۔ اُن کے خود اپنے لیے بخشش کا سامان کرنے کے دَر (علاوہ صدقۂ جاریہ کے) بند ہوچکے ہیں۔ اب وہ دوسروں کی دُعائوں اور بخششوں ہی کے محتاج ہیں۔ یوں بھی زندگی نے کب کسی کے ساتھ وفا کی ہے، لیکن اس بلائے ناگہانی نے تو اِسے ایسے ارزاں کرکے رکھ دیا ہے کہ دَم بھر کا بھروسا نہیں، تو خدارا! اس رمضان المبارک کی رہ جانے والی ساعتیں تو کم از کم اس کے حقِ فائق کے ساتھ گزاریں کہ کیا خبر کل ہو، نہ ہو۔ جس قدر بھی فیوض و برکات، فضائل و مناقب سمیٹ سکتے ہیں، جھولیاں بَھر بَھر سمیٹ لیں کہ اُس کے بعد تو کہنے کو بس یہی رہ جائے گا ؎ فرصت تھی مانگنے کی، نہ تھا کوئی قرینہ…بس آنکھ جھپکنے میں ہی کٹ گیا مہینہ…دنیا کی لذّتوں نے مصروف بہت رکھا…افسوس پاسکے نہ غافل ترا خزینہ…چند روز رہا اپنا مہمان، خدا حافظ…رمضان خدا حافظ، رمضان خدا حافظ۔

اور…ماہِ صیام کی کچھ قیمتی، اَن مول ساعتوں کی صُورت سجی یہ بزم بھی محض ایک یاد دہانی ہے کہ رب تعالیٰ کی عطا کردہ لاتعداد نِعم سے صرف شکم سیر ہی نہیں ہونا، اس کی اطاعت و بندگی، صبر و شُکر کے ساتھ بہت عاجزی و انکساری سے مسلسل توبہ استغفار کرکے اُس کےجلال کوجمال میں بدلنے کی سعیٔ مسلسل بھی کرنی ہے۔

تازہ ترین