• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر:شمیم ڈیوڈ۔۔۔لندن
مریضوں پر ہی تیرے اتنے احسان
احاطہ ہو نہیں سکتا سخن سے
…………… (حبیب جالب ؔ)
ساری دنیا نہایت خطرناک اور مہلک وباء کرونا وائرس کے شکنجے میں جکڑی ہوئی ہے۔ سائنسدان، ماہر طب، ڈاکٹرز اور نرسز اس نئے اور نامعلوم وائرس سے مقابلہ کرنے کیلئے انتھک محنت اور کوششیں کر رہے ہیں۔ اولین سطح پر کاوش کی جارہی ہے کہ اس وائرس کے متعلق زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کر کے اس کی ساخت اور ہیئت کو سمجھا جا سکے۔ تاکہ اس موذی وائرس سے پیدا ہونے والی وباء اور بیماری کی روک تھام کیلئے ویکسین ایجاد کی جائے۔ تاوقت ِ تحریر سائنسدان کافی حد تک اس مقصد میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ دوسری طرف ڈاکٹرز اور نرسز کرونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کی دیکھ بھال اور مریضوں کو موت کے منہ سے نکال لانے کیلئے صف ِ اول میں کھڑے اپنی جانوں تک کا نذرانہ دے کر خدمت ِ خلق کی اعلیٰ ترین مثالیں قائم اور نمونہ پیش کر رہے ہیں۔پاکستان بھی اس وقت کرونا وائرس کی تیسری انتہائی خطرناک اور مہلک لہر میں سے گزر رہا ہے جو پہلی لہروں سے زیادہ مہلک ثابت ہو رہی ہے۔ پاکستان کی وزارت ِ صحت ، ڈاکٹرز، نرسز، امداد ِ طبی سے منسلک دیگر طب سے منسوب پیشہ ور افراد اس مہلک وائرس کے خلاف ایک جہاد کی سی صورت میں مقابلہ کر رہے ہیں۔ اپنی جانوں کو خطرہ میں ڈال کر اپنے ہم وطنوں کے علاج اور تیمارداری میں مصروف ہیں۔ انسانیت کی خدمت کی اعلیٰ مثال پیش کر رہے ہیں۔پاکستان میں ہی ایک طرف انسانیت پرور قوتیں تن دہی سے خدمت ِ خلق میں مصروف ہیں تو دوسری طرف انسانیت سوز طاقتیں بھی بھرپور وار کر رہی ہیں۔ اس کی گواہی فیصل آباد کے سِول ہسپتال میں دو مسیحی نرسز مریم لعل اور طالب علم نرس ناوش آروج پر وقاص ڈسپنسر کی طرف سے توہین ِ رسالت کا بے بنیاد اور جھوٹا الزام لگایا جانا ہے۔ اگر اس واقعہ کو سنجیدگی اور واقعات کا ٹھنڈے دل سے جائزہ لیں تو ایک مضحکہ خیز ناپختہ من گھڑت سی کہانی صاف نظر آتی ہے۔ وقاص جو ا’سی ہسپتال میں کام کرتا ہے ا’س نے نر س مر یم پر الزام لگا یا ہے کہ ا’س نے قران کے ا’وراق کی بے حر متی ہے۔پا کستا ن میں کویٔ اپنی جان سے بیزار یا دیوانہ ہوگا جو ایسی حرکت کرے گا۔اسی قسم کا الزام رمشا مسیح پر لگا تھا جو ذہینی طورکمزورتھی۔کچھ معتبراور خوفِ خدا ر کھنے والے علما کی بر وقت مدا خلت سے ا’س معصوم بے گناہ کی جان بچ گئی۔اکثر ایسے الزامات کے پچھے مقا صد کبھی ذاتی، جنسی یا جایٗیدادکی وجہ ہو تے ہیں،وقاص نے نرس پر چاقو سے وار کر دیا اور حسب ِ معمول جائے وقوعہ پر موجود ہجوم کے مذہبی جذبات کو خوب اُبھارا۔ اِسی طرح کا واقعہ جنوری میں کراچی کے ایک ہسپتال میں ایک مسیحی نرس تبیتاہ گل کے ساتھ ہوا۔ حالانکہ تبیتاہ کی ہم کار مسلم نرس نے تبیتاہ کی کھُل کر حمایت کی اور تبیتاہ کو ایک با اخلاق اچھی ہم کارکے طور پر اُس کی حمایت کی۔ یہ وہ انسانیت سوز شرپسند قوتیں ہیں جو مذہب کو ڈھال بنا کر شرانگیزی ، اضطراب اور بے چینی پھیلا کر ملک میں فرقوں اور مذاہب کے درمیان تصادم پھیلانا چاہتے ہیں۔ملک میں باہمی عزت و تقریم ، ہم آہنگی میل ملاپ کو ریزہ ریزہ کرنا چاہتے ہیں اور مذہب کو اپنی تخریب کاری کیلئے استعمال کرنا چاہتے ہیں ۔ یہ نہ ملک کے خیر خواہ ہیں اور نہ ہی مذہب کی اصلی تعلیمات پر عمل کرنا چاہتے ہیں۔ اس قسم کے عناصر اور وقاص ڈسپنسر کی اطلاع کیلئے نرسنگ کے حوالہ سے ایک تاریخی پس ِ منظر بیان کرنا نہایت ضروری ہے۔ قیام ِ پاکستان کے موقع پر بھی 15 اگست ۱۹۴۷ میں جس وقت پاکستان معرض وجود میں آیا ہندوستان سے نقل مکانی کر کے آنے والے سلمان نہایت بے سروسامانی کی حالت میں خطرات سے بچتے بچاتے بھوک پیاس سے نڈھال اور بہت سے افراد زخموں سے گھائل ، معصوم بچے ڈرے سہمے ہوئے، بیمار بزرگ جنہوں نے جوان بیٹیوں کو بے آبرو ہوتے دیکھا غم سے نڈھال یاس و آس کی تصویر جب پاکستان پہنچے تو ان مسیحی نرسز نے اُن کو اپنی بانہوں میں چھپا لیا۔ اُن کی مرہم پٹی کی ، اُن کے دکھ درد میں شریک اُن کی دردناک کہانیاں اور واقعات سُن کر اُن کو حوصلہ دیا اور ایک پُر امید زندگی کا مژدہ سنا کر اُن کے حوصلے بڑھائے۔سرکاری ہسپتالوں ، مشنری ہسپتالوں اور ڈسپنسریز یہاں تک کہ فوجی ہسپتالوں میں بھی یہی مسیحی نرسز تھیں جنہوں نے نوخیز ملک اور اپنے دکھی ہم وطنوں کی بے لوث خدمت کی۔ یہ زمانہ تھا جب مسلم لڑکیاں نرسنگ کے پیشہ میں آنا معیوب سمجھتی تھیں اور زیادہ تر طب اور نرسنگ کے پیشہ میں مسیحی لڑکیاں نہایت دل لگی، محنت اور ایمانداری سے اپنے فرائض سر انجام دیتی تھیں۔ آج اُن کو اِس خدمت ِ خلق کے فرائض انجام دیتے ہوئے نہ صرف سماجی اور معاشرتی تفریق کا سامنا ہے بلکہ مذہبی طور پر بھی اُن کو ہراساں کیا جاتا ہے لیکن وہ اپنی اپنی دنیاوی اور مذہبی تربیت کی بنا پر نرسنگ کو ایک مقدس فریضہ سمجھ کر اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں نبھاتی ہیں۔ لیکن افسوس کہ اب اسلامی جمہوریہ پاکستان میںان مسیحی نرسز کو توہین ِ رسالت کے جھوٹے اور بے بنیاد الزامات سے بھی نبرد آزما ہونا پڑتا ہے۔اِن نرسز کی خدمت کا حال محض قیام ِ پاکستان تک محدود نہیں بلکہ 1965ء کی جنگ میں جب بھارتی فوج نے پاکستان پر جارحانہ حملہ کیا اور پاک فوج کے جوانوں نے اپنے سینہ پر گولیاں کھا کر ملک کا دفاع کیا تو اُس وقت بھی نہ صرف فوجی بلکہ سولین زخمیوں کی تیمارداری اور مرہم پٹی کیلئے یہی نرسز ہمہ تن مصروف ِ خدمت تھیں۔ مجھے یہ کہنے میں ازحد خوشی ہے کہ اب بہت سی مسلم لڑکیاں بھی اس پیشہ میں اُسی تن دہی اور لگن سے قوم اور ملک کی خدمت کر رہی ہیں۔ یہ ایک ایسا مقدس اور انسانیت دوست پیشہ ہے کہ اِس میں نہ صرف مذہب بلکہ کسی قسم کی تفریق کے بغیر پیشہ ور ماہرین کو اپنی پیشہ ور خدمات انجام دینے کا موقع ہونا چاہئے۔ ورنہ فیصل آباد کے سِول ہسپتال میں جو 2 مسیحی نرسز کے ساتھ برتائو کیا گیا ہے ، ایسے گھٹن اور خوف و ہراس کے ماحول میں نرسز اپنی خدمات اچھے طریقہ سے بروئے کار نہیں لا سکتیں۔یہ حکومت کا فرض اور ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے واقعات کا فوری طور پر سد ِ باب کریں، ورنہ پہلے سے زیر ِ دبائو شعبہ صحبت کی کارکردگی کو مزید زک پہنچنے کا خطرہ ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اِس قسم کے مذہبی تفریق اور دبائو کی وجہ سے نرسز اِس پیشہ کو چھوڑنے پر مجبور ہو جائیں یا اس قسم کے واقعات کی وجہ سے ہسپتالوں میں نرسز کیلئے اتنا خوف زدہ اور پُر گھٹن ماحول ہو کہ اُن کی پیشہ ورانہ کارکردگی منفی طریقہ سے متاثر ہو جس کا براہ ِ راست اثر مریضوں کی فلاح و بہبود اور صحت پر منعکش ہوگا۔اچھے وقتوں میں پاکستانی معاشرہ میں اساتذہ اور ڈاکٹر اور نرسوں کو عزت اور تقریم کا ایک اعلیٰ مقام دیا جاتا تھا بلکہ اُردو ادب و شاعری میں اِن معالجین کیلئے مسیحا کا استعارہ استعمال کیا جاتا ہے۔ ترقی پسند ممالک میں کرونا وائرس کی وباء کے دوران اپنے قومی شعبہ حفظان ِ صحت کے عملہ کیلئے ہر جمعرات کو رات8بجے ہر شہری اپنے دروازے پر تالیاں بجا کر اُن کی حوصلہ افزائی اور شکریہ کا اظہار کرتے تھے۔ دوسری طرف فیصل آباد سِول ہسپتال کی نرسوں کو ناکردہ گناہ کی سزا بھگتنی پڑ رہی ہے۔ہماری دعا ہے کہ خدا پاکستان کو اِن شرپسندوں سے محفوظ رکھے جو مذہب کا لبادہ اوڑھ کر پاکستان کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ یہ وہ بھیڑیے ہیں جنہوں نے بھیڑوں کی کھال سے اپنے آپ کو چھپا رکھا ہے۔
تازہ ترین