• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہمالیائی سلسلے کے دامن میں پھیلے کوہ شوالک کے شفاف یخ بستہ رستے، پانی کی شریانوں سے پھوٹتے چشموں کو مقامی لوگ ’’چوہ‘‘ موسوم کرتے ہیں۔ زرعی معیشت کی افزائش سنبھالنے والے آب رسانی کے ان ذرائع سے ہند معاشرت میں رچی بسی راجپوت بستیاں اور جاگیردار گھرانے انڈس تہذیب سے جڑے رشتے اور ناتے صدیوں تک قائم رہتے دکھائی دیتے ہیں۔راجپوت گھرانوں کے چندر بنسی اور سورج بنسی نسبت سے وابستہ تلوار کے دھنی خاندان ہمیشہ اپنے خاندان کے سب سے بڑےبیٹے کے ماتھے پر تلک لگاتے اور یہ تلک صدیوں بعد ’’ٹکا‘‘ کہلانے لگا۔

راجپوت لڑی کے دو بڑے گھرانے اپنی چھوٹی چھوٹی سلطنت قائم کرکے راجپوت تاریخ کے باب رقم کر چکے تھے۔ تقسیم ہندوستان سے کئی سو سال قبل ایک راجپوت لڑی کے سلسلۂ تسلط اور خاندانی وراثت کے نظام کو اپنی حکمت و دانائی اپنے دیہاتی ماحول کی خاندانی وجاہت اور وراثت کی ڈھلتی لڑی میں’’حمد خان‘‘ کے ماتھے پر ٹکا (ہندو تہذیب کا تلک) وراثت کی باگ ڈور سنبھالنے کیلئے لگ چکا تھا۔

سماج کی مقامی سیاست کا تلک اپنے والد کی وفات کے بعد راٹھ اور ٹھیٹھ راجپوت گھرانے کے سربراہ محمد خان کے ماتھے پر سجا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ ہستنہ پور کے چندر بنسی اور سورج بنسی کورو اور پانڈو کچھ ہزار سال پہلے جمنا کے کنارے ہستنہ پور کے مقام پر ایک سلطنت کے قائم کرنے میں کامیاب ہوچکے تھے۔ یاد رہے کہ یہ مقام تاریخ کی ڈھلوان پر اُس وقت قائم ہوا جب دلّی نام کا نہ کوئی شہر اور نہ کوئی آبادی تھی۔ تاریخ کی ان ڈھلوانوں پر ہوشیار پور (ہندوستان) میں ایک قصبہ ہریانہ کے نام سے موسوم تھا۔

ٹکا محمد خان ٹائون کمیٹی اور پھر میونسپل کمیٹی ہریانہ کے چیئرمین منتخب ہوئے۔ اُن کے بڑے بیٹے محمد خالد، محمد اعظم، محمد حسن، محمد اقبال، محمد نواز، محمد مختار اور ان سب کے بیچ ٹکا محمد اقبال ﷲ تعالیٰ کی ودیعت کردہ اہلیت و قابلیت سے پنجاب کی سیاست میں ایک بڑا نام بن کر اُبھرا۔ بھٹو کے ساتھ ایک بے اختیاری کے عالم میں پاکستان پیپلز پارٹی پنجاب کی سیاست میں کھود کر اپنا مقام لکھ دیا۔ وہ اپنی عمر سے کہیں زیادہ ذہین اور اَن ہونے والے واقعات کو بھانپنے کی خداداد اہلیت اور وجدان رکھتا تھا۔ ایک طویل عرصہ سے علیل ہونے کے باعث سیاست میں الجھنے سے محروم دکھائی دیتا تھا۔ لیکن دوست احباب سے راستے اور رشتے قائم رکھنے کی خوب مہارت رکھتا تھا۔ اپنے گھر پر دعوتوں کا ایک وسیع سلسلہ ترتیب دیتا۔ اقبال سے دوستوں کے مجلسی رشتے اور محرومی اُس کی زندگی کے ساتھ ہی ختم ہوگئے۔ انا ﷲ و انا الیہ راجعون ۔ وہ اپنے والد، والدہ کے پائوں میں جنت کی تلاش میں محو ہوگیا۔ اُس کے دونوں بھائی حسن اورنواز اُس کے پہلو میں اپنی اُخروی زندگی کا سفر کاٹنے لگے۔

ازراہِ تفنن میں نے ٹکا محمد اقبال کو ہمیشہ کہا کہ غالب کے شعر کے ایک مصرعے کی شکل کا گھر بنائو اور اس میں ابدی رہائش کا سامان پیدا کرو۔

بے در و دیوار کا اک گھر بنایا چاہئے

کوئی ہمسایہ نہ ہو اور مہرباں کوئی نہ ہو

اور آخر کار 3مارچ 2021عارف والا کے قبرستان میں سنگ مَرمَر کے بے درو دیوار کے گھر میں اپنی ابدی رہائش قائم کر گیا۔ میں کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ دوستوں کا ایک علاقہ اور قبرستان ہونا چاہئے۔ زندگی میں سالوں کی قربت رکھنے والے لوگ مرنے کے بعد اگر ایک قطعہ ارضی میں اکٹھے آباد ہو جائیں تو موت اُن کا کیا بگاڑ پائے گی؟

تازہ ترین