• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حکومت کا رنگ روڈ پروجیکٹ اپنی ذات میں ہی ایک اسکینڈل

اسلام آباد (انصار عباسی) حکومت کا تشہیر کردہ رنگ روڈ پروجیکٹ اپنی ذات میں ہی ایک اسکینڈل ہے کیونکہ اس میں حقائق کی کئی سنگین خامیاں اور خرابیاں ہیں اور ساتھ ہی سیاست کا ایک ایسا رُخ بھی ہے جس میں پی ٹی آئی کو اندر ہی سے ہی الزامات کا سامنا ہے۔ حیرانی کی بات ہے کہ حکومت انکوائری رپورٹ کے منتخب حصے جاری کر رہی ہے جو درحقیقت ایک ایسی رپورٹ ہے جس میں تین رکنی کمیٹی نے اس پر دستخط ہی نہیں کیے۔ اس کی بجائے، دو ارکان نے اپنی اپنی رپورٹ جمع کرا دی ہے جو انکوائری ٹیم کے سربراہ کی جاری کردہ رپورٹ سے اتفاق نہیں کرتیں۔ باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ اقلیتی رپورٹ، جسے حکومت قبول کرتی ہے، قیاس آرائیوں پر مبنی ہے اور اس میں قصور وار سابق کمشنر راولپنڈی کو ٹھہرایا گیا ہے جبکہ باز تخلیط (Realignment) پر بحث و مباحثے اور فیصلے لاہور میں متعلقہ فورمز پر کیے گئے تھے۔ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ اس رپورٹ کو وزیراعظم کے مشیر کی حمایت حال ہے۔ جب اُن سے دی نیوز نے رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ ان کا اس پورے معاملے سے کوئی لینا دینا نہیں۔ میڈیا کو غیر رسمی طور پر وزیراعظم کے ایک با اثر خصوصی معاون اور راولپنڈی ڈویژن کے ایک وفاقی وزیر کیخلاف بھڑکایا گیا ہے۔ خصوصی معاون کا معاملہ سنگجیانی کی زمین سے جڑا ہے اور یہ زمین اُن کے ننھیال سے رشتہ داروں کی ہے جبکہ خود معاون خصوصی اور ان کے سگے رشتہ داروں میں سے وہاں کسی کی کوئی زمین نہیں۔ رابطہ کرنے پر معاون خصوصی نے دی نیوز کو بتایا کہ انہیں رنگ روڈ روٹ کے متعلق علم نہیں۔ سنگجیانی کی زمین صدیوں سے ڈاکٹر توقیر شاہ کی فیملی کی ملکیت میں ہے۔ سی ڈی اے کا سیکٹر 17 سنگجیانی گائوں میں آتا ہے۔ اس بات کی بھی تصدیق ہوئی ہے کہ رنگ روڈ کو مرگلہ ایونیو سے سیکٹر 17 پر جوڑنے کی تجویز سی ڈی اے نے دی تھی اور انہوں نے اس پر این او سی جاری کیا تھا۔ قریبی واسطے داری کے باوجود، وزیراعظم کے معاون خصوصی کے سنگجیانی کی شاہ فیملی کے ساتھ تعلقات اچھے نہیں۔ اگرچہ ڈاکٹر توقیر شاہ کا نام ہی اس مبینہ اسکینڈل کو پرکشش بناتا ہے لیکن اس زمین پر کوئی ہائوسنگ سوسائٹی ہے اور نہ ہی یہ فیملی اس رنگ روڈ سے کوئی فائدہ اٹھا سکتی ہے کیونکہ ان کی زمین کو ڈی سی ریٹ سے بھی کم قیمت پر حاصل کیا جائے گا جو زمین کی مارکیٹ کی قیمت سے بھی بہت کم ہے۔ وزیراعظم کے معاون خصوصی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ اگرچہ ان کے توقیر شاہ کے ساتھ تعلقات اچھے نہیں لیکن اس فیملی کو غیر منصفانہ انداز سے اسکینڈل میں گھسیٹا جا رہا ہے۔وزیراعظم کے معاون خصوصی کو عمومی طور پر اس رپورٹ کی تیاری کے پیچھے پس پردہ ہاتھ سمجھا جاتا ہے لیکن جب ان سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ اس معاملے سے ان کا کوئی لینا دینا نہیں، وزیراعظم کے معاون خصوصی اور وفاقی وزیر کو غیر ضروری طورپر اس معاملے میں گھسیٹا جا رہا ہے، سنگجیانی فیملی کی زمین کی ملکیت بہت پرانی ہے۔ اس بات کی بھی اطلاعات ہیں کہ سابقہ باز تخلیط (ری الائنمنٹ) سے با اثر ریئل اسٹیٹ ڈویلپرز اور با اثر ہائوسنگ اسکیم والے فائدہ لے سکتے تھے لیکن نیا ڈیزائن ان کیلئے ایک پریشانی ہے اور رنگ روڈ پروجیکٹ بننے سے پہلے ہی اس کو سبوتاژ کرنے میں ان کا ہاتھ ہو سکتا ہے۔ یہ بات بہت ہی دلچسپ ہے کہ اقلیتی رپورٹ کمشنر راولپنڈی نے لکھی ہے، یعنی اسی افسر نے جسے ڈسکہ ضمنی الیکشن میں دھاندلی کے الزام پر الیکشن کمیشن نے ہٹا دیا تھا۔ گجرانوالہ سے ہٹائے جانے کے بعد افسر کو کیپٹن (ر) محمود کی جگہ پر کمشنر راولپنڈی لگایا گیا حالانکہ موخر الذکر سویلین بیوروکریسی میں اچھی شہرت کے حامل تھے۔ موجودہ کمشنر نے اپنی اقلیتی رپورٹ میں اپنے پیش رو کو ری الائنمنٹ میں تبدیلی کا ذمہ دار قرار دیا لیکن انکوائری کمیٹی کے دیگر دو ارکان نے کچھ الگ ہی کہانی بیان کی ہے۔ اس کمیٹی میں ڈپٹی کمشنر راولپنڈی بھی بحیثیت رکن شامل تھے لیکن انہیں بھی ہٹا دیا گیا، اپنی رپورٹ میں انہوں نے نمبر وار ان شرائط کار کے تحت جواب دیا ہے جن کے تحت انکوائری کمیٹی نے کام کرنا تھا۔ ایک معاملے، جس میں 2017ء میں نیسپاک نے آر تھری کیلئے ایک مناسب ری الائنمنٹ تیار کی تھی تو مشتہر شدہ ری الائنمنٹ میں اٹک لوُپ ون اور پساول زگزگی کہاں سے آئی۔ اس حوالے سے ڈی سی اور رکن انکوائری کمیٹی کا کہنا ہے کہ میسرز نیسپاک کی جانب سے 2017ء میں مجوزہ الائنمنٹ بشمول مکمل تکنیکی و مالی رپورٹ پبلک پرائیوٹ پارٹنرشپ (پی پی پی) سیل میں جمع نہیں کرائی گئی تھی اور مجاز اتھارٹی نے بھی اسے منظور نہیں کیا تھا۔ پی پی پی سیل کے آر ڈی اے کو بھیجی جانے والی یاد دہانیاں ریکارڈ پر ہیں جو مئی 2017ء سے اپریل 2018ء کے درمیان بھیجی گئی تھیں، جن میں درخواست کی گئی تھی کہ پروجیکٹ تجاویز جمع کرائی جائیں لیکن جمع نہیں کرائی گئیں۔ یہ سمجھنا محض قیاس آرائی ہوگی کہ کنسلٹنٹ میسرز نیسپاک کی مجوزہ الانمنٹ تکنیکی، مالی اور اقتصادی لحاظ سے انتہائی موزوں الائنٹمنٹ ہوگی۔ سرکاری ریکارڈ دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ ایشیائی انفرا اسٹرکچر انوسٹمنٹ بینک (اے آئی آئی بی) کے قرضہ سے رنگ روڈ پروجیکٹ کی تجاویز پر عمل کا معاملہ سی اینڈ ڈبلیو ڈپارنمنٹ نے شروع کیا تھا جس کیلئے وزیراعلیٰ پنجاب کو ایک سمری بھیجی گئی تھی جو 27 مارچ 2018 کو منظور کی گئی۔ اسی سمری میں رنگ روڈ کا معاملہ واپس آر ڈی اے کو بھیجا گیا جس کی ہدایات وزیراعلیٰ نے دی تھیں۔ 16 ستمبر 2019ء کو اے آئی آئی بی کے مطالبے کے مطابق میسرز زیرک انٹرنیشنل اور ای جی سی (جے وی) کی خدمات حاصل کی گئیں تاکہ فزیبلٹی اسٹڈی کرائی جائے اور تفصیلات ڈیزائن بنوائے جائیں۔ ابتدائی رپورٹس میں ٹریفک کائونٹ (او ڈی) اسٹڈیز اور ٹریفک پروجیکشن شامل تھی۔ ٹریفک کائونٹ، او ڈی سروے اور ٹریفک پروجیکشن کی بنیاد پر کنسلٹنٹ کو کلائنٹ سے منظوری کیلئے ابتدائی رپورٹ جمع کرانا تھی جس میں مختلف تجاویز، متبادل برائے الائنمنٹ شامل کی جانا تھیں اور اس میں معاشی، حفاظتی اور سروس ایبلٹی پر کوئی سمجھوتا نہیں کرنا تھا۔ منظوری اس لئے ضروری تھی تاکہ تفصیلی انجینئرنگ کی رپورٹ تیار کی جا سکے۔ کنسلٹنٹ نے تین آپشنز پر مشتمل رپورٹ پیش کی جس میں این فائیو اور ایم ٹو کے حوالے سے جغرافیائی تبدیلیاں اور کچھ معاملات میں منظوری حاصل کرنا تھی تاکہ مفصل انجینئرنگ اسٹڈی کرائی جا سکے۔ یہ روٹ آپشنز راولپنڈی رنگ روڈ کی پروجیکٹ اسٹیئرنگ کمیٹی کے پہلے اجلاس میں 19 نومبر 2019ء کو پیش کیے گئے۔ اجلاس کی صدارت چیئرمین پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ بورڈ پنجاب نے کی اجلاس مٰں وزیراعلیٰ کے مشیر ڈاکٹر سلمان شاہ نے بھی شرکت کی۔ اجلاس میں الائنمنٹ آپشن کی منظوری دی گئی جس کے تحت ریڈیو اسٹیشن این فائیو سے مرات ولیج ایم ٹو کے آپشن کو منظور کیا گیا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ نیسپاک کی 2017 کی الائنمنٹ (بنتھ سے تھالیاں) کو منظوری نہیں ملی۔ چونکہ مذکورہ فیصلے کی روشنی میں رنگ روڈ ایم ٹو پر ختم ہو رہا تھا اسلئے آر ڈی اے نے کنسلٹنٹس کے ساتھ مل کر این ایچ اے کے ساتھ میٹنگز کیں تاکہ الائنمنٹ کیلئے این او سی مل سکے۔ تاہم، این ایچ انے مجوزہ الائنمنٹ پر کئی تحفظات کا اظہار کیا جن میں سے ایک یہ بھی تھا کہ اگر ایم ٹو پر رنگ روڈ کو ختم کیا گیا تو 33؍ ہزار گاڑیوں کا ہجوم روزانہ جی ٹی روڈ پر آ جائے گا جس سے ٹول پلازہ پر گاڑیوں کی لمبی قطاریں جمع ہو جائیں گی اور ٹریفک جام ہو جائے گا۔ یہ بھی بتایا گیا کہ رنگ روڈ ایم ٹو پر ختم کرنے سے ہیوی اور لائٹ ٹریفک این ایٹی استعمال کرنے کیلئے اسلام آباد میں آ جائے گا جس سے دارالحکومت میں ٹریفک کا بحران پیدا ہوگا۔ این ایچ اے کا یہ بھی کہنا تھا کہ این فائیو سے این فائیو تک کا مکمل حل پیش کیا جائے کیونکہ جس روٹ پر بحث ہو رہی ہے وہ محض بائی پاس ہے۔ کنسلٹنٹ سے کہا گیا کہ رنگ روڈ کی ایم ٹو سے این فائیو تک الائنمنٹ تیار کی جائے۔ ایئر پورٹ فنل ایریا اور کئی ہائوسنگ اسکیموں کی تعمیر کی وجہ سے ایم ٹو اور اسلام آباد ایئر پورٹ کے درمیان بمشکل ہی کھلا ایریا تھا اسلئے کنسلٹنٹس نے ایئرپورٹ کے گرد گھومنے والی الائنمنٹ پیش کی۔ کنسلٹنٹ نے فوائد بتاتے ہوئے کہا تھا کہ راولپنڈی کے شہری با آسانی ایئرپورٹ پہنچ سکیں گے اور ایئر کارگو لینڈنگ اور ٹیکنگ آف کیلئے بہترین رابطہ کاری ممکن ہو پائے گی۔ کنسلٹنٹ نے مرات سے جی ٹی روڈ تک کیلئے تین آپشن پیش کیے۔ پروجیکٹ کو آرڈینیشن کمیٹی (پی سی) کے اجلاس میں پیش کردہ آپشنز پر ممبر سی ڈی اے کی رائے تھی کہ رنگ روڈ کا اختتام سنگجیانی این فائیو پر ہونا چاہئے۔ کنسلٹنٹ نے بھی ممبر سی ڈی اے کی بات سے اتفاق کیا۔ مجوزہ الائنمنٹ کی منظوری حاصل کرنے کیلئے اسے ایس پی ڈی کو بھیجا گیا تاکہ این او سی مل سکے لیکن اسی پی ڈی نے اعتراض کیا کہ یہ روٹ ایس پی ڈی کے مخصوص مقامات سے بہت قریب ہے۔ ایس پی ڈی نے تجویز کیا کہ ہکلہ ڈی آئی خان سی پیک روٹ استعمال کیا جائے کیونکہ یہ مسئلے کا بہتر حل ہے جس پر این ایچ اے سے پہلے بھی بات ہوئی تھی۔ اسلئے ایک مرتبہ پھر این ایچ اے سے رابطہ کیا گیا۔ کنسلٹنٹ نے بتایا کہ این ون اور سنگجیانی کے درمیان زمین کے حصول پر بہت زیادہ مالی اخراجات آئیں گے جبکہ پسوال روڈ چونکہ پنجاب حکومت کی ملکیت ہے اسلئے یہ زمین ارزاں نرخوں پر حاصل کی جا سکتی ہے جبکہ پنجاب حکومت کو بھی مالی مسائل کا سامنا ہے۔ 2017ء کی الائنمنٹ میں ٹریفک کے پورے مسئلے کی بجائے ایک چھوٹے حصے کو حل کرنے کی کوشش کی گئی تھی، سابقہ الائنمنٹ کے مطابق مسافر کو تین مختلف سڑکوں پر سفر کرکے منزل حاصل کرنا تھی پہلے رنگ روڈ، اس کے بعد ایم ٹو اور اس کے بعد این ایٹی۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ 2017ء کی یہ الائنمنٹ نیسپاک نے تجویز کی تھی جس نے اسے حتمی شکل دے کر مشہتر کرایا تھا۔ نئی تیار کردہ الائنمنٹ کو ہر سطح پر مختلف اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ شیئر کیا گیا اور کوئی تحفظات یا اعتراضات سامنے نہیں آئے اور اسے موزوں ترین راستہ قرار دیا گیا اور یہ بھی کہا گیا کہ اقتصادی نمو اور مستقبل میں ترقی اور افزائش کے مواقع پچھلی الائمنٹ میں ممکن نہیں تھے۔ ڈی سی رپورٹ کے مطابق، اٹک لوُپ جو کہ نیسپاک کی 2017ء کی الائنمنٹ میں شامل نہیں تھا، کو پروجیکٹ میں شامل کرنے کے الزام کے حوالے سے دیکھا جائے تو بادی النظر میں یہ راولپنڈی کی سطح پر حکومتی عہدیداروں اور علاقے میں موجود ریئل اسٹیٹ کے کھلاڑیوں کی جانب سے کرایے کی وصولی کی ترکیب ہو سکتی ہے۔ چونکہ ایم ٹو اور اسلام آباد ایئرپورٹ کے درمیان کئی ہائوسنگ اسکیمیں موجود ہیں اسلئے کنسلٹنٹس نے متبادل پیش کیا جس سے راولپنڈی کے شہریوں کی ایئرپورٹ تک رسائی آسان ہو جاتی اور سڑکوں کے جال سے رابطہ کاری بہتر ہوتی۔ اسلئے اٹک لوپ کو چوائس نہیں ضرورت کی بنا پر شامل کیا گیا۔رنگ روڈ محض ایک پروجیکٹ نہیں بلکہ معاشی راہداری بھی ہے، ارادہ یہ بھی تھا کہ اس پروجیکٹ سے جڑواں شہروں پر ٹریفک کا بوجھ کم ہوگا کیونکہ پھل اور سبزیوں کی مارکیٹس اور بس و ٹرک کے اڈے رنگ روڈ کے گرد قائم کیے جائیں گے۔ اس زمین میں صنعتی زون اٹک لوُپ پر قائم کیے جائیں گے۔ الائنمنٹ چاہے پرانی ہو یا مشہر کردہ، قرب و جوار میں قائم ہائوسنگ سوسائٹیز، زمین مالکان وغیرہ کو فائدہ ہوگا۔ 25 دسمبر 2018 اور 24 جون 2020 کو پروجیکٹ اسٹیرنگ کمیٹی کا دوسرا اور تیسرا اجلاس ہوا جس کی صدارت چیئرمین پی اینڈ ڈی بورڈ پی اینڈ ڈی ڈپارٹمنٹ پنجاب نے کی اور ساتھ ہی پی پی پی پالیسی اینڈ مانیٹری بورڈ کا تیسرا اور چوتھا اجلاس بالترتیب 3 جولائی 2020 اور 4 ستمبر 2020 کو منعقد ہوا جس کی صدارت وزیراعلیٰ پنجاب نے کی۔ اس کے علاوہ 20 اور 22 اگست 2020 کو پروجیکٹ رویو کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں سلمان شاہ نے بھی شرکت کی جس میں کہا گیا کہ پروجیکٹ محض ایک روڈ پروجیکٹ سے زیادہ ہونا چاہئے اور اسے آئندہ 20 سال کیلئے شہر کی ضرورتوں کو پورا کرنا چاہئے اور ساتھ ہی معاشی سرگرمیاں بھی ہونا چاہئیں۔ اس خواہش کا اظہار بھی کیا گیا کہ باضابطہ ٹائون پلاننگ کی جائے اور نئے اکنامک زون، ہب اور مراکز قائم کیے جائیں۔ موجودہ الائنمنٹ کی منظوری آر ڈی اے کی گورننگ باڈی نے دی اور دو مرتبہ زمین کے حصول کے معاملے پر غور کیا گیا۔ مذکورہ بالا اجلاسوں میں موجودہ الائنمنٹ پر کسی اسٹیک ہولڈر نے اعتراض نہیں اٹھایا۔ اس کے علاوہ، مختلف ایجنسیوں سے این او سیز حاصل کیے گئے اور جہاں تک الائنمنٹ کا تعلق تھا پی پی پی پروجیکٹ میں توجہ مالی طور پر موزوں ہونے پر مرکوز رکھی جاتی ہے لہٰذا کنسلٹنٹس نے موجودہ الائنمنٹ کو موزوں قرار دیا۔ رپورٹ کے مطابق، مذکورہ بالا کی روشنی میں یہ واضح ہو جاتا ہے کہ مشہتر کردہ الائنمنٹ پر ایک سال سے زائد عرصہ سے مشاورت اور مباحثہ ہو رہا ہے اور مختلف اسٹیک ہولڈرز سے اجلاس منعقد کیے جا چکے ہیں تاکہ اتفاق رائے حاصل کیا جا سکے۔ یہ کام خالصتاً تکنیکی اور پیشہ ورانہ انداز سے کیا گیا ہے اور اس میں کرایہ کے حصول یا ریئل اسٹیٹ کو شامل کیے جانے کا کوئی اجازت نامہ نہیں دیا گیا۔ سی اے اے کی جانب سے مبینہ طور پر ایک ہائوسنگ سوسائٹی (نووا سٹی) کو این او سی کے اجرا کے حوالے سے مفادات کے تضاد کے سوال پر رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس معاملے کا رنگ روڈ الائنمنٹ سے کوئی تعلق نہیں اور یہ معاملہ سی اے اے اور تحصیل فتح جنگ کی انتظامیہ کے دائرہ اختیار کا ہے۔ پی ایم یو / آر ڈی اے نے نووا سٹی کی انتظامیہ سے مشاورت کی اور نہ ہی سی اے اے اور تحصیل فتح جنگ انتظامیہ نے کوئی معلومات فراہم کیں۔

تازہ ترین