وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کہتے ہیں کہ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی اور آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل ظہیر الاسلام بڑے پروفیشنل ہیں اور ان کی سوچ بڑی مثبت ہے ۔انہیں امید ہے کہ ان کے ہوتے ہوئے سسٹم کو کافی بہتر کیا جاسکتاہے۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ نئی حکومت کے پاکستان آرمی اور ملک کی سب سے بڑی اور موثر خفیہ ایجنسی کے ساتھ تعلقات نہ صرف نارمل بلکہ کافی اچھے ہیں۔ یہ شروعات ہے جو خوش آئند ہے ۔ اگر حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان مضبوط کوآرڈی نیشن ہو تو بہت سے اہم سیکیورٹی مسائل کو حل کرنے میں بڑی مدد مل سکتی ہے۔ ہمارے ہاں سویلین حکومت اور سیکیورٹی اداروں میں ہم آہنگی کا فقدان بھی رہا ہے اور کئی مواقع پراس کے نتیجے میں قومی مسائل میں بھی اضافہ ہوتا رہا ہے ۔اس کی ایک وجہ سویلین حکومتوں کی کمزوی رہی ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ پر اعتماد طریقے سے بات نہیں کرسکتی تھیں یا وہ مختلف طریقوں سے اس کے خلاف کام کرتی رہیں جیسے مبینہ میمو گیٹ کے ذریعے ایک بھر پور کوشش کی گئی۔ اگر صدقِ دل سے اور قومی جذبے سے جمہوری حکومت اور سیکیورٹی ادارے اکٹھے کام کریں تو ایک مربوط پالیسی بنائی جاسکتی ہے۔ ہمارے وزیر داخلہ ایسے ہی مشن پر ہیں اوراس مشن کا خوش آئند امر یہ ہے کہ وہ آرمی اور آئی ایس آئی کے سربراہوں کے رول پر مطمئن ہیں۔
بے شمار بحرانوں کے علاوہ چوہدری نثار کو سب سے بڑا چیلنج جو درپیش ہے وہ ہے ملک سے دہشتگردی کا خاتمہ اوراس کا ارتکاب کرنے والوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنا۔ یقیناً یہ بہت مشکل کام ہے جو ہفتوں یا مہینوں میں نہیں ہو سکتا۔ مگر اگر نیت صاف اور ارادہ مصمم ہو تو ناممکن کو بھی ممکن بنایا جاسکتا ہے۔ نہ صرف ہم بلکہ پاکستان کے بے شمار لوگ وزیر داخلہ کی سنجیدگی اور کریڈیبلٹی پر یقین رکھتے ہیں جو اپنے پیش رو سے قطعاً مختلف ہیں۔ہمارے سابق وزیر داخلہ کی کمزوری یہ رہی کہ چاہے وہ کتنی بھی صحیح اور سنجیدہ بات کریں اس پر کوئی یقین کرنے کو تیار نہیں ہوتاتھا ۔ بدقسمتی سے ملک میں کئی سالوں سے جاری دہشتگردی سے تباہی کی وجہ یہ رہی کہ ہماری کوئی نیشنل سیکورٹی پالیسی نہیں ہے۔ بے شمار خونی واقعات ہوئے اور ہو رہے ہیں مگر کسی ایک کی بھی صحیح معنوں میں انکوائری نہیں ہوئی اور اگر انکوائری ہوئی بھی تو اسے مثبت انداز میں قوم کے سامنے نہیں لایا گیا۔ اس حوالے سے ہمارے ہاں نہ ہی کوئی قومی سطح پر مانیٹرنگ کا نظام ہے اور نہ ہی کوئی کوآرڈینیشن ۔ نئے وزیر داخلہ ان تمام خرابیوں کو دور کرنا چاہتے ہیں تاکہ مسئلے کے حل کی طرف تیزی سے بڑھا جاسکے۔ یہ کٹھن راستہ انہوں نے اپنے لئے خود چناہے۔ ان کی پارٹی کی طرف سے نہ صرف آفر بلکہ اصرار بھی تھا کہ وہ ا سپیکر قومی اسمبلی بن جائیں یا کوئی اور اہم وزارت جیسے پٹرولیم ،کمیونیکیشن،کامرس وغیرہ لے لیں مگر انہوں نے وزارت داخلہ کو ہی پسند کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ ملک کا ان پربہت بڑا قرض ہے اور وہ اسے واپس لوٹانے کے خواہشمند ہیں۔ انہوں نے ایک چیلنج کو قبول کرنا پسند کیا۔ بلاشبہ بجلی کی کمی کا بحران پاکستان کا بہت بڑا مسئلہ ہے اور معاشی بدحالی بھی کچھ کم نہیں مگر دہشت گردی ان سے بڑی بلا ہے جس نے پاکستان کو گھیر رکھا ہے اور واسطہ ایسے لوگوں سے ہے جو کسی اصول پر یقین رکھتے ہیں اورنہ کسی ضابطے پر۔ان کا مشن صرف اور صرف دہشت پھیلانا ہے ۔ اگرچہ انہیں معلوم ہے کہ وہ یہ جنگ نہیں جیت سکتے چاہے وہ پاکستان کو کتنا ہی کمزور کرلیں۔ جب گزشتہ ہفتے کے دوران قائداعظم کی زیارت ریذیڈنسی، سردار بہادر خان یونیورسٹی کوئٹہ کی طالبات اور بولان میڈیکل کمپلیکس پر دہشتگردی کے واقعات نے ملک کو ہلا کر رکھ دیا تو وزیر داخلہ نے اس علاقے کا فوری دورے کا پروگرام بنایا تو چار مختلف مواقع پر انہیں اس سے منع کیا گیا کہ سیکیورٹی خطرات بہت زیادہ ہیں لیکن وہ ان سب کو نظر انداز کر کے متاثرہ علاقوں میں گئے۔اس سلسلے میں سب سے پہلے انہیں اسلام آباد میں بلوچستان جانے سے منع کیا گیا، پھر ایئرپورٹ پر ایک بہت سینئر افسر نے انہیں قائل کرنے کی کوشش کی جب وہ کوئٹہ پہنچے تواس وقت بھی انہیں دہشت گردی کے خطرے سے آگاہ کیا گیا مگر چوہدری نثار نے ہر بار یہی جواب دیا کہ ”اللہ مالک “ہے اور وہ نہ صرف بلوچستان کے عوام کے ساتھ یکجہتی کا اظہارکرنا چاہتے ہیں بلکہ ان واقعات کے بارے میں فرسٹ ہینڈ انفارمیشن بھی لینا چاہتے ہیں ۔
وزیر داخلہ کراچی اور خیبرپختونخوا پر بھی توجہ مرکوز کرناچاہتے ہیں اور صوبائی حکومتوں کو ہر قسم کی مدد دینے کیلئے تیار ہیں ۔ مگر وہ نہیں چاہتے کہ خیبرپختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف جو نون لیگ کی بہت بڑی مخالف ہے اور سندھ میں پیپلزپارٹی کو کسی قسم کی شکایت کا موقع فراہم کریں کہ وفاقی حکومت ان کے معاملات میں مداخلت کر رہی ہے۔ مگر یہ حقیقت ہے کہ ان دونوں صوبائی حکومتوں کو ساتھ ملائے بغیر کراچی اور خیبرپختونخوا میں بہتری کی توقع نہیں کی جاسکتی ۔ ان علاقوں کی اہمیت پاکستان کے باقی علاقوں سے کسی طرح بھی کم نہیں۔مگر بدقسمتی سے مختلف قسم کی دہشت گردی نے ان علاقے کے لوگوں کا ناک میں دم کر رکھا ہے۔ پیپلزپارٹی کو مزید پانچ سال مل گئے ہیں کہ وہ سندھ پر بغیر شرکت غیرے حکومت کرے۔ مگر کراچی کے حالات پر کوئی فرق نہیں پڑا۔ ہر روز پرانی رفتار سے یا شاید پہلے سے زیادہ ٹارگٹ کلنگ ہور ہی ہے۔اس لئے صرف پیپلزپارٹی سے یہ توقع رکھنا کہ وہ کراچی کے حالات بہتر کرنے کیلئے کچھ ٹھوس اقدامات کرے گی ایک بے سود سی بات لگتی ہے۔ گزشتہ پانچ سالوں میں اتنی خون ریزی ہوئی ہے جس کی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی اور یہ دہشت گردی اب بھی زور شور سے جاری ہے۔آخر وفاقی حکومت کب تک اس خونی کھیل کو خاموش تماشائی بن کر دیکھتی رہے گی۔ تاہم یہ کہنا کہ سندھ میں گورنر راج لگایا جارہاہے، پیپلزپارٹی کے اندر کے خوف کو ظاہرکرتا ہے ۔وفاقی حکومت ہر ایسا طریقہ استعمال کرنا چاہتی ہے جس کے ذریعے سندھ کی انتظامیہ کچھ ڈیلور کرے اور کراچی میں امن وامان بحال ہو۔پیپلز پارٹی کے پاس نہ تو پہلے اس حوالے سے کوئی معقول عذرتھا اور نہ ہی اب ہے کہ وہ کراچی میں حالات کو نارمل کیوں نہیں کر پا رہی۔