حکومت نے بڑی حکمت یا حماقت سے چاند رات چرالی لیکن کیا فرق پڑتا ہے کیونکہ یہاں تو گئی حکومتوں نے کئی عشرے اور آدھا ملک چرا لیا۔ ’’زندہ ہیں یہی بات بڑی بات ہے پیارے ‘‘ اس طرح کی اخباری خبریں بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیتی ہیں ۔’’ملک میں عید الفطر مذہبی جوش وجذبہ کے ساتھ منائی گئی ‘‘ حالانکہ صرف عیدالفطر ہی نہیں ہم بہت کچھ جوش وجذبہ کے ساتھ مناتے ہیں اور مجھ جیسے فاتر العقل یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ یہ ’’جوش و جذبہ ‘‘ آخر ہے کیا جو کبھی نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوتا حالانکہ انسانی تاریخ گواہ ہے کہ ’’جوش وجذبہ ‘‘ نے تاریخ کے دھارے تبدیل کر دیئے لیکن یہاں ؟؟؟کہیں ایسا تو نہیں کہ ہمارا جو ش و جذبہ بھی ملاوٹی ہے، اس میں بھی کھوٹ ہے یا اس کی کوئی سمت نہیں اور یہ یونہی ہے جیسے جوش و جذبہ کا مارا ابلتا ہوا پانی جو ہنڈیا میں اندر ہی اندر ابلتے ہوئے بھاپ میں تبدیل ہو کر فضا میں تحلیل ہو جاتا ہے ورنہ کروڑوں جیتے جاگتے انسانوں کا یہ جوش و جذبہ کوئی نہ کوئی رنگ تو ضرور لاتا ۔
’’ہائے وہ تیرِنیم کش جس کا نہ ہو کوئی ہدف‘‘
ایسی شمشیر برہنہ کو چاٹنا ہے جس سے ٹماٹر بھی نہ کاٹے جا سکتے ہوں، ایسی گھنگھور گھٹا کا کیا فائدہ ہے جو برسے بغیر گزر جائے ۔کہیں جوش وجذبہ کے ساتھ عید منائی جاتی ہے کہیں جوش و جذبہ سے یہی عید خون میں نہلائی جاتی ہے اور خبر آتی ہے کہ ....’’صیہونی فوج نے عید کو بھی ماتم بنا دیا۔ 39بچوں سمیت شہدا کی تعداد 150سے بڑھ گئی۔ بمباری سے ایک ہی خاندان کے 10افراد شہید۔ 10ہزار سے زائد فلسطینی بے گھر ‘‘ملتی جلتی صورتحال کشمیر میں ہے اور ہمارا ردعمل بھی ملتا جلتا ہے اور مدتوں سے ہے لیکن نتیجہ؟اب تک اس جوش و جذبہ سے کچھ نہیں نکلا تو آئندہ کسی امید کا منطقی جواز کیا ہے؟ کیا اس ساری صورتحال کو نئے سرے سے سمجھنے اور ری وزٹ کرنے کی ضرورت تو نہیں ؟
تقریباً 2ارب مسلمان، 50سے زیادہ ملکوں پر مشتمل اک عالم اسلام اور ایک طرف ہندو بنیا تو دوسری طرف مٹھی بھر صیہونی جنہوں نے ریت کو زرخیز بنا دیا تو آخر گڑبڑ کہاں ہے ؟صاف دکھائی دیتی ہے لیکن دیکھنے کو تیار ہی کوئی نہیں اور پڑھنے سمجھنے کا رواج بھی نہیں ورنہ اقبال کی ہی سن کر اس پر غور کر لیتے کہ .....
’’ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات‘‘
اور ضعف کے ساتھ ’’جوش وجذبہ ‘‘ ضعیف کیلئے بہت تکلیف دہ ہوتا ہے سو کوئی تو ہو جو اس پیکرخاکی میں پھر سے جاں پیدا کرنے کا سوچے لیکن سوچنا کیا کہ یہاں تو ننگے تضادات بھی کوئی نہیں دیکھتا۔ذرا ٹھنڈے دل سے غور کریں اور جوش جذبہ کے بغیر کریں کہ کشمیری فلسطینی واقعی مظلوم ہیں جن پر ظلم ہوتے دیکھ کر دل دہلتا اور دکھتا ہے لیکن اپنے ہی ملک میں جو کروڑوں مسلمان جو نہ زندوں میں نہ مردوں میں، خطِ غربت پر رینگ رہے ہیں اور کروڑوں بچے جو سکولوں سے باہر علم جیسی کھوئی میراث ڈھونڈ رہے ہیں .....کیا یہ کشمیریوں اور فلسطینیوں سے کم مظلوم ہیں ؟ اللہ جانے اس تضاد اور پیراڈوکس کیلئے کون سا لفظ یا کون سی اصطلاح مناسب ہو گی۔کیا 50سے زیادہ اسلامی ملکوں میں سے ایک بھی اسرائیل کی ٹکر کا ہے ؟فرق صرف اتنا ہے کہ وہ ناممکن کو ممکن بنا رہے ہیں اور ہم ممکن کو بھی ممکن نہیں بنا سکے کیونکہ ہمیں صرف، صرف، اور صرف ’’جوش وجذبہ ‘‘ہی راس ہے اور یہ خالی خولی ’’جوش و جذبہ ‘‘ زیادہ سے زیادہ وہی کچھ کر سکتا ہے جو کر رہا ہے ۔لکھ لکھ انگلیاں گھس گئیں کہ یہ مسل نہیں عقل کا زمانہ ہے، یہ جوش نہیں ہوش کا عہد ہے، یہ سائیں لوکوں کی نہیں سائنس اور ٹیکنالوجی کی دنیا ہے لیکن کسی کے کان پر جوں نہیں رینگتی کیونکہ کان ہی کٹ چکے ہیں تو اس کے سوا اور کوئی آپشن اور چوائس ہی نہیں کہ کہیں عید منائی جائے، کہیں عید خون میں نہلائی جائے لیکن سوچوں، رویوں میں کوئی تبدیلی نہ لائی جائے ۔
دنیا ایک ایک دن میں ایک ایک صدی کا فاصلہ طے کر رہی ہے لیکن ہم خالی خولی جوش وجذبہ پر ’’سوار‘‘ خود کو شہسوار سمجھ رہے ہیں اور ناقابل تردیدی حقیقتوں کو ایک نظر دیکھنے کے روادار بھی نہیں ۔ایسے ایسے نان ایشوز پر خالی کھوپڑیاں ٹکرائی جا رہی ہیں کہ حیرت ہوتی ہے، خوف آتا ہے لیکن .....
جوش وجذبہ زندہ باد
باقی سب کچھ مردہ باد
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)