• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انسانی جِلد ایک ایسی ڈھال کی مانند ہے، جو جسم کو موسمی اثرات ہی سے نہیں، متعدّد جراثیم سے بھی محفوظ رکھتی ہے۔ دراصل یہ ڈھال تین پرتوں کا مجموعہ ہے اور ہر پرت کا اپنا الگ کام ہے۔ مثلاً جسم کے اندرونی اعضاء کو جراثیم اور الٹروائلٹ شعاؤں سے محفوظ رکھنا ،ہر موسم کے اعتبار سے جسم کا درجۂ حرارت کنٹرول کرنا، فاسد مادّوں کو بذریعہ پسینہ خارج کرنا وغیرہ۔ جب کہ یہ جسم کی عمومی صحت برقرار رکھنے اور وٹامن ڈی کی فعالیت میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہے۔

اگر عُمر و موسم کے اعتبار سے جِلد کی مناسب دیکھ بھال نہ کی جائے، تو اس پر نہ صرف مضر اثرات مرتّب ہوتے ہیں، بلکہ جِلدی امراض لاحق ہونے کے امکانات بھی بڑھ جاتے ہیں۔ سو،ذیل میں جِلد پرموسمی اثرات، جِلدی امراض، بالوں کے مسائل اور احتیاطی تدابیر وغیرہ سے متعلق ایک خصوصی تفصیلی مضمون سوالاً جواباً شایع کیا جارہا ہے۔

س:موسمی جِلدی امراض سے کیا مُراد ہے، کیا بدلتے موسموں کے اثرات جِلد پربھی مرتّب ہوتے ہیں؟

ج:بدلتے موسموں کے اثرات جِلد پرلازماًمرتّب ہوتے ہیں ۔مثلاً گرمیوں میں دھوپ کے اثرات چہرے کی جِلد پر گہری رنگت کی صُورت مرتّب ہوں گے، تو سردیوں میں جِلد خشک ہو جاتی ہے۔ گرم موسم کی نسبت سرما میں داغ، دھبّے اور جھائیاںنمایاں ہوجاتی ہیں، تاہم جِلد خشک ہوجانا ایک عام شکایت ہے اور یہ شکایت اُس وقت مزید بڑھ جاتی ہے، جب فیس واش استعمال کیا جائے۔ بہتر ہوگا کہ جِلد کی نمی برقرار رکھنے کے لیے کوئی موئسچرائزر ضرور استعمال کریں۔

س:پاکستان سمیت دُنیا بَھر میں کون سے جِلدی امراض عام ہیں؟

ج:چوں کہ ہمارے یہاں کا موسم گرم اور مرطوب ہے،اس لیےجِلد خصوصاً انگلیوں کے درمیان کا فنگس خاصا عام ہے،جسے عموماً کئی افراد الرجی بھی کہتے ہیں۔

س:مریضوں کے اعتبار سے مُلک میں ماہرینِ امراضِ جِلد کی تعداد تسلّی بخش ہے؟

ج:ماضی کی نسبت اب ماہرین کی تعداد تسلّی بخش ہے، لیکن چھوٹے شہروں میں اب بھی ڈرماٹالوجسٹ کی تعداد بہت کم ہے۔

س:موسمِ گرما میں کس طرح کی جِلدی بیماریاں عام ہوتی ہیں؟

ج: موسمِ گرما میں فنگس اور گرمی دانوں کی شکایات عام ہیں، جن کا سبب حبس اور گھٹن ہے۔

س:ہیٹ اسٹروک یا لُو سے کس طرح محفوظ رہا جاسکتا ہے؟

ج: ہیٹ اسٹروک کی صُورت میں دراصل جسمانی رطوبت(پسینے) کا اخراج رُک جاتا ہے، جس کے نتیجے میں جسم کا درجۂ حرارت بڑھنے لگتا ہے۔ ہیٹ اسٹروک کی علامات میں جِلد کاگرم اور سُرخی مائل ہونا ،جسم کا درجۂ حرارت 104 فارن ہائیٹ یا اس سے زیادہ بڑھ جانا، غشی پڑنا، دِل کی دھڑکن بڑھنا، سانس لینے میں دشواری محسوس ہونا، جسم میں پانی اور نمکیات کی شدید کمی ہوجانا، سَر اور پٹھوں میں درد اور متلی وغیرہ شامل ہیں۔

چوں کہ پانی جسم کا درجۂ حرارت معمول پر رکھتا ہے، لہٰذا گرمیوں میں زیادہ سے زیادہ پانی پیئں۔ اگر پانی کی بوتل میں او آر ایس بھی مِکس کرلیا جائے، تو زیادہ بہتر ہو گا۔ اس طرح جسم میں پانی کے ساتھ نمکیات کی کمی بھی با آسانی پوری ہو جائے گی۔ غیر ضروری طور پر گھر سے باہر نکلنے سے گریز کریں۔ اگر گھر سے باہر جائیں، تو سَر اور کندھے پر گیلا کپڑا رکھیں،روزانہ نہائیں اورزیادہ دیر تک دھوپ میں کام کرنے سے گریز کریں۔

س: گرم موسم میں بال روکھے ہوجاتے ہیں، تو ان کی دیکھ بھال کیسے کی جائے؟

ج: قدرتی نظام کے تحت پیدایش سے لے کر موت تک بال اُگتے اور جھڑتے رہتے ہیں۔ ہر فرد کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ اُس کے بال عُمر بَھر صحت مند اور مضبوط رہیں اور یہ تب ہی ممکن ہے، جب ہر موسممیں بالوں کی خاص دیکھ بھال کی جائے۔ چوں کہ موسمِ گرما میں پسینے اور دھوپ کی وجہ سے بال روکھے،بے رونق دکھائی دیتے ہیں، لہٰذا کسی معیاری شیمپو سےسَر دھونے کے بعد جب بال قدرے گیلے اور کچھ خشک ہوں، تو سَر میں ذرا سا بےبی آئل لگالیں۔ 

اس کے بعد موٹے دانوں والی کنگھی سے بال سنواریں ۔ اس طرح بال روکھے پھیکے نہیں ہوں گے۔ علاوہ ازیں، اپنی خوراک، نیند اور ورزش پر بھی خاص توجّہ دیں، کیوں کہ اگر عمومی صحت اچھی نہیں ہوگی، توظاہر سی بات ہے کہ اس کے اثرات بالوں پر بھی مرتّب ہوں گے اور وہ بھی بے رونق ہوجائیں گے۔

س:جِلدی امراض سے متعلق یہ تصوّر درست ہے کہ یہ زیادہ تر متعدّی ہوتے ہیں؟

ج:نہیں، تمام جِلدی امراض ایک سے دوسرے کو نہیں لگتے۔جیسے ایگزیما، سورائسز، lichen planus اورکیل مہاسے وغیرہ۔البتہ اسکیبیز زیادہ متعدّی جِلدی بیماری ہے۔ یہ مرض عرفِ عام میں وبائی خارش کہلاتا ہے کہ اگر خاندان کا ایک فرد بھی اس میں مبتلا ہوجائے، تو دیگر افراد بھی اپنا جسم کُھجاتے نظر آتے ہیں۔ اس مرض سے ہاتھوں کی انگلیاں اور ہتھیلیاں زیادہ متاثرہوتی ہیں، لیکن جسم کےدیگر اعضا ءبھی متاثر ہوسکتے ہیں۔اس صُورت میں گھریلو ٹوٹکے استعمال کرنے کی بجائے فوری طور پرکسی ماہر ڈرماٹالوجسٹ سے رابطہ کیاجائے ۔

س: عام طور پر مینو پاز، ایّام کی بے قاعدگی اور بڑھتی عُمر کے اثراتجِلدپر ظاہر ہوتے ہیں، تو بڑی عُمر میں جِلد کی حفاطت کس طرح کی جائے؟

ج: دیکھیں، جِلد پرمینو پاز، ایّام کی بے قاعدگی اور بڑھتی عُمر کے اثرات ظاہر ہونا ایک قدرتی عمل ہے، جسے کاسمیٹکس کے ذریعے روکا نہیں جاسکتا۔البتہ طرزِ زندگی میں مثبت تبدیلیاں لا کر ایک طویل عرصےتک ان اثرات سے محفوظ ضرور رہا جاسکتا ہے۔ جیسے روزانہ کلینزنگ کی جائے، دیر تک سورج کی تیز شعاؤں میں نہ رہیں، زیادہ سے زیادہ پانی پئیں ،متوازن غذا استعمال کریں،موسمی پھل ضرور کھائیںاور چہل قدمی کو معمول کا حصّہ بنا لیں۔

س:بال گرنے اور جلد سفید ہونے کا مرض کیوں اس قدر عام ہو گیا ہے؟ نو عُمر لڑکیاں بھی اس سے پریشان دکھائی دیتی ہیں، اس حوالے سے کیا پیش بندی کی جاسکتی ہے؟

ج:آج کل لڑکے، لڑکیوں میں بال گرنے اور جلد سفید ہوجانے کا مرض عام ہے، جس کی کئی وجوہ ہیں۔ مثلاً موروثیت، سَر میں خشکی،ناقص غذائیں اور بالوں میں کیمیکلز کا استعمال وغیرہ۔ تاہم، ان سب میں عام وجہ سَر میں خشکی ہے۔ اگر باقاعدگی سے شیمپو کیا جائے ، تو خشکی کے مضر اثرات بتدریج کم ہونے سے سیاہ بال نکلنے لگتے ہیں۔ واضح رہے،اگرروزانہ کنگھی کرتے ہوئےچالیس سے ایک سو بال بھی گرتے ہیں،تو گھبرانے کی قطعی ضرورت نہیں۔تاہم، بے تحاشا بال گرنا باعثِ تشویش ہے۔

س:کیا سورائسسز لاعلاج مرض ہے،اس کے علاج کےکون کون سے جدید طریقے رائج ہیں اور سب سے مستند طریقۂ علاج کون سا ہے،نیزجدید علاج کی کام یابی کی شرح کتنی ہے؟

ج:یہ بات درست ہے کہ سورائسسز کا مرض ذیابطیس اور بُلند فشارِ خون کی طرح تاعُمر لاحق رہتا ہے،لیکن اس پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ اس وقت سورائسسز کے علاج کے کئی جدید طریقۂ علاج مستعمل ہیں، جن کی بدولت مرض قابو میںرہتا ہے۔تاہم ، سورائسسز سے نجات کے لیے کبھی بھی اسٹرائیڈز اور کارٹی سون استعمال نہ کی جائیں۔

س: اسکارفس استعمال کرنے والی لڑکیوں کو عموماً بالوں میں جوئیں پڑ جانے کی شکایت بھی لاحق ہوجاتی ہے، تو اس کا سدِّباب کیسے ممکن ہے؟

ج: سَر میں عموماً خشکی کی وجہ سے جوئیں پیدا ہوجاتی ہیں،لیکن اگر باقاعدگی سے شیمپو کیا جائے، تو اسکارف اپنے اثرات مرتّب نہیں کرتا ہے۔بہرحال، شیمپو کے علاوہ روزانہ سَر میں باریک کنگھی بھی پھیریں۔اس کافائدہ یہ ہوگا کہ اگر کسی دِن ایک جوں بھی سَر میں آگئی، تو وہ افزایش سے قبل ہی نکل جائے گی۔

س:رنگت نکھارنے کے لیے فارمولا کریمز، ادویہ اور انجیکشنز کا استعمال بہت عام ہے،اُن کے کس قسم کے مضر اثرات مرتّب ہوسکتے ہیں؟

ج: رنگت نکھارنے یاچہرے پر مصنوعی طور پر چمک پیدا کرنے کے لیے جو بھی پراڈکٹس استعمال کی جاتی ہیں،ان میں زیادہ ترمرکری (پارہ)شامل ہوتا ہے، جس کا استعمال جِلد کے لیے قطعاًمفید نہیں۔ عالمی ادارۂ صحت نے بھی ایسی پراڈکٹس استعمال کرنے سے سختی سے منع کیا ہے ،جن میں پارہ شامل ہو۔رہی بات فارمولا کریمز کی تو یہ بھی جِلد کے لیےنقصان دہ ہیں اور ان کے استعمال سے چہرے کو عموماً مستقل بنیادوں پر نقصان پہنچتا ہے۔ لہٰذا یہ کریمز استعمال کرنے سےبھی قطعاً اجتناب برتا جائے۔ اللہ تعالیٰ نےجس کو جوبھی قدرتی رنگت دی ہے، وہی اُس کے لیے بہترین ہے۔ بس اپنی جِلد کی دیکھ بھال کریں ،تاکہ اس کی تازگی اور شگفتگی برقرار رہ سکے۔

س:کیاجِلد کی حفاظت کے لیے گھریلو ٹوٹکے زیادہ مفید ثابت ہوتے ہیں؟

ج:ایک دَور تھا، جب جِلد ،خصوصاً چہرے کی جِلد کی دیکھ بھال کے لیے گھریلو ٹوٹکے، جڑی بوٹیاں وغیرہ استعمال کی جاتی تھیں،مگر اب وقت بہت بدل گیا ہےاب تو گھریلو ٹوٹکےبھی جِلد کے لیے مفید ثابت نہیں ہورہے ہیں،لہٰذا ان کے استعمال سے بھی گریز کیا جائے۔

س:جو خواتین ملازمت کے سلسلے میں گھر سے باہر آتی، جاتی ہیں، وہ اپنی جِلدکا خیال کیسے رکھیں؟

ج:ملازمت پیشہ خواتین کے لیے میک اپ کرنا ایک طرح مجبوری ہے،توکوشش کریں کہ گھر آکر چہرہ دھونے سے قبل لازماً کلینزنگ کریں اور اُس کے بعد کسی معیاری چہرےکےصابن (فیس سوپ)سے چہرہ دھولیا جائے۔کوشش کریں، میک اپ میں فیس پاؤڈر، بلش آن،لپ اسٹک اور کاجل وغیرہ استعمال کریں اور فاؤنڈیشن اور دیگر کاسمیٹکس سے اجتناب برتیں۔ پھر جس قدر ممکن ہو، دھوپ سے بچیں، متوازن غذا، پانی ،پھلوں اور سبزیوں کا استعمال بڑھائیں۔اگر دھوپ میں نکلنا ضروری ہو، تو سَراور چہرہ ڈھانپ لیں۔ اگر چہرہ کور نہیں کرسکتیں تو بھی سن بلاک نہ لگائیں، بلکہ چہرے پر ہاتھ یا کیپ سےشیڈ کرلیں،تاکہ دھوپ نہ پڑے۔

س: عموماًسوشل میڈیا پر رنگت، کیل ، مہاسوں اور مختلف جِلدی مسائل سے متعلق کافی ٹوٹکے مل جاتے ہیں، تو ان کے مستند ہونے کا کیسے پتا چل سکتا ہے؟

ج: سوشل میڈیا پر رنگت، کیل ، مہاسوں اور مختلف جِلدی مسائل سے متعلق جتنے بھی ٹوٹکے دستیاب ہیں،انہیں قطعاً اپنی جِلد پر نہ آزمائیں کہ ہر فرد کی جِلد ہی نہیں، عمومی صحت بھی ایک دوسرے سےمختلف ہوتی ہے، لہٰذا سب سےبہتر تو یہی عمل ہے کہ کسی مستند ڈرماٹالوجسٹ سے رجوع کیاجائے،تاکہ جِلد اور عمومی صحت کی مناسبت سے علاج تجویز کیا جاسکے۔

س :ہوش رُبا منہگائی کے دَور میں صحت مند جِلد کا حصول کیسے ممکن ہے کہ عام آدمی کی توپھلوں، خالص اشیاء تک رسائی ہی ناممکن ہے؟

ج: منہگائی کے سبب عام افرادہی نہیں، مریض تک پھل وغیرہ استعمال نہیں کرپارہے ہیں۔ان حالات میں چہرے کی صحت مند جِلدکےحصول کے لیےسب سے بہتر تو یہی ہے کہ دِن میں کئی بار سادہ پانی سے چہرہ دھوئیں۔صابن کا استعمال دوبار سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے،کیوںکہ صابن کازائد استعمال جِلد کی خشکی کا سبب بن سکتا ہے۔ہاں سادہ پانی سے جتنی بار چہرہ دھوئیں، اس سے جِلد کی تازگی برقرار رہتی ہے۔علاوہ ازیں،بلیچ اور فیشل وغیرہ کروانے سے گریز کریں۔

س: امراض جِلد سے متعلق کوئی خاص بات، پیغام جو سب کے لیے سود مند ہو؟

ج: اگر کوئی جِلدی مرض لاحق ہوجائے، تو فوری طور پر کسی مستند ڈرمالوجسٹ سے رجوع کریں۔اتائیوں سے کسی صُورت علاج نہ کروائیں کہ بعض امراض پیچیدہ ہو کر مختلف طبّی مسائل کا سبب بن جاتے ہیں۔ اور خدارا! اپنے چہرے کو تختۂ مشق نہ بنائیں، اُسے اُس کی فطری ساخت، رنگت کے ساتھ قبول کریں۔ متوازن غذا کے ساتھ پھلوں، سبزیوں اور زائد پانی کا استعمال کریں،خوش رہیں اور ذہنی تناؤ سےدُور رہیں کہ ذہنی تناؤ چہرے کی جِلد اور بالوں پر بہت منفی انداز سے اثر انداز ہوتا ہے۔ (مضمون نگار، معروف ڈرماٹالوجسٹ ہیں اور ضیا الدین اسپتال، کراچی میں فرائض انجام دے رہی ہیں)

تازہ ترین