یادوں کے دریچے جب بھی کھول کر دیکھتا ہوں تو یوں لگتا ہے کہ زندگی کا یہ سفر اب بڑی تیزی سے اس طرف جا رہا ہے جو ہر ایک کی منزل ہے میں نے اپنی زندگی میں بے شمار لوگوں کو عروج و زوال میں دیکھا اور ان سے ہر لمحے سبق بھی سیکھتا رہا یہی وجہ ہے کہ میں نے کبھی بھی اقتدار کو اپنی منزل نہیں جانا زندگی کے سیاسی سفر کو جب پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں تو مجھے لوگوں کی محبتیں زیادہ نظر آتی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ میں جب بھی اقتدارمیں آیا تو ان محبتوں کے جواب میں مجھے جیل یاترا بھی کرائی گئی۔ اور جھوٹے مقدمے بھی یہ سب باتیں مجھے شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کی ساٹھ ویں سالگرہ پر اس لئے یاد آ رہی ہیں کہ وہ آج ہم میں موجود نہیں ، لیکن ان کے نظریات اورخیالات مجھے سیاسی راہ متعین کرنے میں روشنی کا کام دیتے ہیں۔ میری محترمہ سے پہلی ملاقات بعد میں ہوئی لیکن انہوں نے 1987کے بلدیاتی انتخابات میں پیپلز پارٹی ملتان کی تنظیم کو میری حمایت کرنے کا کہا لیکن سوائے ایک رکن کے باقی تمام پیپلز پارٹی نے میرے مخالف امیدوار کی حمایت کی اوروہ کامیاب ہو گیا۔ یہی وہ لمحہ تھا کہ میں نے ذہن میں سوچ لیا ۔ کہ اب میں مسلم لیگ چھوڑ کر پیپلز پارٹی میں شمولیت کا اعلان کروں گا۔ پیپلز پارٹی کے پیار علی الانہ کے ساتھ میری دوستی تھی انہوں نے مجھے بے نظیر بھٹو کے ساتھ ملاقات کرنے کو کہا اور پھر مجھے وہ پہلی مرتبہ رمضان المبارک میں بے نظیر بھٹو کی رہائش کا 70کلفٹن کراچی لے گئے۔ اور پھر میں نے اور محترمہ نے روزہ افطار کیا آنے والے دنوں کے بارے میں باتیں کیں۔ اور اس ملاقات کے اختتام پر محترمہ نے مجھے یقین دلایا کہ آپ کو پارٹی میں احترام دیا جائے گا۔
میری پیپلز پارٹی میں شمولیت کی خبر مسلم لیگ میں بجلی بن کر گری ۔1988کے انتخابات کے موقع پر ٹکٹوں کی تقسیم کے سلسلے میں مجھے اگر محترمہ نے کراچی مدعو کیا تو میں نے گیٹ پر جا کر گارڈ کو کہا کہ وہ محترمہ کو اطلاع کریں کہ ملتان سے یوسف رضا آئیں تو محترمہ نے فوری طورپر مجھے اندر بلاوا لیا اور پھر میری مشاورت سے ملتان کی ٹکٹوں کی تقسیم ہوئی۔ اگرچہ اس دن انتخابات میں پیپلز پارٹی نے واضح اکثریت حاصل نہ کی لیکن پیپلز پارٹی اتنی نشستیں جیت چکی تھی کہ وہ حکومت بنانے کے لئے کامیابی حاصل کر رہی ہیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ اس دور حکومت میں بہت سی مشاورت چلتی رہی۔ جس وجہ سے میں ان کے قریب ہو گیا کبھی ضمنی انتخابات اور کبھی آزاد کشمیر جلسوں کے معاملات اور پھر تحریک عدم اعتماد کو ناکام بنانے کے لئے میں نے جو کوششیں کیں اس نے مجھے اور محترمہ بے نظیر بھٹو کو اور قریب کردیا ۔ 1990ء میں جب غلام اسحاق خان نے محترمہ کی حکومت کو ختم کیا تو یہ ایک مشکل دور تھا۔ لیکن ہم نے محترمہ کے ساتھ مل کر اس مشکل دور کو آسان بنایا۔ اور آہستہ آہستہ پارٹی میں میری اہمیت بڑھتی گئی۔ 1992ء میں بے نظیر بھٹو نے پارلیمنٹ ہاوٴس کے سامنے ہم نے بھوک ہڑتالی کیمپ لگایا۔ تو تب بھی ہم ان کے بازو بن کر موجود تھے اسی طرح 1992ء میں قائد حزب اختلاف بے نظیر بھٹو کو سوشل ڈیمو کریٹک پارٹی کی طرف سے اٹلی اور جرمنی میں ہونے والے سالانہ بین الاقوامی کنونشن میں شرکت کے لئے دعوت موصول ہوئی ۔تو انہوں نے پیپلز پارٹی کی نمائندگی کے لئے میرانام تجویز کیا ۔ 1993ء انتخابات میں جب پیپلز پارٹی نے کامیابی حاصل کی میں اور شاہ محمود محترمہ کو انتخابات میں کامیابی پر مبارک باد دینے کے لئے گلزار ہاوٴس لاہور گئے۔ گلزار ہاوٴس کے ڈرائنگ روم میں محترمہ پریس کانفرنس کر رہی تھیں میں نے ان کو اپنے آنے کی اطلاع کی۔ تو دیکھتے ہی دیکھتے ڈرائنگ روم خالی ہو گیا اور پھر انہوں نے اسی ملاقات میں یہ بتایا کہ ہم نے سب سے پہلے سپیکر قومی اسمبلی کا فیصلہ کرنا ہے۔ جس کے لئے انہوں نے مجھ سے اسلام آباد میں منعقدہ اجلاس میں یہ کہا ”گیلانی صاحب آپ نے ہمیشہ میرا ساتھ دیا اور کبھی مایوس نہیں کیا میں آپ سے گزارش کرنا چاہتی ہوں امید ہے آپ مجھے مایوس نہیں کریں گے کہ ہم آپ کو سپیکر قومی اسمبلی بنانا چاہتے ہیں۔ اور آپ انکار بھی نہیں کریں گے۔“ میرے لئے یہ خبر کسی حیرت سے کم نہ تھی کیونکہ میرے تصور میں سپیکر کے لئے بزرگ ہونا سفید بال ہمہ جہت اور اچھا وکیل ہونا ضروری تھا۔ میں نے ان کو کچھ دلائل دے کر انکار کردیا ۔ لیکن ان کا یہی کہنا تھا کہ میں کسی ایسے شخص کو سپیکر کا عہدہ نہیں دے سکتی جو قابل اعتماد نہ ہو۔ اور پھر میں 106ووٹ لے کر گوہر ایوب کے مقابلے میں دنیا کا سب سے کم عمر سپیکر منتخب ہو گیا۔ اس دور میں بے نظیر صاحبہ سے اختلاف بھی ہوتا رہا۔ لیکن انہوں نے کبھی اس کا اظہار نہیں کیا کیونکہ وہ سمجھتی تھی کہ سپیکر کا عہدہ غیر جانبدار ہوتا ہے۔ 1997ء تک سپیکر ہونے کے باوجود ہمارے تعلقات بہتر سے بہترین ہوتے گئے۔ اور جب 1997ء میں ہمارے ہی صدر فاروق لغاری نے پھر بے نظیر حکومت کو معزول کردیا تو تب ہم ایک بار پھر جدوجہد کے لئے اکٹھے ہوگئے۔ اس موقعے پر میں یہ بات کہنا چاہوں گا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ میں نے دو مرتبہ اس وقت کام کیا جب وہ وزیراعظم تھیں۔ انہوں نے کبھی بھی اپنے والد ذوالفقار علی بھٹو اندازِ حکمرانی کو نہیں بھولا اپنی سیاست کو عوامی رکھنے میں کامیاب رہیں۔ اور اسی عوام کی طاقت کے بل بوتے پر دو مرتبہ وزیراعظم منتخب ہوئیں۔ ایک بات جو ان دنوں میں نے محسوس کی وہ یہ تھی کہ 1947ء میں جب قومی اسمبلی تحلیل کی گئی تو تب پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے تمام اراکین بے نظیر کی قیادت پر متفق رہے اور انہوں نے اپنی لیڈر کو خراج تحسین پیش کیا۔
بے نظیر کی سالگرہ کے حوالے سے یادوں کا ایک طویل سلسلہ ہے۔ کراچی میں پیپلز پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس سے فارغ ہونے کے بعد وہ پارٹی کے مرکزی عہدے داروں کے ساتھ اسٹاک ایکسچینج بلڈنگ تشریف لے گئیں انہوں نے وہاں قتل ہونے والے پیپلز پارٹی کے ایک کارکن کی اہل خانہ سے تعزیت کی۔ تعزیت کے بعد وہ ہمیں دربار حضرت سید محمد شاہ دولہا سبزواری پر لے گئیں ۔ انہیں اس دربار سے بے حد عقیدت تھی کہا کرتی تھیں ”کہ جب مجھے کوئی مشکل درپیش ہوتی ہے تو میں دعا کے لئے اس دربار پر حاضری دیتی ہوں۔ اسی دربار پر کھڑے ہو کر میں نے فاروق لغاری کو صدر بنایا اور انہوں نے جو میرے ساتھ کیا وہ سب کے سامنے ہے یہ بات کہتے ہوئے محترمہ کی آنکھیں بھیگ گئیں اس موقع پر میں نے سوچا کہ محترمہ نے کتنے خلوص کے ساتھ فاروق لغاری کو صدر بنایا ہو گا۔ ان کی کامیابی پر کتنی خوش ہوئی ہو گی ۔ لیکن جب اپنے ہی بنائے ہوئے صدر نے ان کی حکومت کو رخصت کردیا تو ان کا دل کتنا دکھی ہوا ہوگا۔ لیکن جب 2008ء میں میں نے محترمہ بے نظیر بھٹو کی جگہ پر وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالا تو یقین کریں مجھے یوں لگتا تھا کہ میری ہر کامیابی کے پیچھے محترمہ کے نظریات موجود ہیں۔ 2013ء کے انتخابات میں جب پیپلز پارٹی کو ایک صوبے تک محدود کر دیا گیا ہے۔ اور مسلم لیگ ن کو دو تہائی اکثریت ملنے کے بعد میری اسمبلی کے بنائے ہوئے قوانین کے مطابق اقتدار جیتنے والی پارٹی کو منتقل کردیا گیا ہے تو مجھے یوں لگ رہا ہے کہ یہ میثاق جمہوریت کا نیا جنم ہے۔ کہ اگر محترمہ زندہ ہوتیں تو وہ خود اپنے ہاتھوں سے نواز شریف کو اقتدار منتقل کرتیں۔ اقتدار منتقل ہو گیا اور ایوان صدر میں محترمہ بے نظیربھٹو کی جگہ پر ان کی بیٹی نے میاں صاحب کا استقبال کیا۔ میں سمجھتاہوں کہ پاکستان کی تاریخ میں اس سے پر امن اقتدار کی منتقلی شاید ہی کبھی ہوئی ہو یہ محترمہ کے سیاسی ویثرن کی کامیابی ہے۔ اور اسی نظریات کی حفاظت کے لئے پیپلز پارٹی کے رہنما اور کارکن قیمتیں ادا کرتے رہتے ہیں۔ لیکن پیپلز پارٹی کا یہ موقف ہے کہ پاکستان موجود رہے۔ اور ملک دشمن اپنے انجام کو پہنچیں اس لئے بے نظیر بھٹو کی 60ویں سالگرہ ہم عوام کو اس سے خوبصورت تحفہ اور کیا دے سکتے ہیں۔