• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
فکرفردا … راجہ اکبردادخان
90 کی دہائی میں ابھرنے والی مسلم لیگی قیادت کا بڑا حصہ آج بھی ملکی سیاست میں ممتاز حیثیت میں موجود ہے۔ 2018ء کے انتخابات میں لیگی قیادت کے ساتھ اختلافات کی بنا پر سابق وزیر داخلہ اور قیادت کے دیرنہ ساتھی چوہدری نثار علی خان جماعتی ٹکٹ سے محروم رہ گئے مگر پی ٹی آئی کی دعوت کے باوجود وہ مسلم لیگ میں ہی موجود رہے۔ چوہدری نثار علی خان کے پاناما اور نااہلی پر بڑے میاں صاحب کے بیانیہ سے اختلاف کی وجہ سے قیادت سے اختلافات بڑھ گئے اور قیادت نے ان پر واضح کردیا کہ اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں کہ ان کو ٹکٹ دے دیا جائے گا۔ ٹکٹ کے معاملہ پر ہی ماعت نے انہیں ٹکٹ لینے کیلئے مدعو نہیں کیا اس طرح نظرانداز کردیئے جانے پر اس سابق وزیر کی خود داری آڑے آئی اور انہوں نے بھی جماعتی ٹکٹ کیلئے کوئی باضابطہ درخواست نہ دی ۔ بالآخر انہیں قومی اور صوبائی سیٹوں پر آزاد حیثیت میں انتخاب لڑنا پڑا۔ تین سال کے طویل دورانیہ میں نثار علی خان کی سیاست خاموشی، تجسس اور اپنے لئے ایک نئی سمت طے کرنے کا مجموعہ رہی ہے اس دوران لیگی قیادت کو مزید کئی کڑے امتحانات سے گزرنا پڑا ہے۔ سابق وزیر داخلہ کی اس طویل خاموشی کو کئی حلقے مقتدر حلقوں کے خلاف مہذب احتجاج کا نام دے رہے ہیں جو ختم ہوگیا ہے۔ اس سے پہلے بھی کئی مواقع پر بحث و مباحثے ہوئے کہ پنجاب اسمبلی کے اندر لیگی ارکان کی ایک ایسی معقول تعداد موجود ہے جو خاندانی، علاقائی اور سوچ و فکر کے حوا لے سے سابق وزیر داخلہ کی ہمنوا ہے۔ جس طرح اسمبلی میں انٹری پر خود انہوں نے کہا ہے کہ عملی سیاست میں ا ن کیواپسی علاقہ کے عوام کیلئے ضروری ہے اور سیاسی میدان خالی نہیں چھوڑا جاسکتا۔ دونوں حوالوں سے بات سمجھ میں آتی ہے تاہم لوگ نہ ہی اتنے طویل احتجاج جو شاید ان کی اپنی قیادت کے رویوں کے خلاف بھی ہوسکتا ہے کیلئے تیار تھے اور نہ ہی سابق وزیر موصوف کو اس طرح کی سیاسی گوشہ نشینی اختیار کرنی چاہئے تھی جس سے انہیں سیاسی نقصان زیادہ اور فائدہ کم پہنچا ہے۔ انہیں ان تین سال میں آرام کا وقت بھی ملا ہے، جماعت کے اندر چلتے معاملات پر بھی انہیں سوچنے اور عمل کرنے کا موقع ملا ہے اور سب سے اہم یہ کہ پنجاب میں ایک سینئر سیاستدان کے طور پر وہ کیا ہوتا دیکھ رہے ہیں۔ بالخصوص لیگی بیانیہ کے حوالے سے ایک دلچسپ معمہ ہے۔ ایک طرف نثار علی خان کی گوشہ نشینی ختم ہورہی ہے اور دوسری طرف ملک مزید اقتصادی اور سیاسی مشکلات میں دھنسا جا رہا ہے۔ بارہ کروڑ عوام کے صوبہ پنجاب کی تمام حوالوں سے مرکزیت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں یہاں سے اٹھی آوازیں جس طرف چاہیں ملک کو بہا لے جاتی ہیں۔ مسلم لیگ (ن) پنجاب کی سب سے بڑی جماعت ہے تاہم جماعتی حجم اس وقت کشمکش کی صورتحال سے دوچار ہے جماعت کے تاحیات قائد نواز شریف کے ووٹ کو عزت دو کے نعرہ سے اختلاف نہیں کیا جاسکتا۔ تاہم یہ نعرہ جن دیگر مفروضات میں پھنس کر مشکلات ہوگیا ہےانہیں ایڈریس کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان آج قیادت کے بحران کا شکار ہے پی ٹی آئی اپنے عوامی اور انتخابی انداز میں جس طرح ابھری اور حکومت میں آگئی اور جس طرح چل رہی ہے اس کی مثال ایک طوفان کی مانند ہے جو اپنے قدم جما چکا ہے۔ یہ طوفان جسے ایک مقام پر تھم جانا ہے اپنے پیچھے بادوباراں کا کتنا خوشگوار ماحول چھوڑ جاتا ہے جس سے ملک کا ہر گوشہ مستفید ہو سکے کے جواب کا ہمیں انتظار کرنا پڑے گا۔2023ء کے انتخابات میں تیس ماہ کا عرصہ باقی ہے اس کم وقت میں معیاری سطح کا معاشی پیکج ڈلیور کرنا جس سے ان کی اگلی جیت کے معاملات طے ہوجائیں عمران خان حکومت کیلئے ایک ضرورت بھی ہے اور ایک چیلنج بھی۔ نائف ایج پر چلنے والی حکومت کو نہ صرف داخلی اور خارجی مسائل کا سامنا ہے بلکہ جماعت کو اندر سے بھی خطرات ہیں۔ سابق وزیر داخلہ کی اسمبلی میں انٹری پاکستانی سیاست کی مثبت نشانی ہے۔ پنجاب اسمبلی کے اندر مسلم لیگ (ن) کی قیادت ان سے کس گرمجوشی سے ملتی ہے اور ان کے سیاسی تجربہ سے کس طرح مستفید ہوتی ہے سیاسی طالبعلموں کیلئے ایک دلچسپ داستان ہوگی جس کا بغور مطالعہ اسمبلی کے اجتماعی خزانہ میں اضافہ کا سبب بن پائے گا۔ پارٹی کے دو اختلافی بیانیوں کے درمیان متحد رہنا پاکستان میں مضبوط ہوتی جمہوری روایات کی فتح ہے۔ لوگوں کی ایک بڑی تعداد اس بات سے ناخوش ہے کہ تاحال شریف خاندان کے کئی معاملات میں انصاف ہوتا دکھائی نہیں دیا اور جس سطح پر معاملات اٹکے ہوئے ہیں اس میں حرکت آنی قومی مفاد میں ہے ۔ چوہدری نثار علی خان عملی سیاست پر یقین کرنے والے فرد ہیں اور کئی اہم امور پر ا ن کابیانیہ لیگی قیادت سے زیادہ مختلف نہیں۔ ملکی حالات کا تقاضا ہے کہ جماعت کے اندر سے ایک ایسا بیانیہ ابھرے جس میں مملکت کی سالمیت، ملک کو درپیش معاشی مشکلات اور مستقبل کے انتخابی نظام پر اتفاق رائے پیدا ہو جائے ایسی فضا قائم کرنے میں جہاں سے بہتریاں پیدا ہوں سابق وزیر داخلہ اہم رول ادا کرسکتے ہیں۔ نثار علی خان نے تین سال کی گوشہ نشینی کے دوران لیگی قیادت پر بہت کم بات کی ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ جماعت کا فلسفہ اور نام انہیں بھی اتنا ہی عزیز ہے جتنا کہ دوسرے قائدین کےلئے ہے۔ منزل بظاہر سبھی کی ایک ہی لگتی ہے صرف اسکے حصول کےلئے راہیں جدا ہیں۔ شہباز شریف اور چوہدری نثار ماضی کی طرح ایک بار پھر اس دوراہے پر کھڑے ہیں جہاں سے چل کر انہوں نے جماعت کو مشکلات سے نکال کر ایک بار پھر سے الیکٹ ایبل بنانا ہے۔ یقیناً بڑے میاں صاحب بھی یہی کچھ چاہتے ہیں اللہ ایک مستحکم پاکستان کیلئے کام کرنے والوں کا حامی و ناصر رہے۔
تازہ ترین