• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہماری قومی سیاسی گاڑی اِس وقت کسی حد تک نئے اور دلچسپ فیز میں داخل ہو چکی ہے بالخصوص چھوٹے بھائی کی جیل یاترا سے واپسی کے بعد دو موجوں کا ٹکرائو واضح طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے اگرچہ یہ ٹکرائو نیا نہیں ہے مگر موجودہ مخصوص حالات میں اس کی اثر افرینی کو سمجھا جانا چاہئے۔

اس امر میں کوئی اشتباہ نہیں کہ اِس وقت (ن)لیگ پہلے سے بھی زیادہ پاپولیریٹی کے ساتھ ابھرتی دکھائی دے رہی ہے۔ کسی بھی جماعت کی مقبولیت ماپنے کا بہترین پیمانہ یہ ہوتا ہے کہ اُس کے ٹکٹ کی مارکیٹ ویلیو کا جائزہ لیا جائے کہ زیادہ سے زیادہ الیکٹ ایبل کس کے ٹکٹ کی خواہش رکھتے ہیں۔ پنجاب جو آدھا پاکستان ہے یہاں حکمران پارٹی کی قیادت انتہائی کمزور ہے، یہاں جن حالات میں حکومت سازی ہوئی تھی اور اس کیلئے جو پاپڑ بیلنا پڑے تھے یہ خود پاپڑوں والے بخوبی جانتے ہیں۔ شوگر والے نے خود یا مخصوص اشاروں پر اپنے پتے جس خوبصورتی سے کھیلے ہیں، اُس صورتحال نے رہا سہا بھرم بھی توڑ دیا۔ سینیٹ الیکشن میں ووٹ کیلئے جب اس نوع کے تقاضے کئے جا رہے تھے کہ ووٹ حاضر ہے بشرطیکہ ہمارے لئے فلاں کا ٹکٹ کنفرم کر دیا جائے، اس تناظر میں صورتحال کو بہتر سمجھا جا سکتا ہے۔

آگے بڑھنے سے قبل یہ امر بھی پیش نظر رہے کہ اس پاپولیریٹی کی بنیاد بہرحال لندن کا وہ بیانیہ ہے جو شروع میں تو بہت سے لوگوں کو خوفناک لگتا تھا مگر آج سب کو نظر آ رہا ہے کہ اِس بولڈ یا جرأت مند بیانیے نے نہ صرف یہ کہ اُن کی انتخابی معرکہ آرائی کو قائم و دائم رکھا ہے بلکہ بدلے ہوئے حالات میں اُسے ایک نیا اعتماد اور نئی توانائی بخشی ہے جس کا سہرا صرف قائد کو نہیں اُس کی بیٹی کو بھی جاتا ہے۔ دوسری طرف وفادار بھائی ہے جو شروع دن سے مصلحت اور مصالحت کی سیاست کرتا چلا آ رہا ہے اور موجودہ حالات میں بھی یہ چاہتا ہے کہ سیاسی کشتی کو منجھدار سے نکالنے کیلئے طاقتور حلقوں کے ساتھ کمپرو مائز کرتے ہوئے آگے بڑھا جائے۔ بظاہر یہ اختلاف افتراق کا باعث دکھتا ہے لیکن باریکی سے سمجھنے کی کوشش کی جائے تو بالآخر یہ باعث برکت و رحمت ثابت ہو سکتا ہے۔

اس دوسری سوچ پر اصولی دلائل کے ساتھ بلاشبہ تنقید کی جا سکتی ہے۔ بہت سے اصول پسند کہہ سکتے ہیں کہ وہ بیانیہ اور طاقتوروں کے سامنے کھڑے ہونے کے بلند بانگ دعوے کہاں گئے؟ اگر اس آستانہ عالیہ پر سجدہ ریز ہوتے ہوکر ہی راج سنگھاسن پر جلوہ افروز ہونا تھا تو پھر اتنے اونچے آدرشوں کے ساتھ سہانے سپنے دکھانے کی ضرورت کیا تھی؟ جب پاپولیریٹی کی بنیاد انقلابی بیانیہ ہے تو پھر اس سے انحراف کے معنی یہ ہوئے کہ پاپولیریٹی کی ہنڈیا بھی بیچ چوراہے پھوڑ دی جائے۔ ذرا ٹھہریے اس صورتحال کو پاکستان کے معروضی حالات اور زمینی حقائق کی روشنی میں پرکھیے۔ یہاں عوامی خواہشات یا عوامی مقبولیت کو کون دیکھتا ہے؟ نواز شریف کا جمہوری بیانیہ کیا 2018کے الیکشن میں مقبول نہیں تھا؟ لیکن جو اس ملک کے اصل کرتا دھرتا ہیں انہوں نے کیا درگت بنائی اس عوامی مقبولیت کی؟ کون کہہ سکتا ہےکہ حیلوں بہانوں سے وہی تاریخ پھر نہیں دہرائی جا سکتی؟ مانا کہ من مانی کرنے والوں کیلئے اب کے حالات خاصے گنجلک ہو چکے ہیں پھر بھی بھڑوں کے جھتے میں ہاتھ ڈالنا اتنا آسان نہ ہوگا لہٰذا بہتر ہے اپنے کچھ مطالبات منواتے ہوئے مصلحت کی شہبازی راہ اپنا لی جائے تاکہ نہ صرف اناڑیوں سے جان چھوٹے بلکہ آنے والے ماہ و سال میں اصل بیانیے کیلئے بھی راہ کشادہ ہو سکے۔ قیادت اور کارکن آخر کب تک آزمائشوں کی بھٹی میں جلتے رہیں؟

لندن میں مقیم شخصیت کا کہنا ہے کہ ’’ہم نے جتنی بھٹیوں میں جلنا تھا جل چکے، ہمارے خلاف نفرت کے طوفان اٹھائے گئے، بےبنیاد مقدمات بنوائے گئے، ہمارے قائد کو جان سے مار ڈالنے کا پورا بندوبست کیا گیا لیکن قیادت سے لیکر کارکنان تک کسی کے قدم نہیں ڈگمگائے۔ قومی یا صوبائی اسمبلی تو کیا، یونین کونسل کا کوئی ایک ممبر تک نہیں ٹوٹا، قیادت سے نہیں روٹھا، ایسے حوصلے، جذبے اور ولولے کے ہوتے ہوئے ہم کیوں گھٹنے ٹیکنے لگے؟ الحمدللہ رحمتِ ایزدی سے میں محفوظ مقام پر آچکا ہوں، اب ہمارا سمجھوتہ صرف ون پوائنٹ ایجنڈا ہے کہ ہم آنے والے الیکشن میں شب خون نہیں مارنے دیں گے۔ میرا بھائی مصلحت یا مصالحت کی باتیں کرتا ہے ضرور کرے، ایک گھر میں دونوں بھائیوں کو ایک جیسی کڑوی باتیں کرنی بھی نہیں چاہئیں‘‘۔

اصل سیاسی حریف بھی سوچ لیں کہ انہوں نے اپنے قائد کا حقیقی وارث بننا ہے یا طاقتوروں کی بیساکھیاں؟ ایک پیج کا ڈھول پیٹنے والا بھی سوائے طعن و تشنیع کے کچھ حاصل نہیں کر پایا تو آپ لوگ کہاں تک جائیں گے؟ بھاری بھاری کے نعرے لگانے سے کوئی بھاری نہیں ہو جاتا، پنجاب سے یوں فارغ ہو کر تم لوگوں نے وہ زنجیر از خود توڑ دی ہے جس کے نعرے لگاتے نہیں تھکتے تھے۔ اب جو بچے ہیں تیر سنبھال لو اور تائب ہو کر مولانا کی چراگاہ میں آجائو۔

تازہ ترین