• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کچھ عرصہ پہلے ڈاکٹر حسین احمد پراچہ نے ایک کتاب ارسال کی ’’مولانا گلزار احمد مظاہریؒ، زندگانی... جیل کہانی‘‘سوچا اس پر کچھ لکھوں گا، پھر بچپن کے دوست سہیل وڑائچ نے اس پر اتنا شاندار بلکہ زور دار کالم لکھا کہ ’’ساریاں کسراں ای کڈھ دتیاں‘‘۔

حال ہی میں علامہ عبدالستار عاصم نے ڈاکٹر فرید احمد پراچہ کی خود نوشت ’’عمرِ رواں‘‘ بھجوائی ہے۔ علامہ عبدالستار عاصم کا خیال ہے کہ میں کوئی بہت پڑھاکو آدمی ہوں۔ میری ان سے درخواست ہے کہ وہ اپنے اس خیال کو غلط فہمی سمجھیں۔ میں نے تو سکول کالج کے زمانے میں بھی بمشکل کتابوں کو ہاتھ لگایا ہوگا۔ آپ میری سنجیدگی کا اندازہ اس بات سے کرلیں کہ میں گورنمنٹ کالج لاہور میں پڑھتا تھا اور امتحانات سے دس دن پہلے ایم اے او کالج کے ہوسٹل میں شفٹ ہو جاتا تھا، مجھے نیو ہوسٹل والے ڈھونڈتے رہتے تھے۔ اس زمانے میں نہ موبائل فون تھے نہ ہی سمارٹ فون۔ سادگی کے اس دور میں وڈیو کلپس کا رواج بھی نہیں تھا، نہ کوئی سیلفی اور نہ ہی تصاویر کی کراپنگ ہوتی تھی۔ لہٰذا میرے متعلق باقی دوست بھی جو عبدالستار عاصم سے ملتے جلتے خیالات رکھتے ہیں، اپنے خیالات کو غلط فہمیاں تصور کریں۔ چونکہ ڈاکٹر فرید احمد پراچہ قومی اسمبلی کے رکن رہے ہیں، میرا ان سے آمنا سامنا پارلیمینٹ ہائوس کی راہداریوں میں ہوتا رہا ہے۔ ان کی آپ بیتی کے ذریعے پتہ چلا کہ ڈاکٹر حسین احمد پراچہ ان کے بڑے بھائی ہیں، میں آج تک فرید احمد پراچہ کو بڑا بھائی سمجھتا رہا۔ شاید اس کی بڑی وجہ سیاسی جدوجہد ہو۔ جماعت اسلامی والوں کو ویسے بھی جدوجہد زیادہ کرنا پڑتی ہے۔ پاکستان کی یہ واحد جماعت ہے جس میں اَن پڑھ لوگ نہیں ہیں۔ ڈاکٹرفرید احمد پراچہ نے اپنی سوانح عمری میں آپ بیتی کو خوب پرویا ہے۔ ’’بھیرہ پھلاں دا سہرہ‘‘ سے شروع ہونے والی کہانی میں شامل تمام موڑوں کو خوبصورتی اور حسن سے بیان کیا گیا ہے۔ عربی، فارسی، سمیت کئی زبانوں کے ماہر پروفیسر ڈاکٹر خورشید رضوی، فرید پراچہ سے متعلق لکھتے ہیں ’’فرید احمد کو میں نے گفتار سے زیادہ کردار کا غازی پایا مگر مائیک سامنے ہو تو گل افشانیٔ گفتار بھی دیدنی اور شنیدنی ہوتی ہے۔ ان کی ایک قابل رشک صلاحیت ماضی کی یادوں کو مستقبل کے ارادوں سے کٹ کر لمحۂ موجود کو ڈھنگ سے بسر کرنے کی صلاحیت ہے۔ وہ میدان عمل کے آدمی ہیں لیکن زندگی کی ریل پیل یا بسا اوقات جیل میں جہاں چندلمحوں کی فرصت میسر آئی وہ کمال یکسوئی سے کتاب، قلم یا مُو قلم سے رشتہ جوڑ لینے میں کامیاب رہے‘‘۔

نصف صدی کا یہ قصہ شاندار ہے پچاس برس کی ایک اور کہانی ہے جو گجرات کے افتخار بھٹہ کی ہے۔ ان کی کتاب ’’ میرے فکری سفر کے 50سال‘‘ سامنے آئی ہے۔ یہ بھی آپ بیتی ہے مگر یہ ایک ایسے انسان کی کہانی ہے جو اپنے آزاد خیالات کے ساتھ بائیں بازو کی سیاست کا اہم کردار رہا، وہ کبھی بھاشانی گروپ میں نظر آیا تو کبھی مزدور کسان پارٹی میں سرگرم رہا، اس نے ملازمت بھی کی، وہ شاعروں اور ادیبوں کے ساتھ بھی اٹھتا بیٹھتا رہا بلکہ انجمن ترقی پسند مصنفین کا حصہ بھی رہا، انہوں نے زندگی کے پچاس برسوں کو بڑی سادگی سے پروکر پیش کر دیا ہے، ان کی تحریروں کا حسن کالموں کی صورت میں دیکھنے والے تمام افراد ان کی جدوجہد کی کہانی بھی پڑھ سکتے ہیں۔ گجرات کے تین چار حوالے بڑے اہم ہیں مثلاً پنجابی شاعری کے نامور شعراء گجرات نے پیدا کئے، اردو نثر کے کئی اہم لوگوں کو اسی دھرتی نے جنم دیا۔ سوہنی مہینوال کی عشقیہ داستان، وہاں کی وفائوں کے قصوں کی گواہی ہے، حسن اب بھی وہاں بولتا ہے، خاص طور پر کنجاہ خوبصورتی کے حوالے سے مشہور ہے۔ گجرات سیاسی طورپر اہم رہا ہے۔ اسی دھرتی کے سپوت صدر،وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ بنے۔ جتنی تحریکیں یا احتجاجی مارچ جی ٹی روڈ سے اسلام آباد کی طرف گئے انہوں نے گجرات میں ضرور پڑائو کیا۔ گجرات کے گائوں لکھن وال کی شہرت بڑے خاص لوگوں میں ہے۔

سرزمین جھنگ سے تعلق رکھنے والے ’’راوی‘‘ کے سابق ایڈیٹر جو بعد میں کئی اخبارات کے ایڈیٹر رہے، شاعری بھی کمال کرتے ہیں، میری مراد محمود شام ہیں۔ شام جی سے مراسم بھی برسوں پر محیط ہیں۔ ان کی تازہ تصنیف ’’بلوچستان سے بے وفائی‘‘سامنے آئی ہے۔ کتاب میں میرے ایک دوست بریگیڈئرشاہد محمود کا مضمون بلوچستان،خوشحالی کی جانب سفر بھی شامل ہے۔ محمود شام نے اس کتاب میں بلوچستان کو ماضی، حال اور مستقبل کے حوالوں سے خوب پرکھا ہے۔ مسائل کی نہ صرف نشاندہی کی ہے بلکہ ان کا حل بھی پیش کیا ہے۔ انہوں نے مستقبل کے حوالے سے بلوچستان کی اہمیت کو خوب اجاگر کیا ہے۔ کتاب میں شامل چند مضامین انتہائی اہمیت کے حامل ہیں انہیں نظر انداز کرنا مشکل ہے۔ ان میں ’’بلوچستان کا ڈومیسائل صرف پانچ ہزار روپے میں‘‘۔’’ اس سے پہلے کہ وہ ہتھیار اٹھائیں‘‘۔’’بلوچستان والے اسلام آباد کو کوفہ کیوں سمجھتے ہیں‘‘۔ ’’بلوچستان کی دولت بھی اور طاقت بھی‘‘ کے علاوہ ’’بلوچستان کے نوجوان کی آنکھوں میں والہانہ چمک‘‘ شامل ہیں۔

آخر میں اردو اور پنجابی کی امریکہ میں مقیم شاعرہ نیلم بھٹی کا تذکرہ ہو جائے۔ ان کی نئی کتاب ’’ردائے نیلم‘‘کے نام سے سامنے آئی ہے، اسے کتابوں کو حسن بخشنے والے خالد شریف نے بڑی محبت سے شائع کیا ہے۔ یہ کتاب نظموں اور غزلوں کا مجموعہ ہے۔ اسی کتاب میں سے ایک شعر آپ کی نذر کر رہا ہوں کہ :

دیپ جلتا ہے دریچے میں تیری الفت کا

آنچ رکھی ہے تری یاد کی دھڑکن دھڑکن

تازہ ترین