• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

موجودہ حکومت کو وہ مقبولیت نہیں ملی جو اس کے ’’کسی کو این آر او نہیں دوںگا ‘‘کے نعرے کو ملی۔جب بھی وزیر اعظم کسی تقریب سے خطاب کررہے ہوں ،اس میںعوامی مسائل سے زیادہ اپوزیشن پر تنقید اور الزامات ہوتے ہیں،قوم کی مشکلات کا احساس عملی نہیں صرف زبانی دکھائی دیتا ہے ۔سونے پر سہاگہ یہ کہ ان کے وزراء کے بیانات شہریوں کو مزید پریشان کر دیتے ہیں۔ حکومت میں آنے سے پہلے عمران خان نے ملک سے باہرپڑے اربوں روپے پاکستان لانے کا دعویٰ کیاتھا۔ یوٹیلیٹی بل میں اضافے کو اس وقت کے حکمرانوں کی بد عنوانی قرار دیا،غیر ملکی قرضوں کو ملک پر بوجھ بتایا، مگر حکومت میں آنے کے بعد یہ تمام نعرے حقیقت کا روپ نہ دھار سکے اور اب شاید وہ خود اپنی پچھلی انتخابی تقاریر سننا بھی پسند نہیں کرتے ہوں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت میں آنے سے قبل انہیں ان باتوں اور صورت حال کا اندازہ نہیں تھا، جس سے ثابت ہورہا ہےکہ ان کی انتخاب سے قبل جوبھی ٹیم تھی اس نے انہیں لاعلم رکھا۔اس حوالے سے ان کی ناکامی کی ایک وجہ غالباًیہ بھی ہے 2008سے 2018کے انتخاب سے قبل وہ اور ان کے ساتھی جس قومی اسمبلی اور منتخب ایوانوں کے رکن تھے وہ انہیں تسلیم ہی نہیں کرتے تھے۔ جب آپ منتخب ایوان میں جائیں گے ہی نہیں تو آپ کو وہاں زیربحث آنے والے ملکی مسائل کا اندازہ کیسے ہوگا۔ اپنی حکومت کے قیام کے بعد انہوں نے جن لوگوں کو وزارت کے لئے منتخب کیا وہ اس کے اہل ثابت نہ ہو سکے۔ اسی لئے تادم تحریرکئی وزیر خزانہ تبدیل ہو چکے ہیں۔ ان کے اکثر وزیر اب تک اپنی وزارتوں پر گرفت حاصل نہیں کرسکے، جن وزراء کی کار کردگی میں کچھ بہتری نظر آ رہی ہے وہ براہ راست ان کی جماعت سے تعلق نہیں رکھتے، یہ ماضی میں دوسری جماعتوں یا حکومتوں کا حصہ رہ چکے ہیں۔اس بات سے انکارنہیں کیا جاسکتا ہے کہ عمران خان اس اعتبار سے خوش قسمت وزیر اعظم ہیں جن کو حکومت میں آنے کے بعد ملکی سطح پر افواج پاکستان کی بے مثال کوششوں کے باعث ایک پُرامن پاکستان ملا، عالمی سطح پر بھی صورت حال بہت زیادہ خراب نہیں تھی، پھر انہیں بھر پور سپورٹ ملی مگر اس کے باوجود ان کی تین سالہ حکومتی کار کردگی مایوس کن ہی ہے۔ وہ اعتماد شاید اس سے قبل کسی دوسری حکومت کو عوام اور ووٹرز کی جانب سے نہیں ملا ہوگا جو عمران خان اور پی ٹی آئی کو ملا ، تین سالہ دور اقتدار میں کئے جانے والے اکثرفیصلے مضحکہ خیز ثابت ہوئے۔ وہ اور ان کی ٹیم زندگی کے کسی بھی شعبے میں تبدیلی نہیں لاسکی جس تبدیلی کا انہوں نے نعرہ لگایا تھا۔ایک کروڑ نوکریوں کا وعدہ کیا گیا ،مگر ان کے دور میں لاکھوں افراد بے روز گار ہوگئے۔گھر دینے کا وعدہ کیا گیا مگر ہز اروں لوگ بے گھر ہوگئے۔ اشیائے خورو نوش کو سستا کرنا کا دعویٰ کیا گیا مگر آج شہریوں کی قوت خرید جواب دے چکی ہے۔ نظام تعلیم اورصحت تباہ کردیاگیا ہے۔18ویں ترمیم کے بعد وفاق صوبوں کے سامنے بے بس ہے،اس حوالے سے کوئی آئینی بل سامنے نہیں لایا گیا۔ ملک کو آرڈیننسز کی مدد سے چلایا جارہا ہے۔اپنی حکومت پر ان کی گرفت ہے اور نہ صوبائی حکومتوں سےکوئی پوچھ گچھ، پورا زور اپوزیشن پر نکتہ چینی اور ’’این آر او نہیں دوں گا‘‘پر ہے۔ملک میں بجلی کا بحران، گیس اور سی این جی کی بندش پر کوئی توجہ نہیںدی جارہی۔ تاجر برادری کے اعتماد کو جودھچکا پہنچاہےاس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی ۔سندھ حکومت کے کورونا لاک ڈائون ملکی معاشی صورتحال کو لاغر کر رہےہیں۔ لگتاہےصوبے میں دو کورونا ہیں، اندرون سندھ کاروبار کی اجازت اور شہری علاقوں خاص کر کراچی میں شام چھ بجے کاروبار کی بندش سے ملک کو معاشی طور پر نقصان ہو رہا ہے۔ کراچی اور حیدر آباد میں جرمانے اور چالان کے نام پر لاکھوں روپے لوٹے جارہے ہیں۔دیگر صوبوں میں تعلیمی ادارے کھل گئے مگر سندھ میں بند کر کے تعلیمی نقصان بھی پہنچایا جارہا ہے۔حکو مت بازاروں اور دفاتر میں کورونا ایس او پیز پر عمل کرانے میں ناکام ثابت ہوچکی ہے۔ کراچی کے حالات پر توجہ نہ دی گئی تو جلد لوگ سڑکوں پر نکلنے پر مجبور ہوجائیں گے۔ کراچی جیسے شہر کے لئے جس پیکیج کا اعلان کیا گیا اس پر بھی کوئی پیش رفت سامنے نہیں آئی۔ اس وقت ملک میں بے روزگاری اور مہنگائی نقطہ عروج پر ہے، عوام پریشان، صنعت کار پریشان ہیں، ایسا محسوس ہورہا ہے کہ اب پوری قوم حکومت سے این آر او مانگ رہی ہے۔ اب بھی وقت ہے وزیر اعظم اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کریں، آنے والے بجٹ میں عوام کو ریلیف دیں، اپوزیشن اور اہل لوگوں کو ساتھ لے کر بات چیت سے ملک کو ہر قسم کے بحران سے نکالنے کے لئے سنجیدہ کوششیں کریں ورنہ آئندہ انتخابات کے نتائج اُن کی منشا اور خواہش کے مطابق نہ ہوں گے۔

تازہ ترین