• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
نئی حکومت نے بہت مختصر عرصے میں کئی محاذ ایک ساتھ کھول لئے ہیں۔ حکومت کے پہلے بجٹ میں نہ صرف براہ راست ٹیکسوں کی مد میں اضافہ کردیا گیا ہے بلکہ بنیادی ضرورت کی اشیاء کی قیمتیں بھی بڑھادی گئی ہیں۔ حکومت نے ایک غیر مقبول بجٹ دیا ہے اور اس کے لئے جواز یہ پیش کیا گیا ہے کہ ملکی معیشت کودرست کرنے کے لئے غیر مقبول فیصلے کرنا ضروری ہیں۔ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے قومی اسمبلی میں یہ بھی اعلان کیا ہے کہ جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف آئین کے آرٹیکل۔ 6 کے تحت مقدمہ چلایا جائے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ ان کی حکومت نے سابق وزیر اعظم شہید محترمہ بے نظیر بھٹو اور صدر آصف علی زرداری کے خلاف مبینہ منی لانڈرنگ کا مشہور سوئس کیس بھی کسی حد تک دوبارہ کھول دیا ہے۔ قبل ازیں وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے سندھ حکومت کو ایک ماہ کے اندر امن قائم کرنے کا الٹی میٹم دیتے ہوئے یہ کہا تھا کہ اگر سندھ حکومت ناکام ہوئی تو وفاقی حکومت کارروائی کرے گی۔ طالبان کے ساتھ مذاکرات کے مسئلے پر بھی نئی وفاقی حکومت اور ملک کے طاقتور حلقوں کے درمیان اختلاف رائے پیدا ہونے کی بھی قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں۔ نئی منتخب حکومت کو ابھی ایک مہینہ بھی مکمل نہیں ہوا ہے لیکن کئی محاذ ایک ساتھ کھلتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ یہ بات ان حلقوں کے لئے تشویشناک ہے جو پاکستان میں جمہوریت کا تسلسل اور استحکام چاہتے ہیں۔
پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنماوٴں بشمول سید خورشید احمد شاہ اور مخدوم امین فہیم نے سوئس کیس دوبارہ کھولنے پر سخت افسوس کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن)کی حکومت 1990ء کے عشرے کی تاریخ دہرا رہی ہے اور اس نے مخالف سیاسی جماعتوں کو نشانہ بنانا شروع کردیا ہے۔ بعض دیگر حلقوں نے پرویز مشرف کے خلاف آرٹیکل ۔6 کے تحت مقدمہ چلانے کے اعلان پر بھی حکومت کو متنبہ کیا ہے کہ طاقتور حلقوں کی جانب سے حکومت کے خلاف کوئی ردعمل ہوسکتا ہے، جس کے نتیجے میں جمہوری عمل کو نقصان ہوگا۔ اگلے روز قومی اسمبلی میں وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے اپنی تقریر میں اس بات کی وضاحت کی کہ مذکورہ بالا دونوں معاملات پر حکومت نے اپنے طور پر کچھ نہیں کیا بلکہ عدالت میں زیر التوا مقدمات میں صرف جواب داخل کیا ہے، جو اسے لازمی طور پر کرنا تھا۔ اگر چوہدری نثار علی خان کی اس وضاحت کو درست تسلیم کربھی لیا جائے، تب بھی حکومت سوئس کیس میں کم از کم کوئی ایسا راستہ اختیار کرسکتی تھی، جس سے یہ معاملہ کچھ عرصے کے لئے دبا رہتا۔ پیپلزپارٹی کی گزشتہ حکومت نے بھی میاں محمد نواز شریف کے خلاف طیارہ سازش کیس میں پیروی نہ کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اس کے علاوہ بھی ان کے اور ان کے اہل خانہ کے کئی مقدمات ایسے تھے جنہیں پیپلزپارٹی کی حکومت نے سردخانے میں ڈال دیا تھا اور یوں شریف برادران کی دوبارہ سیاست میں واپسی کا راستہ ہموار کیا۔ وزیر اعظم باقی سارے کام کریں مگرانہیں موجودہ حالات میں ملک کی سیاسی قوتوں کے ساتھ محاذ آرائی سے گریز کرنا چاہئے کیونکہ غیرسیاسی قوتیں اس محاذ آرائی کے انتظار میں ہیں اور وہ اس کو بنیاد بناکر جمہوریت کے خلاف کوئی اقدام کرسکتی ہیں۔
پاکستان مسلم لیگ(ن) کی حکومت کے پاس یہ جواز ضرور موجود ہے کہ وہ عدالت کے احکامات پر عملدرآمد کررہی ہے لیکن اسے یہ نہیں بھولناچاہئے کہ پیپلزپارٹی کی سابقہ حکومت بھی شریف برادران کے خلاف کیس عدالتوں میں چلانے کاکوئی نہ کوئی راستہ نکال سکتی تھی۔ اگر عدالتیں نہ بھی چاہتیں، تب بھی حکومت عدالتوں کو یہ کیس چلانے پر آمادہ کرسکتی تھی لیکن اس نے ایسا نہیں کیا۔ پیپلزپارٹی کی قیادت کا یہ بھی کہنا ہے کہ عدالتیں صرف ان کے خلاف مقدمات چلانے پر زور دیتی ہیں لیکن حکومت کی معاونت کے بغیر عدالتیں کیس آگے نہیں بڑھاسکتیں کیونکہ ایسے مقدمات میں حکومت ہی اہم فریق ہوتی ہے۔ پیپلزپارٹی والے یہ بھی سوال کرتے ہیں کہ اصغر خان کیس میں عدالتوں نے سزا کیوں نہیں دی؟ اگرچہ عدالت نے اصغر خان کیس میں ملوث لوگوں کے خلاف کارروائی کا اختیار حکومت کو دے دیا تھا، اس کے باوجود پیپلزپارٹی کی حکومت نے اس مقدمے میں چپ سادھ لی تھی تاکہ ملک میں سیاسی ہم آہنگی کی فضا خراب نہ ہو۔ جہاں تک کرپشن کو روکنے کا سوال ہے، اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے لیکن کرپشن کے مقدمات صرف پیپلزپارٹی کے لوگوں پر نہیں ہیں بلکہ یہ سلسلہ بہت دراز ہے۔ اگر پنڈورا بکس کھل جائے تو پھر حالات کو سنبھالنا مشکل ہوجائے گا۔ کرپشن کے خلاف کارروائی کا نعرہ لگاکر کوئی نہ تو پارسا بن سکتا ہے اور نہ ہی عوام کی طرف سے اسے خراج تحسین مل سکتا ہے۔ پاکستان کی تمام سیاسی قوتوں نے11 مئی2013ء کے انتخابات کے نتائج کو تسلیم کرلیا ہے اور جمہوری عمل جاری وساری رکھنے کے لئے حکومت کو اپنے تعاون کایقین دلایا ہے حالانکہ یہ انتخابات پاکستان کی تاریخ کے سب سے متنازع انتخابات تھے اور یہ بات ان قوتوں کو بھی معلوم ہے جو پاکستان میں جمہوری عمل کے خلاف ہیں۔ بہتر یہی ہے کہ سیاسی جماعتوں کو دیوار سے نہ لگایا جائے اور جمہوریت کو چلنے دیا جائے۔ وزیر اعظم میاں نواز شریف کی نئی حکومت نے مجبوری میں یا دانستہ جو محاذ کھولے ہیں، انہیں دیکھتے ہوئے بعض حلقے یہ بھی الزام لگارہے ہیں کہ میاں صاحب نے ماضی سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا۔
سابق فوجی آمر جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ چلانے کا اعلان از خود حکومت کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد اور بعض دیگر سیاسی رہنما کھل کر یہ بات کہہ رہے ہیں کہ فوج اپنے کسی سابق جرنیل کے خلاف غداری کے مقدمے کو برداشت نہیں کرے گی۔ اگرچہ فوج نے اس مقدمے پر اپنا باقاعدہ ردعمل ظاہر نہیں کیا ہے لیکن سیاسی قائدین میاں نواز شریف کو مسلسل خبردار کررہے ہیں۔ وزیر اعظم کو خود بھی یہ احساس ہوگا کہ آئین توڑنے والے کسی سابق فوجی جرنیل کے خلاف کارروائی کوئی معمولی کام نہیں ہے۔ اگر یہ کارروائی ہوتی ہے تو پاکستان کی سیاسی تاریخ بدل جائے گی اور آئندہ کوئی بھی طالع آزما آئین توڑنے کی جسارت نہیں کرے گا۔ اگر وزیر اعظم میاں نواز شریف یہ کام کرلیتے ہیں تو وہ تاریخ میں ہیرو بن جائیں گے۔ اس کام کے لئے انہیں پاکستان کے عوام اور سیاسی قوتوں کی بھرپور حمایت درکار ہوگی۔ میاں نواز شریف کے لئے اس اعلان کے بعد پسپائی اختیار کرنا بھی اب ممکن نہیں رہا لہٰذا بہتر یہی ہوگا کہ وہ اپنے آپ کو سیاسی طور پر تنہا نہ کریں۔ بھاری مینڈیٹ کے باوجود سخت بجٹ کی وجہ سے ان کی عوامی مقبولیت کو پہلے ہی سخت دھچکالگا ہے۔ نئی حکومت قائم ہوتے ہی دہشت گردی کی کارروائیوں میں بھی اضافہ ہوگیا ہے اور لوگوں کا یہ خیال غلط ثابت ہواہے کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت دہشت گردی پر موٴثر طریقے سے کنٹرول کرسکتی ہے۔ بجلی اور گیس کے بحران میں بھی اضافہ ہوا ہے ۔ حکومت نے بجلی کا بحران جلد ختم ہونے کے حوالے سے عوام کی امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے۔ بڑھتی ہوئی بے روزگاری کے مسئلے کا بھی کوئی حل حکومت نے تجویز نہیں کیا ہے ۔ خطے میں بدلتی ہوئی صورتحال کے پیش نظر امریکہ اور اس کے اتحادی اپنے مخصوص مفادات کے لئے اس خطے میں نئی صف بندی کر رہے ہیں، جس سے پاکستان مزید انتشار کا شکار ہوسکتا ہے۔ کچھ عرصے کے بعد نئے آرمی چیف اور نئے چیف جسٹس کے تقرر کا مسئلہ بھی میاں نواز شریف صاحب کو درپیش ہوگا۔ کئی نئے محاذ کھلیں گے۔ انہیں چاہئے کہ وہ کم از کم ملک کی سیاسی قوتوں کے خلاف محاذ نہ کھولیں اور دیگر محاذوں پر مقابلہ کرنے کے لئے انہیں ساتھ لے کر چلنا چاہئے۔ 1990ء کے عشرے سے آج پاکستان کے حالات زیادہ خراب ہیں۔
تازہ ترین