• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جی 7 اجلاس: سربراہ چینی اثر و رسوخ کے مقابلے کیلئے متفق

لندن (جنگ نیوز) جی سیون رہنماؤں نے ترقی پذیر ممالک میں انفراسٹرکچر کی تعمیر کے حوالے سے سرمایہ کاری کے ایک ایسے منصوبے پر اتفاق کر لیا ہے، جس کا مقصد چین کے بڑھتے عالمی اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنا ہے۔ جی سیون سربراہ اجلاس پر وائٹ ہاؤس نے ایک بیان میں کہا ہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن اور دیگر رہنماؤں نے کورنوال سمٹ کے دوران چین کے خلاف سٹریٹیجک مقابلے کے موضوع پر بات چیت کی ہے، جس کے بعد ʼبیلڈ بیک بیٹر ورلڈ یا بی تھری ڈبلیوʼ یعنی عالمی سطح پر تعمیر نو کے ایک نئے منصوبے پر رضامندی ظاہر کی گئی ہے۔ بیان کے مطابق ʼاس شفاف شراکت داری میںʼ ترقی یافتہ جمہوری ممالک 400 کھرب ڈالر کی سرمایہ کاری سے کووڈ 19 سے متاثرہ ترقی پذیر دنیا میں انفراسٹرکچر تعمیر کریں گے۔ خیال رہے کہ بیجنگ نے دنیا کے کئی ممالک میں بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے تحت اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ اس کے ذریعے چین نے ترقی پذیر اور غریب ممالک کو مقروض کیا ہے اور وہ یہ قرض واپس نہیں کر سکیں گے۔ امریکہ اور اس کے اتحادی چین پر سنکیانگ صوبے میں جبری مشقت اور دیگر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا بھی الزام عائد کرتے ہیں۔ بائیڈن چین کے خلاف اتحاد کے لیے متحرک امریکی صدر کے ایک معاون نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ بائیڈن جی سیون اجلاس کے دوسرے روز مغربی ممالک سے کہیں گے کہ وہ چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے کے لیے اقدامات کریں۔ برطانیہ میں ہونے والے اس سربراہ اجلاس میں توقع ہے کہ صدر بائیڈن ترقی پذیر ممالک کے انفراسٹرکچر یعنی ڈھانچے میں چین کی سرمایہ کاری کے خلاف نیا اتحاد تشکیل دیں۔ جی سیون میں امریکہ، کینیڈا، برطانیہ، فرانس، جرمنی، اٹلی اور جاپان شامل ہیں۔ چین کے مقابلے کے لیے امریکی پلان بی بی سی نارتھ امریکہ کے ایڈیٹر جان سوپل کا کہنا ہے کہ امریکی سنیچر کے سیشن کو ایک ایسا موقع سمجھتے ہیں جس پر وہ دنیا بھر میں چین کے پھیلتے ہوئے اثر کو چیلنج کریں گے۔ مغربی جمہوریتیں بیجنگ کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کا، جس کے تحت ترقی پذیر ممالک میں اربوں ڈالر خرچ کیے جا رہے ہیں، مقابلہ کرنا چاہتی ہیں۔ امریکی انتظامیہ کے اعلیٰ حکام یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ مغربی اقدار غالب آ سکتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ چینی سرمایہ کی بہت زیادہ قیمت ادا کرنی پڑ رہی ہے، اور یہ کہ سنکیانگ میں اقلیت سے جبری مشقت لینا غیر اخلاقی ہے اور یہ معاشی طور پر ناقابلِ قبول ہے کیونکہ یہ مساویانہ مقابلے سے روکتا ہے۔ جو بائیڈن اصرار کریں گے کہ عالمی پیمانے پر تجارت جبری مشقت سے پاک ہونی چاہیے۔ امریکی حکام کہتے ہیں کہ یہ صرف چین کے مقابلے کی بات نہیں بلکہ دنیا کے سامنے ایک مثبت متبادل پیش کرنا ہے۔ تاہم امریکی انتظامیہ اس بارے میں کھل کر کوئی بات نہیں کرتی کہ عالمی انفراسٹرکچر کو بہتر بنانے کے لیے مغرب کتنی رقم خرچ کرنے کو تیار ہے۔ صرف یہ ہی بات واضح ہے کہ چین کی بڑھتی ہوئی طاقت کے مقابلے کے لیے مغربی طاقتوں کے اندر ایک نیا عزم پیدا ہو گیا ہے۔

تازہ ترین