بھائی کہا کس نے ہے کہ اتنا موبائل فون استعمال کرو، کونسی باتیں ہیں جو آپ کی ختم ہی نہیں ہوتیں ۔ میں تو کہتا ہوں اور ٹیکس بڑھنا چاہیے۔ آپ صرف موبائل فون پر کارڈ چارج کی بات کرتے ہیں ، آپ کے کھانے پینے، اٹھنے بیٹھنے پر ، چلنے سننے ہنسنے گانے حتیٰ کہ نہانے پر ٹیکس لگنا چاہیے۔ لیڈر پہلے ہی کہہ چکا قوم قربانی کے لئے تیار رہے۔ انہوں نے پتا نہیں کس معصومیت میں بات کی۔ عمران خان صاحب ویسے ہی خوش ہیں کہ بس قوم ایک بار قربانی تو دے کھالیں انہیں ہی ملیں گی۔ ہاں بھائی ہاں ہمارا سب کچھ آپ کا ہے ، ہمارا جسم ، گوشت ، ہڈیاں، خواب اور روح سب کچھ آپ کا ہے، ہم غلام ابن غلام ہیں ، آپ ہماری سانسوں کے مالک ان پر بھی ٹیکس لگا دیں۔ بس چی چوں چاں کر کے رہ جائیں گے۔ وہ بھی تکلّفاً، ورنہ ہماری کیا مجال حضور والا آپ کے کسی فیصلے کے سامنے سر اٹھا سکیں۔ کل سے پٹرول دو ڈھائی روپے مہنگا ہو جائے گا۔ اچھا فیصلہ ہے قوم کو پیدل چلنے کی عادت نہیں رہی۔ جسے دیکھو جلدی میں ہے، بھاگتا جا رہاہے۔ لیکن کہاں جا رہاہے اسے خود نہیں پتا۔ بقول منیر نیازی مرحوم
منیر اس ملک پہ آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے
کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ
سو میں سمجھتا ہوں کہ قوم کو قربانی کے لئے نہ صرف تیار رہنا چاہیے بلکہ قربانی کی تاریخیں بھی کنفرم کر لینی چاہیے تاکہ اہتمام کے ساتھ قربانی دی جا سکے۔ ہمارے پا س وقت کم ہے نہ جانے کب کس کی قربانی کی کال آجائے۔ بکرا عید سے چند روز قبل ایک بکری نے بکرے سے کہا جانو آئی لو یو۔بکرے نے کہا اب کیا فائدہ قربانی کے چند دن رہ گئے ہیں۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ قوم سے شاید اجتماعی قربانی نہ مانگی جائے۔ ویسے تو گیارہ مئی کو پوری قوم د ے چکی ہے لیکن کھال اتارنے کا عمل اب شروع ہوا ہے۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے بجا ارشاد فرمایا: کرپشن کی حد ہو گئی ہے آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ عوامی نمائندوں نے بہتی گنگا میں خوب ہاتھ دھوئے۔ انہوں نے کہا کہ یہ سب ایک دوسرے کو بچائیں گے۔ بجا ارشاد ۔ انہیں ایسا کرنے کی اور ہمیں ایسا کرتے دیکھنے کی عادت ہو گئی ہے۔ ہم مشینوں کی طرح بس ووٹر لسٹوں پر ٹھپے لگانے کے لئے رہ گئے ہیں۔آپ نے درست کہا کہ جب کسی پر مصیبت پڑے تو ایک دوسرے کو بچاتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ بے ایمانی کے کاموں میں بے ایمانی نہیں کر نی چاہیے ۔ ہم نے پڑھا ہے یہ عملی طور پر کر کے دکھاتے ہیں۔ چھیمامجھ سے ناراض ہے وہ کہتا ہے میں نے اس کی مدد کرنے کی بجائے کالم لکھ کر اس کی غربت ، اس کی بہن ماں اور باپ کا مذاق اڑایا ہے۔ میں نے اسے سمجھایا ہے کہ ہم ارکان اسمبلی یا سیاستدان نہیں جو مشکل وقت میں ایک دوسرے کی مدد کو آجائیں۔ یہ سیاستدان ہوتے ہیں جو ایک دوسرے پر نیب کے مقدمات بناتے ہیں۔پراسیکیوٹرز کو لاکھوں فیسیں سرکاری خزانے سے ادا ہوتی ہیں۔ کیسز کی سماعت پر کروڑوں روپے خرچ ہو جاتے ہیں اور ایک دن پتا چلتا ہے کہ ملز م کمر درد کا علاج کرانے بیرون ملک روانہ ہو چکا ہے اور بے چارہ غریب آوارہ گردی کے الزام میں گرفتار ہوتا ہے اور جرمانے کی عدم ادائیگی پر سالوں جیل میں سڑتا رہ جاتا ہے۔ کیسے ہو احتساب صرف بات سیاستدانو ں کی نہیں یہاں گنگا طاقتوروں کے گھروں کی دہلیز پر خود لہریں بچھاتی ہے کہ آئیے حضور اپنے قدم رنجہ فرمائیے۔
آؤ حضور تم کو ستاروں پہ چلوں
دل جھوم جائے ایسے نظاروں میں لے چلوں
ایک اکیلے تیر ، تلوار ، شیرسے کیا گلہ ناموں کے فرق سے تمام طاقتور ایک سے ہی ہیں۔ ان میں فرق اتنا ہے کہ کوئی بہت برا ہے اور کوئی بس برا۔ صرف خزانہ لوٹنا اب گناہ نہیں سیاستدانوں کی ڈیوٹی کا حصہ ہے اور یہ ڈیوٹی ان سے انتخابات میں ہی تفویض ہو جاتی ہے۔ سیاست ایک کاروبار ہے، نہیں یقین تو آپ ان عظیم رہنماؤں کے ڈپلومیٹک پاسپورٹ اٹھا کر دیکھ لیں۔ پیشہ سیاست لکھا ہوگا، جن کا پیشہ سیاست ہو وہ پھر اسی سے کھائیں کمائیں گے اور پھر یہ عظیم تاجر برادری ایک دوسرے کا خیال نہیں رکھے گی تو کون رکھے گا۔ مان لیتے ہیں سابق صدر پرویز مشرف اس تاجر برادری کا حصہ نہیں اور ان پر آرٹیکل 6کا اطلاق ہو گا۔ بڑا خوش کن خیال ہے بڑا دلچسپ کھیل ہے ۔ شیشے کے گھر میں بیٹھ کر پتھر پھینکنا دل گردے کا کام ہے۔ ایک پرویز مشرف ہی کیوں؟ باقیوں کو معافی کیوں ملے ۔ ڈکٹیٹروں کو ڈیڈی کہنے ، روحانی باپ کہنے اوربیٹے کہلوانے کی رسم کوئی اتنی پرانی نہیں۔ آرٹیکل 6بہت بھاری ہے تو کوئی دو ڈھائی پونے یا سواتین جتنا آرٹیکل ان پر بھی لگ جائے تو کیا حرج ہے۔ نہیں رہنے دیں اگر ایسا ہوا تو شاید گلیاں سنجیاں ہو جائیں اور وچ صرف میرا دل کا مریض چھیما یار پھرتا نظر آئیگا۔ لہٰذا میری انتہائی محبت بھری درخواست ہے کہ سابق جنرل کے خلاف آئین سے بغاوت کی باتیں گول ہی کر دی جائیں۔آئین کے تحت حلف اٹھا کرغریب عوام کو مزید غریب کر دینا ،انہیں خودکشیوں پر مجبور کر دینا۔ اپنی تجوریاں بھرنا، غیر ممالک میں بینک اکاؤنٹس اور محل بنانا آئین کی خلاف ورزی نہیں؟کہیں کوئی بوند سکون کی، آسودگی کی، اطمینان کی اس غریب بے سہارا عوام کے لئے بھی ہے یا نہیں؟
جو گزاری نہ جا سکے ہم سے
ہم نے وہ زندگی گزاری ہے
سنا ہے آئی ایم ایف سے مذاکرات تعطل کا شکار ہو گئے ہیں۔ ہم ان کی مزید شرائط ماننے کو تیا رنہیں۔ واہ ، تالیاں بجائیں، بھنگڑے ڈالیں، احتیاطاً لڈیاں بھی ڈال لیں اور پھر ایک دم تھم جائیں ، اب منہ میں انگلی ڈالیں مہنگائی سے باہر نکلتے ڈیلوں کو غور کرنے کے انداز میں حرکت دیں اور پھر سوچیں کیا ہم اس جوگے ہیں کہ آئی ایم ایف کی شرائط ماننے سے انکار کر دیں۔
Beggers can't be choosers
لو جی اب ہم اس قابل تو ہوئے کہ آئی ایم ایف کے سامنے اکڑ کر کھڑے ہو جائیں اور کیوں نہ کھڑے ہوں یہ ہمارا حق ہے۔ ہم قرضے لیتے ہیں تو دیتے بھی تو ہیں۔ ہے تو یہ پرانا لطیفہ لیکن کیا کروں میں کہاں سے لاؤں جنرل پرویز مشرف پر غداری کے مقدمے اور آئی ایم ایف کو آنکھیں دکھانے والے تازہ ترین لطیفے ۔ ایک لڑکے نے اپنی دوست کوٹیکسٹ میسج کیا، طبیعت اداس ہے کوئی Joke بھیجو، اس نے جواب دیا تھوڑا ٹھہرو میں نماز پڑھ لوں۔ لڑکے نے جوابی میسج کیا واہ مزہ آگیا اس جیسے دو تین اور بھیج دو۔ ۔۔
دیکھیں بھائی اگر ایک سابق وزیر اعظم کی کزن کے ہاتھوں اس کا سترہ سالہ ملازم جمیل صرف اس بات پر مر چکا ہے کہ اس نے حق غلامی میں تھوڑی سی کوتاہی کر دی تھی تو اس پر دل چھوٹا کرنے کی ضرورت نہیں ۔ اس نے جی کر بھی کیا کر لینا تھا۔ شکر ہے وہ کوئی بوڑھا نہیں تھا۔ صرف سترہ سال کا تھا۔ تھوڑی دنیا دیکھی تھی۔ بھائی کوئی چیونٹی پاؤں پر چڑھنے لگے تو اسے مسل ہی دینا چاہیے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ پانی رکھتے ہوئے چھلکا دے او ر اسے سزا بھی نہ ملے۔ جمیل کے لواحقین کو چاہیے کہ رونے دھونے کی بجائے خدا کا شکر ادا کریں کہ اسے ایک عظیم ہستی کے ہاتھوں موت نصیب ہوئی ہے ، بہت خوش قسمت تھا ہمارا یہ جمیل ۔ ورنہ اس جیسے لوگ تو بے موت ہی مارے جاتے ہیں۔ ہمیں بھی چاہیے کہ چھیموں، جمیلوں پر کڑھنے کی بجائی خود کو مصروف کر لیں۔ جلدی جلدی زندگی گزاریں اور پیچھے مڑ کر نہ دیکھیں ورنہ پتھر کے ہو جائیں گے۔ ایک آدمی سائیکل تھامے تیزی سے پیدل جا رہا تھا کسی نے آواز دی کہ سرکار آجاؤ تھوڑی دیر ہمارے پاس بیٹھ جاؤ ، کہنے لگا نہیں جلدی میں ہوں وقت ہوتا تو سائیکل پر نہ بیٹھ جاتا۔ لیکن تمام جلدیوں کے باوجود محسوس ایسا ہوتا ہے کہ اس بھوکی ننگی شناختی کارڈ ہولڈر مخلوق میں چی چوں چاں کی آوازیں پیدا ہونا شروع ہو گئی ہیں۔ چاہے یہ آوازیں بہت کم ہیں لیکن مہنگائی کے ہر قدم پر اب یہ آوازیں بلند ہوتی جا رہی ہیں۔ یہ کوئی اچھا شگون نہیں ۔ اگر یہ آوازیں یکجا ہو گئیں ، بلند ہونے لگی تو کہیں اسٹیٹس کو کے محل ہلنے نہ لگیں۔ اقتدار کے ایوانوں میں بھونچال نہ آجائے۔ احتجاج کی آوازیں بلند تو ہو رہی ہیں۔ ایک عورت اپنے شوہر سے کہنے لگی کل آپ سوتے ہوئے مجھے برا بھلا کہہ رہے تھے۔ شوہر نے کہا کہ بیگم آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے ، وہ اٹھلا کر بولی یعنی آپ مجھے برا بھلا نہیں کہہ رہے تھے۔ صاحب بولے نہیں غلط فہمی یہ ہے کہ میں سو رہا تھا۔ میری اپنے آقاؤں سے التجا ہے غلط فہمی سے باہر نکل آئیں انہیں برا بھلا نیند میں نہیں کہا جا رہا ۔ لو جاگ رہے ہیں۔