• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ترقی و تہذیب کے عروج پر پہنچ کر بھی مغرب کی چالاکی و مکاری اور مذہبی و نسلی تعصب ہی غالب رہا۔ انگڑائی لیتی مسلم دنیا کے پھر ابتدائے بیداری پر ہی تنگ نظری کا تیزی سے ہوتا یہ غلبہ سائنس و ٹیکنالوجی اور علم و تحقیق کے میدان میں مغرب کی انتہائے ترقی پر بھی اب اپنا رنگ دکھا رہا ہے۔ اسی کا شاخسانہ ہے کہ اقتصادی و سیاسی استحکام اور عسکری طاقت کے مشکل اہداف کامیابی سے حاصل کرتا امریکہ اور دوسری جنگِ عظیم کے بعد جنگ سے تباہ حال مغربی یورپ، بحالی کے لئے امریکی امداد کے مارشل ایڈ پروگرام سے سنبھل کر معیار زندگی کی دوڑ میں دو اڑھائی عشرے میں ہی فلاحی ریاستوں کا ریجن بن گیا۔ لبرل، جمہوری، سیکولر اور آزاد معیشت کی روانی پر خوشحالی اور آسودگی زمانۂ حال میں مغرب کا تشخص اور مقدر ٹھہرا اور پوری دنیا میں دو عظیم جنگوں کی تباہی کے بعد مغرب ہی عالمی معاشرے میں مہذب قرار پایا اور کتنے ہی حوالوں سے ٹھیک پایا۔ اصل میں اپنی سماجی، سیاسی پسماندگی کی انتہا پر غربت و جہالت میں بھی چرچ اسٹیٹ کے جبر پر اس نے اکتفا یا صبر نہ کیا۔ خوب سے خوب تر کی تلاش میں سفر در سفر کیا۔ اس مہم جوئی کو وسیلہ ظفر بنایا۔ محدود کشتی رانی کو نیول پاور میں، چالاکی کو ڈپلومیسی اور اسلحہ بنانے کی مقامی مہارت کو توڑے دار بندوق کی ایجاد میں تبدیل کیا۔ پھر بحری مہمات سے امریکہ دریافت اور افریقہ و ایشیا اور لاطینی امریکہ سے کلونیئل ازم (نوآبادیاتی نظام) برآمد کیا۔ مغربی یورپ کی فقط چھ چھوٹی چھوٹی (برطانوی، فرانسیسی، ڈچ، بیلجیئن، ہسپانوی اور پرتگالی اقوام نے دنیا بھر پر حکومت کی۔ یورپ کی چرچ سے بنی بادشاہتوں کے استبداد، عوام دشمن ضابطوں سے بیزار، نیم فاقہ کش، قحط سے خوفزدہ اور یورپی غنڈے بدمعاشوں نے بڑی تعداد میں امریکہ کی دریافت کے بعد اس برعظیم کا رخ کیا۔ اسلحے اور بحری طاقت کے زور پر تاریک براعظم سے افریقیوں کے گائوں کے گائوں اور قبیلوں کے قبیلے اغوا کرکے غلام بنا کر امریکہ پہنچائے، وہاں کے اصل قبائلی باشندوں ریڈانڈین کا ہولوکاسٹ پلس کرکے کروڑوں مارے اور غلبہ پا کر آج کی چیلنج ہوتی سپرپاور امریکہ بنایا، پھر بتدریج خود بھی مہذب بننے لگے اور بن گئے۔ تو بلاشبہ اتنے بنے کہ ابراہم لنکن کا فلسفہ جمہوریت اور انقلاب فرانس کا امریکہ کو تحفتاً دیا لبرٹی سٹیچو دنیا بھر خصوصاً ترقی پذیر دنیا کی جمہوریتوں بعض (اور اتھاریٹیرن سوسائٹیز کیلئے بھی)مرکز محویت بن گیا۔ امریکہ کی آبادی کے مقابل اسکے براعظم برابر ملک کی دنیا میں فقط ایک ریاست کے طور پر قبولیت اسی جمہوری اور بنتے تہذیبی تشخص سے ہوئی۔ مقابل دوسری بڑی ظہور پذیر عالمی طاقت سوویت یونین جو چار کروڑ مسلم آبادی پر مشتمل دس گیارہ ریاستوں کو جبراً نوآبادیاتی نظام کے خاتمے اور دنیا میں آزادی و جمہوریت کے چرچے کے بعد بھی اپنی نئی کشور کشائی میں سمائے رہی، بالآخر سوویت آئین میں شامل آزادی کی نام نہاد آپشن کو حقیقت بنا کر انہیں آزاد کرنے پر بالآخر (وقت کے جبر سے) آزاد کرنے پر آمادہ ہوگئی۔ آج کا امریکہ اور اس کے زیر اثر یورپ بھول گیا کہ سرد جنگ میں اس کے سب سے بڑے مشترکہ ہدف ’’سوویت یونین کی تحلیل‘‘ انٹرکونٹی نینٹل میزائلز سے ممکن ہوئی، نہ ایک سے بڑھ کر ایک تباہی پھیلانے والے ہتھیار، نہ ہی ابلاغی جنگ سے۔ اس کا سنگ میل تو افغان جہاد بنا، جس کا بیس کیمپ پاکستان اور اسلامی ممالک کی بھرپور مالی معاونت، جہادی گروپوں کی پاکستان اور افغانستان آمد اور بلاشبہ نیٹو کے گہرے مفادات اور معاونت کے باعث یہ ممکن ہوا۔ اگرچہ آزاد ہوتی دنیا میں (Decolonialization) سے پہلے اسلام سے اپنے مذہبی و تاریخی بغض کے باعث مسئلہ کشمیر و فلسطین بہت مکمل شعوری سازش سے پیدا کئے گئے۔ الجزائر کو آزادی دی نہیں، اس نے فرانس سے چھینی، نائیجریا اور انڈونیشیا میں خانہ جنگی کرائی گئیں۔ مصر، ترکی، پاکستان، الجزائر اور ایران کو حقیقی جمہوریتیں بنانا قبول نہیں ہوا۔ حتیٰ کہ سوویت یونین کے تحلیل کے بعد بھی اپنے لئےمکمل بے ضرر ہی نہیں مسلم دنیا کے بڑے حصے پر مشتمل حامی اتحادی دنیا بھی مغرب کو راس نہیں آئی، نیٹو کے بعد پہلے اسلامی بنیاد پرستی گھڑی گئی جو محدود ترین اور مغرب کے پیدا کئے مسئلہ فلسطین اور پوسٹ افغان جہاد کے بعد جہادی گروپس سے بلاوجہ عدم تحفظ میں مبتلا ہونے سے ردعمل کے طور پرمحدود ہی اثر کے ساتھ برآمد ہوئی۔ عرب سپرنگ لیبیا و شام کی تباہی، اس سے قبل عراق پر حملہ، یمن و کویت، ایران و عراق کی طویل جنگ سب سے بڑھ کرمسلم دنیا کی بےبسی و بےکسی عیاشی اور مجرمانہ غفلتوں سے بھی لبرل، جمہوری مغرب کی تسلی نہ ہوئی تو اپنے ہی ملکوں میں آباد موجود اپنے ہی مسلمان شہریوں کے طرز زندگی کو مسئلہ بنا لیا۔ اپنے ہی جمہوریت آئین اور اس کی ضمانتوں سے روگردانی کرتے مغرب میں اسلامو فوبیا انفرادی مذہبی تعصب گروہوں، منظم گروپس، بڑی تنظیموں کی اتنہا پسندی میں تبدیل ہوتا سیاسی اور حصول اقتدار کی انتخابی مہمات کے ایجنڈے میں آگیا۔ مسلم دنیا سے تعصب اور تہذیب سے تاریخی عداوت کے اس تسلسل نے دو بڑے تشویشناک نتائج نکالے ہیں۔ ایک یہ کہ مغرب کی انتہا پسندی سیاسی اور ریاستی ہو گئی، اسرائیل کی خطرناک سرپرستی، ترقی پذیر دنیا کی بڑی جمہوریہ میں مقتدر ہندو بنیاد پرستی سے عسکری اتحاد کے ساتھ ساتھ، یورپ، کینیڈا، امریکہ ، نیوزی لینڈ، آسٹریلیا او سکینڈے نیوئن جیسے ممالک میں بھی اس عوامی بنتے مذہبی تعصب نے اپنے ہی مسلم شہریوں کو تشویشناک عدم تحفظ میں مبتلا کردیا ہے۔ فرانس کی منتخب قیادت نے یورپ کے 20ملین کی مسلم آبادی اور مسلم دنیا کے تیور میں برپا ہوتی تبدیلی کو نظر انداز کرکے جو اشتعال انگیزی کووڈ کرائسس میں کی اس سے فرانس میں خانہ جنگی کے خطرات بھی منڈلانے لگے۔ کینیڈا میں اسلامو فوبیا جو شکل اختیار کر رہا ہے اس کے فوری اور دور رس، جملہ اور گہرے اثرات عالمی امن کو تباہ و برباد کرنے کا خطرناک سامان ہے۔ اور تو اور اسلامو فوبیا نیوزی لینڈ تک جا پہنچا۔ ترقی و تہذیب کی انتہا پر پہنچ کر مغربی معاشرے اور ایوان ہائے اقتدار میں پھیلاتا مذہبی تعصب کا یہ زہر غالب ہوتا علاقائی اور عالمی امن کا بڑا نیا چیلنج بن گیا ہے جس کے عالمی سیاست پر پڑتے اثرات پہلے ہی واضح ہیں اب اس میں تیزی آ رہی ہے۔ جیسے امریکہ، کینیڈا اور مغربی یورپ میں اسلامو فوبیا بےقابو ہو رہا ہے۔ مسلم دنیا کو دوست ممالک کے ساتھ مل کر عالمی ہوتے اسلاموفوبیاکی بیخ کنی کو امن عالم کا ایجنڈا تسلیم کرانا پورے عالمی انسانی معاشرے کی ترجیحی ضرورت بن گئی ہے۔ جس سے غفلت اور خرافات میں جکڑی مسلم دنیا کو کچھ ہوش تو آیاہے۔

تازہ ترین