• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بارسلوناکی ڈائری … شفقت علی رضا
ا سپین میں مقیم مسلم کمیونٹی ماہ صیام اور عید کا چاند دیکھنے کے معاملے پر ایک پلیٹ فارم پر اکھٹا نہیں ہے ، بہت دفعہ کوششیں کی گئیں لیکن سب بے سود رہیں ۔سپین میں اسلامک کمیشن اس حوالے سے کام کرتا چلا آرہا ہے کچھ مسالک اس کمیشن کی تائید کرتے ہیں ، اسی طرح کچھ مسالک سعودی عرب اور کچھ اپنے قائدین کے اعلان کے مطابق چاند کے نظر آنے یا نہ آنے کا اعلان کرتے ہیں ۔ا سپین میں پاکستان ، بنگلہ دیش ، مراکش ، الجزائر ، انڈیا اور براعظم افریقہ کے ممالک سے تعلق رکھنے والی مسلم کمیونٹی مقیم ہے ، منہاج القرآن ، دعوت اسلامی ، مسجد شاہ جمال ، طارق بن زیاد مسجد اور اہل تشیع اپنے اپنے مسالک کے مطابق اسلامی تعلیمات اور رسومات کو اپنے اعلانات کے مطابق مناتے ہیں ۔اسلامی نقطہ نظر سے اسپین میں مروکو ( مراکش ) کے مسلمان مقامی محکموں اور سرکاری اداروں میں اپنی خاصی پہچان بنائے ہوئے ہیں ، چونکہ مراکش کی سمندری سرحد اسپین کے ساتھ لگتی ہے اس وجہ سے مراکشی باشندے زیادہ تعداد میں اسپین میں مقیم ہیں اور ساتھ ساتھ وہ ہسپانوی زبان پر بھی عبور رکھتے ہیں ۔پاکستانی اسلامی پلیٹ فارم پر کام کرنے والی تنظیمات کا اسلامک کمیشن میڈرڈ کے ساتھ کم ہی واسطہ رہا ہے اسی وجہ سے آج تک غرناطہ میں مقیم ایک پاکستانی مرزا کلیم ہی اسلامک کمیشن کا ایگزیکٹو ممبر بن سکا ۔پاک فیڈریشن اسپین اُن مختلف ایسوسی ایشنز کا منبع ہے جو پاکستانی کمیونٹی کی فلاح و بہبود کا کام کرتی ہیں۔ پاک فیڈریشن نے اپنی مذہبی امور کی کونسل ترتیب دی اور اُس کی ذمہ داری لگائی کہ وہ میڈرڈ جا کر اسلامک کمیشن کے صدر اور دوسرے عہدیداروں سے ملاقات کرے اُن کے ساتھ ایک دن ماہ صیام اور عید کا چاند نظر آنے کے اعلان پر کام کرے۔ا سپین میں ہسپانوی حکومت نے مسلم کمیونٹی کے بارے میں 1992کا ایک ایکٹ بنایا تھا جس میں مسلمانوں کے حقوق کو منظور کیا گیا تھا اُن حقوق سےا سپین میں مقیم مسلمانوں کو رُوشناس کرایا جائے ، اسلامک کیلنڈر بنائے جانے کا معاہدہ کیا جائے جسے دیکھ کر ایک دن چاند نظر آنے یا نہ آنے اور دوسرے مذہبی تہواروں کے بارے میں تحریر کیا گیا ہو ۔اُس معاہدے میں یہ بھی تحریر ہے کہ مسلمان کون سے مذہبی تہواروں کو چھٹی کر سکتے ہیں اور نماز جمعہ کے لئے کس طرح کام میں وقفہ کیا جا سکتا ہے کیونکہ ہسپانوی قانون مسلمانوں کو نماز جمعہ کے لئے 90منٹ کی چھٹی کا اختیار دیتا ہے اور اس وقت کو بعد میں کام کرکے پورا کیا جاتا ہے۔ اس قانون سے پاکستانی مسلمان واقفیت نہیں رکھتے لہٰذا یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ پاک فیڈریشن کی مذہبی کونسل 1992ایکٹ کا اُردو میں ترجمہ کرے گی اور ہر پاکستانی کے پاس اُس کی ایک کاپی ہو گی ۔پاک فیڈریشن کی مذہبی امور کی کونسل کا وفد میڈرڈ پہنچا اور وہاں اُنہوں نے اسلامک کمیشن کے صدر ڈاکٹر ایمان ، جنرل سیکرٹری اجانہ الوافے اور ماہر فلکیات خیر الدین سے میٹنگ کی۔ اس میٹنگ میں سب نے مل کر بعض مطالبات پر تبادلہ خیال کیا جن میں ہسپانوی سکولوں میں اسلامی تعلیم ، وہاں حلال کھانا اور جہاں ممکن ہو وہاں عبادت کی مخصوص جگہ ، ہر بلدیہ کے علاقے میں مسلم قبرستان کی جگہ مختص ہونا ، جیلوں میں بند پاکستانی اور مسلم قیدیوں کے لئے حلال کھانے کی سہولت ، جیلوں میں عبادت کی جگہ ، مسلم امام کا مختص کیا جانا ، مسلم مترجم تعینات کیا جانا اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی کی گئی کہ اسپین میں مقیم مسلم کمیونٹی اور دوسری اقوام جو حلال چیز پیکٹ کے اوپر لکھ کر بیچتی ہیں اُن پراڈکٹس پر چیک اینڈ بیلنس ہونا چاہیئے ۔پاک فیڈریشن اسپین کے وفد میں صدر فیڈریشن چوہدری ثاقب طاہر ،راجہ شفیق کیانی ، راجہ ساجد محمود ، سابق امیدوار ایم پی اے سیوتادانس پارٹی علی رشید بٹ ، پاکستانی کونسلر طاہر رفیع اور دعوت اسلامی کے نمائندگان شامل تھے جبکہ منہاج القرآن کی انتظامیہ کا کہنا تھا کہ ہم پہلے ہی اسلامک کمیشن کے ساتھ ہیں آپ سب جو بھی فیصلہ کریں گے ہمیں منظور ہو گا ۔ پاکستانی مسلم کمیونٹی کا سلامک کمیشن میڈرڈ کے ساتھ ہونے وا لی بات چیت کے ایسے ادوار ہماری آنے والی نسلوں کے لئے صحیح سمت کا انتخاب کرنے میں مددگار ثابت ہو ں گے ، کیونکہ جب ہمارے بچوں کو پتا ہی نہیں ہو گا کہ ان یورپی ممالک میں مسلمانوں کے حقوق کیا ہیں ، وہ کس طرح یہاں زندگی بسر کر سکتے ہیں تو وہ ترقی کرنے سے قاصر رہیں گے ۔وقت کا تقاضا ہے کہ یورپی ممالک میں مقیم مسلم کمیونٹی اتفاق و اتحاد کے پلیٹ فارم کو مضبوط کرتے ہوئے اپنے مذہبی اور قومی تہوار ایک ہی دن منائے تو مقامی کمیونٹی کو مثبت پیغام دیا جا سکتا ہے ، اگر ایک مسلک ایک دن اور دوسرا دوسرے دن عید منائے گا تو کام کرنے والا طبقہ اور سکول کے بچے عید کی چھٹیاں کس طرح مانگیں گے ، جب اُن سے سوال کیا جائے گا کہ کل جو عید تھی وہ مسلمانوں کی نہیں تھی یا آج والی عید کس کی ہے ؟ ایسے سوالات سے بچنے کا ایک ہی طریقہ ہے اور وہ ہے اتفاق و اتحاد کی مضبوطی جس کی وجہ سے ہم اپنے مذہب اور وطن عزیز کا نام ان ممالک میں بلند کر سکتے ہیں اگر ہم ایسا نہیں کریں گے تو دوسری اقوام اور مذاہب ہمارا تمسخر اُڑائیں گے اور ہمارے پاس پچھتاوے کے سوا کچھ نہیں بچے گا ۔
تازہ ترین