• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

پنجاب میں انٹری: پیپلز پارٹی نے سیاسی سرگرمیاں تیز کردیں

قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے انتخابی اصلاحات کے معاملے پر آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) بلانے کا فیصلہ کیا ہے۔ جس کے بعف لاہور کی سیاست میں تیزی آ رہی ہے۔ انتخابی اصلاحات کے معاملے پر اے پی سی بلانے کے اس فیصلے کی بلاول بھٹو اور مولانا فضل الرحمان نے حمایت کردی ہے۔اس معاملےپر بلاول اور فضل الرحمان نے جواب دیتے ہوئے کہا ہم آپ کے اس اقدام کی حمایت کرتے ہیں۔شہباز شریف نے کہا اے پی سی میں اپوزیشن جماعتوں ، انتخابات کی نگرانی اور عمل کو جانچنے والی تنظیموں، اداروں کو مدعو کیا جائے گا۔

وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید نے بھی تمام سیاسی جماعتوں کو انتخابی اصلاحات پر بات کرنے کی دعوت دی ہے۔ شیخ رشید نے کہا حکومت کو تین سال گزرچکے ہیں، چوتھے سال سے الیکشن کی تیاری شروع ہوجاتی ہے۔ تلخیاں ختم کر کے بہتر الیکشن کے معاملات کی طرف جانا چاہیے، ورنہ کتنے ہی شفاف الیکشن کیوں نہ ہوں، ٹرمپ اور بائیڈن والا حال ہوجائے گا۔قومی اسمبلی میں ایک انتہائی افسوس ناک واقعہ بھی پیش آیا۔ 

اس دن کو سیاست کا سیاہ ترین دن بھی کہاگیا۔ بجٹ پر اپوزیشن اور برسراقتدار جماعتیں آمنے سامنے آگئیں اور شدید ہنگامہ آرائی ہوئی۔ پارلیمان میں غیر پارلیمانی گفتگو ہوئی اس سے دنیا بھر میں ہماری جگ ہنسائی ہوئی۔پی ٹی آئی خاتون ارکان قومی اسمبلی نے قومی اسمبلی میں ہونے والے واقعے کو پارلیمنٹ اور خواتین پر حملہ قرار دیا کہاجوہوا وہ پارلیمان کیلئے سیاہ دن تھا۔زرتاج گل اپوزیشن پر خوب برسیں اور کہا اپوزیشن کے رویئےسےکوئی خاتون رکن پارلیمنٹ محفوظ نہیں۔وفاقی وزیر برائے تعلیم شفقت محمود کا کہنا ہے مسلم لیگ ن میں مریم اور شہباز شریف کی جنگ زوروں پر ہے۔انہوں نےکہا ن لیگ میں ایسا طبقہ ہے جونہیں چاہتا کہ اسمبلی چلے۔

وزیر دفاع پرویز خٹک نے اپوزیشن پر الزام لگایا کہ وہ ملک میں جمہوریت کا گلا گھونٹنے کے درپے ہے۔انہوں نے مزید کہا اپوزیشن جماعتیں ہوش کے ناخن لیں اور پارلیمنٹ کے تقدس کو پامال نہ کریں۔انہوں نے دعویٰ سے کہا کہ وزیراعظم عمران خان کی حکومت اگلے 5 سال بھی رہے گی۔آصف علی زرداری نے کچھ روز قبل لاہور کا دورہ کیا تھا۔ پیپلز پارٹی نے سیاسی شخصیات کی شمولیت کے لئے پنجاب اور بلوچستان میں سرگرمیاں تیز کردی ہیں۔پی پی مختلف حلقوں سے جیتنے کی پوزیشن والےامیدواروں سےرابطےمیں ہے جبکہ پیپلز پارٹی چھوڑکرپی ٹی آئی میں جانےوالےکی واپسی کےلئے بھی کوششیں جاری ہیں۔ 

پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی) کو اقتدار میں آئے تین سال ہونے کو ہیں مگر اس سلسلہ میں پاکستان مسلم لیگ نون کی مرکزی قیادت کے خلاف مشکلات کم ہونے کو نہیں آرہی ہیں کبھی قومی احتساب بیورو بلا لیتی ہے تو کبھی ایف آئی اے طلب کر لیتی ہے۔میاں نواز شریف خود تو علاج کیلئے لندن چلے گئے اور ان کی واپسی کی ضمانت شہباز شریف نے دی تھی مگر وہ واپس نہیں آئے ویسے بھی وہ واپس آنے کے لیے گئے ہی کب تھے اب شہباز شریف کو ایف آئی اے میں ایک اور کیس کا سامنا ہے۔ 

اگرچہ لاہور ہائیکورٹ سے انہیں عبوری ضمانت قبل از گرفتاری مل گئی ہے۔لیکن کیا یہ ریلیف شریف فیملی کے لئے کافی ہو گا اور ان کے خلاف کوئی مزید نیا کیس تو نہیں بنا دیا جائے گا اس بارے میں کوئی رائے قائم کرنا مشکل ہے میاں شہباز شریف کی تھوڑا عرصہ پہلے عدالت سےضمانت کے بعد بیرون ملک روانگی کو عین وقت پر روکنا حکومتی عزائم واضع ہو جاتے ہیں۔ 

اس کے بعد سے میاں شہباز شریف کی سیاست اورسیاسی سرگرمیوں میں تیزی آگئی ہے جسے لگام ڈالنے کے لیے حکومتی اداروں کا متحرک ہونا کوئی انوکھی بات نہیں ہے لیکن مریم نواز شریف کی سیاسی سرگرمیوں کے ماند پڑنے کے پیچھے کوئی حکمت ہے یا پھر"شریفوں" کا"شرافت" کے ساتھ ایک دوسرے سے اختلاف چل رہا ہے یہ بڑا بامعنی سوال آئے مگر اس کا جواب اس وقت کسی کے پاس نہیں ہےاب بات کرتےہیں تعلیمی بورڈز کی ،پنجاب بھر میں اس وقت9 تعلیمی بورڈز ہیں جو کوروناکی وجہ سے سنگین حالات میں اپنے امور سرانجام دے رہے ہیں۔ان بورڈز میں اعلی عہدے تک رسائی کی ’’جنگ‘‘ بڑ ے بڑے لوگ لڑتے ہیں۔کچھ عرصہ تک انٹرمیڈیٹ کے امتحانات ہونے والے ہیں، جن کے لئے ابھی تک کوئی واضح پالیسی مرتب نہیں کی گئی۔

اس سلسلے میں امتحان دینے والے الجھن کاشکار ہیں لیکن امتحان تو ہوںگے۔بورڈز کو اس بارے میں واضح حکمت عملی ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔لاہور تعلیمی بورڈ کومدر بورڈ کا درجہ حاصل ہے،مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ دو سال تک رئیس ادارے کے بغیر بورڈ کوچلایاگیا۔

چند ماہ قبل ہی ایک ایسی شخصیت کو چیئرمین بنایاگیاجو اس قسم کےتعلیمی ماحول سے نابلد ہے۔قابل غور بات یہ ہے کہ ایک خودمختار ادارے میں بیرونی مداخلت نہیں ہونی چاہئے۔سنیارٹی کے لحاظ سے ترقی کامعاملہ انتہائی اہم ہے جس کو نجانے کیوں نظرانداز کیاجارہا ہے۔ اس صورتحال کے پیش نظر فارسی کی کہاوت کا ایک مفہوم بیان کرتا چلو ں کہ دو سو گدھوں کے مغز سے انسانی فکر کا شگوفہ نہیں پھوٹ سکتا۔الغرض سیاست ملک کی ہو یاادارہ جاتی اس میں سربراہ کاکردار انتہائی اہم ہوتا ہے۔بقول شکیل بدایونیکانٹوں سے گزر جاتا ہوں دامن کو بچا کر پھولوں کی سیاست سے میں بیگانہ نہیں ہوں۔

تازہ ترین
تازہ ترین