• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

1965 اور 1971کی پاک بھارت جنگ میں والٹن ایئرپورٹ سے بہت کام لیا گیا تھا۔ اگر یہ تاریخی ہوائی اڈہ انگریزوںکے دیس میں ہوتا تو وہ اس کی تاریخ لکھتے، اس ہوائی اڈے پر آنے والی شخصیات کے کتبے لگاتے، ایک فوٹو لائبریری بناتے اور اسے ایک ایسی سیر گاہ بنا دیتےجسے دنیا بھر سے سیاح آ کر دیکھتے۔ یہاں تو اپنے شہر کے لاکھوں افرادکو نہیں پتا کہ والٹن ایئرپورٹ کہاں ہے؟ اس کی تاریخی اہمیت کیا ہے؟ جبکہ یہ برصغیر کا قدیم ترین ہوائی اڈہ بھی ہے۔ 1918ء میں تعمیر ہونے والا یہ ہوائی اڈہ آج بھی زیر استعمال ہے۔ سیلاب کے دنوں میں خوراک ، ادویات اور کپڑے پھینکنے اور فصلوں پر ادویات کا ا سپرےکرنے کے لئے آج بھی چھوٹے طیارے یہاں سے اڑتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ایک دن اردگرد کی آبادیوں کے لوگ اس ہوائی اڈے کو بھول جائیں گے اور پھر کتابوں میںکہیں ذکر ملے گا کہ کبھی یہاں لاہور کا پہلا اور برصغیر کا قدیم ترین ہوائی اڈہ ہوتا تھا۔افسوس کہ والٹن روڈ پر جو درخت اور سبزہ تھا سب سڑک کی چوڑائی کی نذر ہو گیا۔ہم جب یہاں 1972میں آیا کرتے تھے ہُو کا عالم ہوتا تھا اور درخت اتنےتھے کہ بیان سے باہر ہے۔ 1936میں والٹن ایئر پورٹ پر برصغیر کا پہلا ایئرشو بھی ہوا تھا۔ سردار بہادر سرسندر سنگھ مجیٹھیا نے 1937میں اس ہوائی اڈے کے رن وے کو مضبوط کرنے کے لئے کنکریٹ ڈالا تھا۔ سردار بہادر سرسندر سنگھ مجیٹھیا کے نام پر لاہور کی ماضی کی خوبصورت سڑک ایمپریس روڈ (جہاں دو قدیم چرچ، کرسچین اسکول، ریڈیو پاکستان، ریلوے ہیڈ کوارٹر اور حضرت بی بی پاک دامنؒ کامزارمبارک ہے، قزلباش خاندان کی دو وسیع پرانی کوٹھیاں بھی ہیں) پر مجیٹھیا ہال بھی ہے جہاںکبھی لاہور میڈیکل کالج (موجودہ علامہ اقبال میڈیکل کالج) کا بوائز ہوسٹل ہوتا تھا۔ کیا خوبصورت پرانی طرز کی عمارت ہے۔ کم و بیش یہاں دو سو کے قریب کمرے ہیں اور ہر کمرے میں ایک کھڑکی تھی۔ ہم شام کو اکثر اپنے ایک دوست ڈاکٹر سید اقبال سعدیؔ (مزاحیہ شاعر) کے پاس کھانا کھانے/ چائے پینے جایا کرتے تھے، جب وہ علامہ اقبال میڈیکل کالج کے طالب علم تھے۔ کیا خوبصورت ماحول تھا۔ ہم کھڑکی میں بیٹھ کر ایمپریس روڈ کی ٹھنڈی ہوا کھایا کرتے تھے اور سڑک کا نظارہ کیا کرتے تھے۔ اب ایمپریس روڈ جوتوں کی ریڑھیوں کی مارکیٹ بن چکی ہے۔ اس خوبصورت سڑک کا حسن بھی اب تباہ کر دیا گیا ہے۔ ایک قدیم اسکول مسلم لیگ ہائی اسکول بھی ہے۔ اس کی تاریخی عمارت گرا کر بڑی بدصورت عمارت بنا دی گئی ہے البتہ ڈان باسکو اسکول آج بھی اپنی قدیم عمارت میں قائم ہے۔ ایمپریس روڈ کے چوک پر تاریخی نولکھا چرچ بھی ہے۔

اس مجیٹھیا ہال کو محکمہ اوقاف اور ہندو اوقاف نے لے لیا اور حاجی کیمپ بنا دیا گیا ، کسی احمق افسر نے سارے ہال کی کھڑکیوں کو بند کر کے اینٹیں لگا دی ہیں حالانکہ اس ہال کو کسی تعلیمی ادارے کے حوالے کر دینا چاہئے۔سردار بہادر سرسندر سنگھ مجیٹھیا خود بھی بڑے اچھے پائلٹ تھے۔ انہوں نے والٹن ایئرپورٹ اور ہوا بازی کو ترقی دینے کے لئےبہت کام کیا تھا۔ والٹن ایئرپورٹ پر 1947میں جو مہاجر ہجرت کر کے بھارت سے لاہور آئے ان کے لئے عارضی خیمہ بستی اور اسپتال بنایا گیا تھا۔ ان مہاجرین کی تعداد لاکھوں میں تھی۔

اس تاریخی ہوائی اڈے سے پروازوں کے لئے مرزا احمد اصفہانی، آدم جی اور اراگ گروپ نے مل کر 23اکتوبر کو اورینٹ ایئرویز کی بنیاد رکھی تھی۔ اسی تاریخی ایئرپورٹ سے پہلی حج پرواز نے 1949میں اڑان بھری تھی اور1955میں پی آئی اے کی بنیاد رکھی گئی تھی۔1951میں والٹن ایئرپورٹ پر کمرشل پائلٹس کی تربیت کا سلسلہ شروع ہوا،1953میں یہاںسے چارٹر پروازوں کا سلسلہ شروع ہوا اور 1954ء میں ناردرن انڈین فلائنگ کلب کا نام تبدیل کر کے لاہور فلائنگ کلب کر دیا گیا جو اب تک ہے۔ 1962میں عابد مجید روڈ کے آخر میں نیا ایئرپورٹ بنایا گیا۔ عابد مجید روڈ کا ان دنوں نام FEATHER STON ROADتھا۔ جس کے دونوں طرف بڑے گھنے اور قدیم درخت تھے جہاں سے گزر کر ہم کبھی ایئرپورٹ جایا کرتے تھے۔ اس دوسرے لاہور ایئرپورٹ کے بارے میںکئی دلچسپ باتیں آئندہ بتائیں گے۔

اس ایئرپورٹ پر کبھی ذوالفقار علی بھٹو نے بہت بڑا جلسہ کیا تھا ، لوگ ان کا خطاب سننے کے لئے ایئرپورٹ کی عمارت، بیرک اور درختوں تک پر چڑھ گئے تھے۔ والٹن ایئرپورٹ کے نزدیک ہمارے دیکھتے دیکھتے نیول وار کالج، عسکری نیٹ اور کئی دیگر عمارتیںبھی بن گئیں۔ یہ ساری زمین کبھی والٹن ایئرفیلڈ کی تھی۔ ایسا لگتا ہے کہ اس تاریخی ایئرپورٹ پر پلازہ مافیا جلد ہی قابض ہو جائے گا، اس تاریخی ایئرپورٹ کا نام و نشان ختم ہو جائے گا۔

اس اتوار کو ہم چلتے چلتے ایک ایسے قبرستان کی طرف چلے گئے جو میاں میر چھائونی (لاہور کینٹ) میں ہے جہاں دوسری جنگ عظیم میں جو پائلٹ مارے گئے ان کی قبریں ہیں۔ ویسے تو اگر آپ دھرم پورہ (ایک بڑا تاریخی علاقہ ہے ) سے میاں میر چھائونی میں داخل ہوں تو وہاں پر بھی بڑا تاریخی گورا قبرستان ہے۔ کبھی ان دونوں قبرستانوں میں مختلف فلیگ (پرچم) بھی لگے ہوتے تھے ، دونوں قبرستانوں میں برٹش آرمی میں کام کرنے والے فوجی افسروں اور دوسری جنگ عظیم میں مارے جانے والے فوجیوں اور برٹش ایئرفورس کے افسروں کی قبریں ہیں۔دونوں قبرستان کابڑا خوفناک اور عجیب وحشت زدہ ماحول ہے۔ قبریں خستہ ہو چکی ہیں اور کچھ معاملات بھی خراب ہیں۔ اس کے علاوہ تین اور گورا قبرستان ہیں۔ ایک گورا قبرستان جیل روڈ پر، دوسرا گورا قبرستان سیکرڈ ہارٹ اسکول اور ایف سی کالج کے ایوینگ ہال کے پچھلی طرف ہے اور تیسرا راوی روڈ پر حضرت پیر مکیؒ اور حضرت علی ہجویریؒ کے مبارک مزاروں کے پاس ہے۔ راوی روڈ والے گورا قبرستان میں 1857 کے زمانے کی بھی قبریں ہیں۔ کبھی ان کے بارے میں بھی بتائیں گے۔ (جاری ہے)

تازہ ترین