• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پارلیمان میں ’’ہنگامہ آرائی ‘‘ ۔ جمہوریت کا ’’حسن‘‘

یہ 23ستمبر1958ء کا واقعہ ہے مشرقی پاکستان اسمبلی کا اجلاس ڈھاکہ میں منعقد ہو رہا تھا کہ ایوان میں حکومتی اور اپوزیشن ارکان آپس میں لڑ پڑے ۔مار کٹائی کے دوران سر میں ’’ پیپر ویٹ ‘‘لگنے سے ڈپٹی سپیکر شہیدعلی پٹواری جا ں بحق ہو گئے اپوزیشن کی ہنگامہ آرائی ان کی موت کا باعث بن گئی‘ صوبائی اسمبلی میں یہ اپنی نوعیت کا انتہائی افسوس ناک واقعہ تھا جس نے دو ہفتہ بعد 7اکتوبر1958ء کو جنرل ایوب خان کو ملک میں مارشل لا ء نافذ کرنے کا جواز فراہم کر دیا ۔کہا جاتا ہے کہ مشرقی پاکستان اسمبلی میں پیش آنے والے واقعہ کے پیچھے جنرل ایوب خان کا ہاتھ تھا۔ انہوں نے اس واقعہ کی آڑ لے کر’’ لولی لنگڑی‘‘ جمہوریت کی بساط لپیٹ دی ۔ ہر دور میں طالع آزما اس نوعیت کے واقعات کی آڑ لے کر جمہوریت کی بساط لپیٹ دینے کی تاک میں رہتے ہیں۔ 1947ء سے لے کر اب تک پارلیمان میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ہنگامہ آرائی کے واقعات پیش آتے رہے لیکن ہر واقعہ میں بات اتنی نہیں بڑھنے نہیں دی گئی کہ کسی ’’طالع آزما‘‘ کو جمہوریت کی بساط لپیٹ دینے کا موقع مل جائے ۔ ایوب خان کے دور میں اس وقت کی اپوزیشن نے ان کے بھائی بہادر خان کو اپنا لیڈر بنا کر مضبوط ڈھال بنا لی اس دور میں بہادر خان کی تقریر کا درج ذیل مصرعہ زبان زد عام تھا ؎ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے انجام گلستان کیا ہوگا ۔1971ء میں پاکستان کے دولخت ہونے کے بعد بچے کچھے پاکستان کی قومی اسمبلی کا کارنامہ یہ ہے اس نے ملک کو 1973میں ایک متفقہ آئین دیا ہر غیر جمہوری دور میں اس آئین کا حلیہ بگاڑنے کی کوششیں کی جاتی رہیں لیکن یہ آئین آج بھی پوری قوت سے موجود ہے اور پاکستان کی فیڈریشن کے اتحاد کی ضمانت بھی۔ غیر جمہوری قوتوں نے اپنے اقتدار کو طوالت بخشنے کے لئے آئین سے کھلواڑ تو کیا لیکن جمہوری قوتوں نے ہمیشہ آئین کی حفاظت کی ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے ہی بنائے ہوئے آئین کا حلیہ بگاڑنے کی کوشش کی تو اس وقت کی ’’کمزور اور ناتواں‘‘ اپوزیشن ان کے عزائم کی راہ میں حائل ہو گئی جس پر ذوالفقار علی بھٹو نے اس وقت کی اپوزیشن کے سرکردہ رہنمائوںکو سارجنٹ ایٹ آرمز بلا کر پارلیمان سے باہر پھینک دیا تھا‘ اسی طرح ذوالفقار علی بھٹو نے 1977ء میں عوامی مینڈیٹ پر ڈاکہ ڈالا تو اس کے نتیجے میں چلنے والی تحریک مارشل لاء کے نفاذ پر منتج ہوئی ۔ پارلیمان میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان چپقلش اور توتکار تو ہوتی رہتی ہے لیکن سپیکر اور دونوں اطراف کے سینئر لیڈروں کی مداخلت بات بڑھنے نہیں دیتی جس کے باعث کاروان جمہوریت چلتا رہا ہے۔ 2014ء کے دھرنا میں پی ٹی آئی اور عوامی تحریک کے کارکنوں نے تین چار ماہ تک پارلیمنٹ ہائوس کے ایک حصہ پر قبضہ کئے رکھا۔ پی ٹی آئی کے ارکان نے قومی اسمبلی سے استعفے دے دئیے لیکن اس وقت کے سپیکر سردار ایاز صادق نے جمہوریت کی گاڑی کو رواں دواں رکھنے کے لئے30،32 ارکان کے استعفے منظور نہیں کئے۔ قومی اسمبلی میں بھی پی ٹی آئی کے ارکان آئے روز ہنگامہ آرائی کرتے رہے لیکن مسلم لیگی ارکان کی جانب سے ردعمل ظاہر نہ کرنے کی وجہ سے کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہ آیا، برداشت کے جذبہ نے ہی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی حکومتوں کو آئینی مدت پوری کرنے دی۔ جہاں حکومت کی برداشت جواب دے گئی یا اپوزیشن کو دیوار سے لگانے کی کوشش کی گئی وہاں حکومت اپنی مدت ہی پوری نہیں کر سکی بلکہ پورے جمہوری نظام کی جگہ بد ترین آمریت نے لے لی 2014ء کے دھرنے میں عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری پارلیمنٹ ہائوس کے درودیوار سے ٹکراتے رہے لیکن پوری پارلیمنٹ نواز شریف کے ساتھ کھڑی ہو گئی تو دونوں کو مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔ 25جولائی 2018ء کے انتخابات کے نتیجہ میں قائم ہونے والی پارلیمنٹ کی بدقستی یہ ہے کہ اپوزیشن نے اس کے نتائج کو تسلیم نہیں کیا لیکن اس کے باوجود اپوزیشن پارلیمان میں رونق افروز ہے، انتخابی دھاندلیوں کی تحقیقات کرنے کیلئے قائم کی جانے 30رکنی پارلیمانی کمیٹی نے دو تین اجلاس منعقد کر کے پر اسرار خاموشی اختیار کر لی۔ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن نے کسی کے کہنے پر پراسرار’’خاموشی‘‘ اختیار کی ہے تبھی تو کوئی فریق اس معاملہ پر بات کرنے کے لئے تیار نہیں۔ اپوزیشن نے ماسوائے دو مواقع کے، ایک قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف کی تقریر میں شور شرابہ نہ کرنے کے معاہدہ اور دوسرے اپوزیشن کے واک آئوٹ کے دوران پچھلے تین سال سے وزیر اعظم عمران خان کو پارلیمان میں تقریر نہیں کرنے دی، شاید اسی لئے وہ پارلیمان میں کم کم آتے ہیں۔ قائد حزب اختلاف شہباز شریف کو بھی پارلیمان میں بہت کم تقاریر کرنے کا موقع ملا ان کے لئے نیب نے دوبار ’’جیل یاترا‘‘ کا اہتمام کئے رکھا۔ شہباز شریف کا نام ای سی میں ڈال دیا گیا جس کے بعد وہ ضمانت پر رہائی کے باوجود بیرون ملک نہ جا سکے اب کی بار جب شہباز شریف نے قومی اسمبلی میں بجٹ پر بحث کا آغاز کرنا چاہا تو پی ٹی آئی کے ارکان نے تین روز تک ہنگامہ آرائی کر کے شہباز شریف کو تقریر نہ کرنے دی ۔ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان تعلقات تو کشیدہ ہیں ہی لیکن سپیکر اور ڈپٹی سپیکر نے اپوزیشن کی بجائے اپنا وزن حکومت کے پلڑے میں ڈال کر صورت حال کو مزید خراب کیا۔ ڈپٹی سپیکر نے کورم کے بغیر اجلاس کی کارروائی چلا کر ایک ہی جست میں 21بل منظور کروا لئے۔ ماضی میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان شدید کشیدہ تعلقات کار کے باوجود اس وقت کے سپیکرز نے قومی اسمبلی کی کارروائی خوش اسلوبی سے چلانے کیلئے مخدوم جاوید ہاشمی اور شیخ رشید احمد سمیت مختلف اسیر ارکان قومی اسمبلی کے نہ صرف پروڈکشن آرڈرز جاری کیے بلکہ ان پر عمل درآمد کروا کے سب کو راضی و مطمئن رکھا۔ سپیکر اسد قیصر نے وزیر اعظم ہائوس میں ’’طلبی‘‘ کے بعد شہباز شریف، خوجہ آصف اور سید خورشید شاہ کے پروڈکشن آرڈر جاری کرنے سے انکار کردیا۔ سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کی ’’بے بسی‘‘ ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا باعث بنی جو بعد ازاں مفاہمانہ رویوں کے باعث واپس لے لی گئی۔

تازہ ترین