• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے بعد پاکستان کا کردار کیا ہو گا؟ اس حوالے سے وزیراعظم عمران خان کے اہم ترین پالیسی بیانات سامنے آئے ہیں۔ امریکی ٹی وی چینل اور اخبار کو اپنے انٹرویوز میں ایک طرف تو انہوں نے یہ اعلان کر دیا ہے کہ پاکستان اپنی سرزمین پر امریکہ کو فوجی اڈے نہیں دے گا اور دوسری طرف انہوں نے یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ پاکستان سب کچھ کرے گا لیکن افغان طالبان کے خلاف فوجی ایکشن نہیں کرے گا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان ایسا کر سکے گا جیسا کہ وزیراعظم پاکستان کہہ رہے ہیں؟

وزیراعظم عمران خان، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور پاکستان کے دیگر حکام مسلسل اس خدشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ اگر افغانستان کے مسئلے کا ایسا سیاسی حل نہ نکالا گیا جو طالبان کے لئے بھی قابلِ قبول ہو تو افغانستان میں خونریز خانہ جنگی ہو سکتی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ خدشہ درست بھی ہے کیونکہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی افواج کے انخلا سے پہلے ہی افغانستان کے مختلف علاقے تیزی سے طالبان کے قبضے میں ا ٓرہے ہیں۔

افغان حکومت اور امریکہ سے طالبان کے طویل مذاکرات نتیجہ خیز نہیں ہو سکے ہیں۔ جنگ بندی بھی نہیں ہو سکی جبکہ طالبان کی پیش قدمی بھی جاری ہے۔ اتحادی افواج کے انخلا کے بعد اس امکان کو مسترد نہیں کیا جا سکتا کہ طالبان کابل کی جانب پیش قدمی کرنے کے لئے بھرپور عسکری مہم جوئی کریں گے۔ وزیراعظم نے اپنے انٹرویو میں انتہائی اعتماد کے ساتھ یہ بات کر دی ہے کہ طالبان سے کہہ دیا گیا ہے کہ وہ کابل پر قبضہ نہ کریں۔ یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا طالبان وزیراعظم عمران خان کی بات مان لیں گے کیا طالبان، القاعدہ اور دیگر عسکریت پسند گروہ اپنے وہ اہداف ترک کر دیں گے، جن کے لئے وہ عشروں سے لڑ رہے ہیں؟

افغانستان کی صورت حال جس طرح پیچیدہ ہے، اسی طرح مذکورہ بالا سوالات کے جوابات بھی سادہ نہیں ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے جس طرح دو ٹوک موقف اختیار کیا ہے، اگر اس پر عمل درآمد ہو جائے تو اس سے پاکستان کو ’’پرائی‘‘ جنگ سے نکالنے اور آزادانہ خارجہ پالیسی کی بنیاد ڈالنے میں مدد ملے گی۔ یہ پاکستان کی جمہوریت پسند قوتوں کا دیرینہ خواب ہے لیکن کیا ایک سویلین وزیراعظم ملک کی دیگر سیاسی قوتوں کے ساتھ حالت جنگ میں رہتے ہوئے اس خواب کو شرمندۂ تعبیر کر سکتا ہے۔ ہم وزیراعظم کے بیانات کو اس تناظر میں نہیں دیکھنا چاہتے کہ پاکستان کی کچھ سیاسی قوتیں انہیں طالبان کا حامی کہتی ہیں۔ ہم اس بات میں بھی نہیں الجھنا چاہتے کہ وہ افغانستان میں امریکی مداخلت، پاکستان پر ڈرون حملوں اور امریکی جنگ میں پاکستان کو دھکیلنے کی ہمیشہ مخالفت کرتے رہے۔ اس کے باوجود پہلے ان کی سیاسی جماعت کو خیبر پختونخوا میں حکومت ملی اور پھر مرکز میں حکومت ملی۔ ہمیں صرف آج کے معروضی حالات میں وزیراعظم کے بیانات کا جائزہ لے کر مذکورہ بالا سوالات کا جواب حاصل کرنا چاہئے۔

معروضی حالات جاننے کے کچھ مغالطوں اور غلط مفروضوں سے نکلنا ہوگا۔ پہلا غلط مفروضہ یہ ہے کہ امریکہ افغانستان میں شکست کھا چکا ہے اور وہ مزید معاشی، فوجی اور سیاسی نقصانات کا متحمل نہیں ہو سکتا حقیقت یہ ہے کہ 20سال سے زیادہ عرصے تک امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی افغانستان میں موجودگی سے اسکے تمام اسٹرٹیجک (تذویراتی) اہداف پورے ہوئے۔ نہ صرف جنوبی ایشیا بلکہ مشرق وسطیٰ میں جو تباہی ہوئی، اس سے عالمی سامراجی قوتوں کے معاشی اور سیاسی مفادات کا حصول ممکن ہوا۔ امریکی اور اتحادی افواج کی مہم جوئیوں پر سرمایہ کاری کثیر القومی اداروں کی اسپانسرڈ ہوتی ہے۔ دوسرا غلط مفروضہ یہ ہے کہ طالبان، القاعدہ اور دیگر انتہاء پسند گروہ امریکہ سے لڑتے رہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان گروہوں کی وجہ سے امریکہ کو اس خطے میں فوجی موجودگی اور مہم جوئی کا جواز میسر آیا۔ یہ انتہا پسند گروہ بقول محترمہ بےنظیر بھٹو امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف نہیں بلکہ اپنے دیگر مسلمان گروہوں اور حکومتوں سے لڑتے ہیں۔ تیسرا غلط مفروضہ یہ ہے کہ طالبان، القاعدہ اور دیگر گروہ دنیا بھر میں مذہبی ریاستوں کے قیام کے اپنے اہداف سے دستبردار ہو جائیں گے یا انہیں دستبردار کرا دیا جائے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ اس خطے کو مزید بدامنی میں جھونکنے کے لئے انخلاء کا ڈرامہ رچا رہا ہے تاکہ چین کے ون بیلٹ ون روڈ کے منصوبے خاص طور پر سی پیک میں رکاوٹیں پیدا ہوں۔ طالبان اور دیگر گروہوں کا اس بدامنی میں ایک نیا کردار ہو گا۔

چوتھا غلط مفروضہ یا مغالطہ یہ ہے کہ ماضی کی پاکستانی حکومتوں نے امریکی جنگ میں ملوث ہو کر ایسی غلطی کی، جو نادانستگی میں ہوئی۔ حقیقت یہ ہے کہ 1978میں افغانستان میں سوویت یونین کی مداخلت سے پہلے پاکستان میں ضیاء الحق کی حکومت اور پھر نائن الیون کے واقعہ سے قبل پاکستان میں پرویز مشرف کی حکومت قائم ہوئی۔ یہ کوئی اتفاقات نہیں ہیں۔ پانچواں غلط مفروضہ یہ ہے کہ طالبان کے سارے گروہ پاکستان کے حامی نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکی انخلا کے بعد افغانستان پر قبضے کے لئےطالبان کے ایسے گروہ بھی سامنے آئیں گے، جو نہ صرف ایک دوسرے کے مخالف ہوں گے بلکہ پاکستان کے بھی مخالف ہوں گے۔

مذکورہ بالا غلط مفروضوں اور مغالطوں کو ایک طرف رکھتے ہوئے حقائق کا تجزیہ کیا جائے۔ مستقبل قریب کا منظرنامہ کچھ اچھا نظر نہیں آ رہا۔ اس خطے میں ہماری سوچ سے زیادہ بدامنی اور عدم استحکام کے امکانات نظر آ رہے ہیں۔ پاکستان میں بدامنی سے کچھ قوتوں کے مفادات وابستہ ہیں۔ اگر وزیراعظم عمران خان کو اپنے بیانات پر عمل درآمد کرنا ہے اور افغانستان کی خانہ جنگی کی آگ کو پاکستان کی سرحدوں کے اس طرف روکنا ہے تو میں پھر وہی بات کروں گا کہ وہ پاکستان کی تمام سیاسی قوتوں کو اعتماد میں لیں اور نئی خارجہ خصوصا افغان پالیسی بنائیں،بصورت دیگر پاکستان کے لئےوہ کرنا مشکل ہو گا، جو وزیراعظم عمران خان کہہ رہے ہیں۔

تازہ ترین