• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قومی اسمبلی کے فلور پر وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین کے اِس انکشاف کہ ’’پاکستان غذائی کمی (Food Deficit) کا شکار ملک بن گیا ہے‘‘ نے ہر پاکستانی کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔ اِس سے قبل حکومت بجٹ میں یہ بلندبانگ دعوے کرتی رہی کہ ’’پاکستان میں بمپر فصلیں ہوئی ہیں اور زرعی شعبے کی پرفارمنس بہت اچھی رہی ہے۔‘‘ لیکن درحقیقت صورتحال اِس کے برعکس نظر آتی ہے اور اعداد و شمار یہ ظاہر کرتے ہیں کہ پاکستان فوڈ ایکسپورٹر سے فوڈ امپورٹر ملک بن چکا ہے حالانکہ ماضی میں ہم نہ صرف زرعی شعبے میں خود کفیل تھے بلکہ اربوں ڈالر کی کاٹن اور دیگر زرعی اجناس ایکسپورٹ کرکے زرمبادلہ کمارہے تھے۔

پاکستان دنیا میں ایک زرعی ملک کے طور پر پہچانا جاتا ہے جس کا 28فیصد رقبہ زرعی اراضی پر مشتمل ہے۔ زرعی شعبہ ملکی معیشت کا دوسرا اہم شعبہ ہے جس کا جی ڈی پی میں حصہ 21فیصد ہے جبکہ ملک کی 45فیصد لیبر فورس کاشتکاری سے منسلک ہے اور اِسی شعبے سے اپنا روزگار کماتی ہے۔ 5بڑے دریائوں اور 4موسموں والا ملک پاکستان کبھی گندم، چینی، کپاس اور دیگر زرعی اجناس ایکسپورٹ کرتا تھا مگر افسوس کہ آج ہم اربوں ڈالر کی گندم، چینی، کپاس اور دیگر زرعی اجناس امپورٹ کررہے ہیں۔ مالی سال 2020-21 کے 11مہینوں میں حکومت نے 7.5ارب ڈالر کی زرعی اجناس امپورٹ کیں جن میں 1.5ارب ڈالر یعنی 237ارب روپے کی کاٹن، 160ارب روپے کی گندم، 100ارب روپے کی دالیں، 90ارب روپے کی چائے، 35ارب روپے کے مصالحہ جات اور 25ارب روپے کی چینی شامل تھی۔ یہ امر افسوسناک ہے کہ ہم ملکی ضرورت کی 70فیصد دالیں امپورٹ کررہے ہیں جو غریب طبقے کی اہم غذا ہے۔

زرعی شعبے میں سب سے تشویشناک بات کاٹن کی پیداوار میں خطرناک حد تک کمی ہے۔ ملک کی مجموعی ایکسپورٹس میں 60فیصد حصہ ڈالنے والا ٹیکسٹائل سیکٹر اپنے خام مال دھاگے اور کپڑے کی تیاری کیلئے زرعی شعبے کی اہم فصل کاٹن پر انحصار کرتا ہے۔ 2010سے 2018تک پاکستان میں کاٹن کی اوسطاً 13 ملین بیلز کی پیداوار ہوتی تھی جو گزشتہ 3برسوں میں بتدریج کم ہوکر 5.5ملین بیلز رہ گئی ہے اور یہ گزشتہ 30برسوں کے دوران کاٹن کی کم ترین پیداوار ہے۔ اس کے برعکس بھارت میں کاٹن کی پیداوار میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ 1991-92میں پاکستان میں کاٹن کی پیداوار 12.8ملین بیلز اور بھارت میں 11.8ملین بیلز تھی۔ اس طرح پاکستان، بھارت سے ایک لاکھ ملین بیلز کاٹن زیادہ پیدا کررہا تھا مگر آج بھارت زرعی شعبے میں ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ (R&D) کی بدولت 34ملین بیلز کاٹن پیدا کررہا ہے جبکہ پاکستان میں کاٹن کی پیداوار مسلسل کم ہورہی ہے۔

پاکستان میں زرعی شعبے کو جو مشکلات درپیش ہیں، وہ اچانک ظاہر نہیں ہوئیں بلکہ یہ گزشتہ کئی برسوں کا تسلسل ہے جس کی وجہ سے آج یہ شعبہ اِس نہج پر پہنچ چکا ہے کہ زرعی ملک ہونے کے باوجود پاکستان گندم، چینی اور کپاس کی درآمد پر مجبور ہے جس کی بنیادی وجہ کپاس کے رقبے کی جگہ گنے کی فصل نے لے لی ہے۔ پاکستان میں زرعی پیداوار میں کمی کی ایک اور اہم وجہ زرعی شعبے میں ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ کا فقدان ہے۔ اس مقصد کیلئے ادارے تو بنائے گئے ہیں مگر ان اداروں کو ملنے والے فنڈز ریسرچ کے بجائے ملازمین کی تنخواہوں کی مد میں کھپ جاتے ہیں۔ اسی طرح زرعی اراضی کو غیرزرعی مقاصد بالخصوص رئیل اسٹیٹ کیلئے استعمال کیا جارہا ہے اور زیر کاشت زمینوں کو رہائشی اسکیموں میں تبدیل کیا جارہا ہے جس سے ملک کو مستقل زرعی بحران سے دوچار ہونے کا خطرہ ہے۔

پاکستان میں خوراک کی طلب میں اضافے کی ایک بڑی وجہ بڑھتی ہوئی آبادی بھی ہے۔ پاکستان آبادی کے لحاظ سے اِس وقت دنیا میں چھٹے اور اسلامی ممالک میں دوسرے نمبر پر ہے۔ اقوامِ متحدہ کے اعداد وشمار کے مطابق پاکستان کی آبادی میں ہر 8سیکنڈ بعد ایک نئے فرد کا اضافہ ہورہا ہے اور 1951کی مردم شماری کے مقابلے میں پاکستان کی آبادی 6گنا بڑھ چکی ہے۔ رپورٹ میں خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ اگر بڑھتی ہوئی بےہنگم آبادی پر قابو نہ پایا گیا تو آئندہ 30برسوں میں پاکستان کی آبادی دگنی ہو جائے گی جس سے مستقبل میں قحط سالی جیسی سنگین صورتحال پیدا ہو سکتی ہے۔

پاکستان کیلئے آبادی کی خوراک کی ضروریات کو پورا کرنے کی صلاحیت روزبروز کم ہوتی جارہی ہے جس کے اثرات گندم کی قلت کے علاوہ پھلوں اور دالوں سمیت دیگر زرعی اجناس کی درآمد کی شکل میں آنا شروع ہو گئے ہیں۔ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ پاکستان میں کیش کراپ یعنی گندم، کپاس، چاول اور چینی میں سے صرف چاول کے علاوہ باقی تینوں زرعی اجناس درآمد کی جارہی ہیں۔ اقوامِ متحدہ کی حالیہ رپورٹ ہماری آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہیں جس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پاکستان اُن ممالک میں شامل ہوچکا ہے جہاں مستقبل میں فوڈ سیکورٹی کا بڑا خطرہ ہے مگر ہم ابھی تک خواب غفلت میں پڑے ہوئے ہیں اور خوراک کے برآمد کنندہ سے درآمد کنندہ ملک بن چکے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ایکسپورٹر نہ بنیں لیکن کم از کم اپنی خوراک میں اتنے خود کفیل تو ہو جائیں کہ ہمیں بیرون ملک سے خوراک امپورٹ نہ کرنی پڑے۔

تازہ ترین