• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کی سیاہ ترین رات 5جولائی1977ء کا تسلسل آج بھی جاری ہے۔ جنرل ضیاء الحق نے عوام کے منتخب اور محبوب لیڈر ذوالفقار علی بھٹو کو معزول کرکے اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ شہید ذوالفقارعلی بھٹو کا قصور یہ تھا کہ انہوں نے محروموں اور افلاس زدہ طبقات کو ان کے بنیادی حقوق دیئے۔ پہلے دولت مند زمینداروں‘ سول سروس کے سرغنوں اور صنعت کار خاندانوں کی سازبازسے حکومتیں بنتی اور ٹوٹتی تھیں پھر جھگڑے شروع ہو جاتے۔ انتظامی اور سیاسی جھگڑے ختم کرنے کے لئے فوجی آمر آجاتے۔ بھٹو نے عوامی سیاست کو اپنایا اور ایوب خان کابینہ سے الگ ہوکر ان کے خلاف احتجاج کرنے والے طلباء کی قیادت کی۔ بھٹو شہید نے نوجوانوں‘ دانشوروں‘ غریب کسانوں اور استحصال زدہ شہری مزدوروں کو متحد کیا۔ اقتدار ملنے کے بعدبھٹو شہید نے زمین کی ازسرنو تقسیم‘ صنعتی مزدوروں کے لئے کم از کم اجرت اور دوسرے سماجی قوانین کی تشکیل کا آغاز کیا۔ ان اقدامات سے افلاس زدہ عوام کو وقار کا ایک نیا احساس ملا اور صدیوں پرانی مشکلات اور مصیبتوں سے نجات پانے کا راستہ دکھائی دیا۔
مگر اس کے بعد تشدد و جبر کا ایسا دور شروع ہوا جس میں پیپلزپارٹی کے کارکنوں کی زندگی عذاب بنا دی گئی پیپلزپارٹی کے کارکنوں کو چن چن کر ظلم و تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔جس میں خواتین اور بچوں کو بھی نہیں بخشا گیا۔ ان کا جرم یہ تھا کہ انہوں نے اپنے قائد کی جمہوری جدوجہد کے لئے ثابت قدمی کے ساتھ آمر کے احکامات کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ ہزاروں کارکنوں کے حوصلے پست کرنے کے لئے انہیں سرعام کوڑے مارنے کے بازار سجائے گئے، پھانسیاں دی گئیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ ان کو اپنے ضمیر کی آواز بلند کرنے پر نشان عبرت بناتے ہوئے ہر وہ اقدام کیا گیا جس سے وہ پاکستان پیپلزپارٹی سے کنارہ کشی کرکے مارشل لا کے جبراً اطاعت گزاربنائے جاسکیں۔ جنرل ضیاء نے جس عیاری سے منتخب وزیراعظم جناب ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹ کر مارشل لا لگایا اور یہ اعلان کیا تھا کہ نوّے دن کے اندر انتخابات کروا کر جمہوریت بحال کردی جائے گی پھر اس نے انتخابات غیرمعینہ مدت تک یہ کہہ کر منسوخ کردیئے کہ جب تک ”مثبت نتائج“ نہیں آتے اس وقت تک الیکشن نہیں کرائے جائیں گے۔ایک طرف مارشل لا کیخلاف آواز بلند کرنے والوں پر عرصہ حیات تنگ کیا جارہا تھا تو دوسری طرف پارٹی کے قائد چیئرمین بھٹو کی زندگی ختم کرنے کے منصوبے پر عمل شروع کر دیا گیا تھا۔ جناب بھٹو کو ایک جھوٹے مقدمہ قتل میں 3ستمبر1977ء کو 70 کلفٹن سے ایک کمانڈو ایکشن میں گرفتار کرکے لاہور منتقل کردیا گیا اور دنیا نے پہلی بار چادر اور چار دیواری کی حفاظت کا دعویٰ کرنے والے شخص کے ہاتھوں چادر اور چاردیواری کی حرمت پامال ہونے کا منظردیکھا اور پھر خاتون اول بیگم نصرت بھٹو کو قذافی اسٹیڈیم میں لاٹھیاں برسا کر زخمی کرکے یہ پیغام دیا گیا کہ وہ پیپلزپارٹی سے قطع تعلق کرلیں۔ اس تشدد کا مقصد بھٹو صاحب کو جو اس وقت مقدمہ قتل میں مولوی مشتاق کی عدالت کا سامنا کررہے تھے‘ ان کو ذہنی اذیت پہنچانا تھا‘ بھٹو صاحب نے اس واقعے کا ذکر کرتے ہوئے عدالت میں یہی کہا تھا کہ ان کے خاندان اور ان کی بیگم پر بھی بے رحمانہ ظلم روا رکھا جارہا ہے۔
جنرل ضیاء کے یہ پرتشدد اقدامات اور کارروائیاں بھٹو خاندان کے ساتھ بالخصوص اور پارٹی کارکنوں کے ساتھ ظلم اس کے بزدلانہ مقاصد کے عکاس تھے۔ جس کا اس نے ایک موقع پر یوں اظہار کیا تھا کہ ”مجھے چاہئے تھا کہ فوجی بغاوت کی رات میں اس خاندان کا نام و نشان مٹا دیتا“۔ اس کے بعد جنرل ضیاء نے ہر وہ ظلم روا رکھا جو اس کے بس میں تھا۔ بیگم بھٹو اور بے نظیر بھٹو کو پانچ سال سے زائد عرصہ تک قید تنہائی میں رکھا گیا۔ ظلم کے اس سیاہ دور سے تنگ آکر ہزاروں لوگ ہجرت پر مجبور ہوئے اور وہ دنیا کے مختلف ممالک میں سیاسی پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔ جیسا کہ بیان کیا جاچکا ہے کہ 5جولائی کی سیاہ رات کا سلسلہ یوں جاری رہا کہ اپنی جس ناپاک خواہش کو وہ 5جولائی کی رات بھٹو خاندان کا نام و نشان مٹانے کی صورت میں پوری نہ کر سکا اس کو اس کی باقیات نے قسط وار پورا کیا۔ ضیاء کے دور میں ہی 18جولائی 1985ء کو فرانس میں شاہنواز بھٹو کی پراسرار موت واقع ہوئی اس کے بعد 20 ستمبر 1996ء کو میرمرتضیٰ بھٹو کو بھی پراسرار طور پر شہید کر دیا گیا۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ جنرل ضیاء نے بیگم بھٹو اور بے نظیر بھٹو دونوں کو علاج کی سہولت مہیا نہ کر کے ختم کرنے کی کوشش کی تھی جس کیخلاف دنیا میں انسانی حقوق کے اداروں اور مختلف سربراہان مملکت نے آواز اٹھائی اور بغرض علاج ان کو جلاوطنی اختیار کرنا پڑی اور یوں بیماری کے بہانے ان کی زندگیاں چھیننے کی کوشش ناکام ہوئی۔ بیگم صاحبہ نومبر 1982ء میں ملک سے باہر گئیں اور بے نظیربھٹو 10جنوری 1984ء کو رہا ہوکر لندن چلی گیں۔ بھٹو مخالف عناصر ان کے خلاف سرگرم عمل رہے اور دوسری بار ان کے دور حکومت کو غیرآئینی طور پر ختم کیا گیا۔ انتقامی کارروائیاں‘ مقدمے اور کردارکشی کی گرد اڑائی گئی۔ بے نظیربھٹو کے شوہر آصف علی زرداری کو یرغمال بنا کر قید کیا گیا لیکن نہ تو بے نظیر بھٹو نے دباؤ قبول کیا اور نہ ہی آصف علی زرداری نے کوئی سمجھوتہ کیا۔ دونوں نے بہادری سے حالات کا سامنا کیا اور ثابت قدم رہے۔ 1999ء میں بی بی دوبارہ جلاوطن ہوئیں اور پھر 16/اکتوبر2007ء کو 8 سالہ طویل جلاوطنی ختم کرکے کراچی پہنچیں تو ان کا بے مثال استقبال کیا گیا۔ بھٹو دشمن قوتیں عوام کے اس والہانہ جوش سے خوفزدہ ہوگئیں اور ان کے ٹرک پر خودکش حملہ کیا گیا جس سے وہ زندہ بچ گئیں لیکن ڈیڑھ سو سے زائد کارکن اپنی جان کی بازی ہار گئے پھر27دسمبر 2007ء کو لیاقت باغ میں انہیں شہید کردیا گیا اور اس طرح بھٹو خاندان کا نام و نشان مٹانے کے قسط وار سلسلے کا ایک باب بند ہوا لیکن سیاہ رات کا تسلسل ابھی تک جاری ہے۔ پیپلزپارٹی اور جناب آصف علی زرداری نے اگرچہ پانچ سال کی میعاد پوری کرلی ہے لیکن اس کے باوجود وہ انہی عناصر کا نشانہ ہیں جو بھٹو خاندان کے ازلی مخالف اور دشمن ہیں اور اس سیاہ رات کے ڈانڈے 5جولائی 1973ء سے ملتے ہیں۔
تازہ ترین