• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
روزنامہ جنگ میں ہمارے ایام کالم نویسی زیادہ تر تو یہ وضاحتیں پیش کرتے ہی گزر گئے کہ ہم لکھنے لکھانے کے معاملے میں اس قدر کنجوسی سے کام کیوں لیتے ہیں۔ خواہش تو یہی تھی کہ ہر روز کالم لکھتے مگر ٹی وی کی مصروفیت نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا۔ اور اب تو عالم یہ ہے کہ کئی کئی ہفتے گزر جاتے ہیں مگر کالم سوجھتا ہی نہیں اور اگر کبھی سوجھے بھی تو وقت کی قلت آڑے آجاتی ہے۔ اسی دوران ایک سے زائد مرتبہ کالم نویسی کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے خیرباد کہنے پر بھی غور کیا۔ حتی کہ کالم کی قبر پر نصب ہونے والی متوقع لوح مزار کے لئے ظفر اقبال کا یہ پرآشوب شعر بھی منتخب کر لیا ۔
کون تھا وہ جو رہا اپنے شب و روز میں گم
مر گئے جس کی منڈیروں پہ کبوتر میرے!
لیکن پھر جس طرح دل کے مریض کی ٹوٹتی نبضیں بار دیگر بحال ہونے لگتی ہیں۔ اسی طرح ہمارے کالم کے مردہ گھوڑے میں بھی پھر سے جان پڑنے لگتی ہے اور یوں وقت کی منڈیروں پر مرنے والے یہ کبوتر ایک ایک کر کے دوبارہ زندہ ہونے لگتے ہیں۔
چند روز قبل کسی کام سے کراچی جانے کا اتفاق ہوا۔ بیمار نئے پرانے دوستوں سے ملاقات ہوئی۔ ایک انتہائی بین الاقوامی نوعیت کی محفل میں ہمیں مہمان مبصر کی حیثیت سے شرکت کا موقع ملا۔ ایک نو عمر خاتون کہ تعلق جن کا ایک مشہورامریکی تھنک ٹینک سے بتایا جاتا ہے ، ہمارے مختلف حکمرانوں کی اولاد بارے جانکاری حاصل کرنے میں بیحد دلچسپی لے رہی تھیں۔ انہی کی دیکھا دیکھی ایک دو بزرگ غیر ملکیوں نے بھی اسی حوالے سے سوال کرنے شروع کردیئے۔ تاہم اس بات پر ہمیں افسوس بھی ہوا اور حیرت بھی کہ ہمارے میزبان سمیت تقریباً تمام مبصرین اس موضوع پر نہ صرف خاموش بلکہ گونگے تھے۔
اور یہ محض حسن اتفاق تھا کہ اس حوالے سے ہم تقریباً تمام مذکورہ نور چشموں کو ذاتی طور پر جانتے تھے۔ انسانیت، پاکستانیت اور ذہانت کو اگر یکجا کر کے دیکھا جائے تو ہم وزیراعظم نوازشریف کے چھوٹے صاحبزادے حسن نواز کی ریٹنگ سب سے اپر کریں گے۔ اس نوجوان نے ہمیں اس حد تک متاثر کیا ہے کہ ہمیں اس کے سیاست میں دلچسپی نہ لینے کا افسوس ہی نہیں باقاعدہ غم ہے۔ آپ مستقل بنیادوں پر لندن میں مقیم ہیں اور خاندانی کاروبار کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔ نوازشریف کو چاہئے کہ اس برخوردار کو اگر کھینچ کر بھی میدان سیاست میں لانا پڑے تو ضرور لائیں کہ یہ عمل ملک و قوم کے لئے مفید تو ہے ہی، ان کی اپنی سیاست کے لئے بھی ازحد ضروری ہے۔
وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے صاحبزادے حمزہ شہباز سیاست کے تلخ وتریں کو خوب سمجھنے کے ساتھ ساتھ ضلعی سطح پر حکومتی مشینری کو استعمال کرنے میں بھی یدطولیٰ رکھتے ہیں۔ افسروں کی پوسٹنگ اور ٹرانسفر کے حوالے سے بھی آپ نے خوب نام کمایا ہے مگر آپ کو شہرت دوام بخشنے والی ایک شخصیت جو اپنے آپ کو آپ سے منسوب کرتی ہے قریباً سات سو میل فی گھنٹہ کی رفتار سے ان کی خبر گیری کرتی سنائی دیتی ہیں۔ تاہم اپنے گھر میں خوش باش حمزہ شہباز اس کے الزام سے فی الحال تو انکار ہی کرتے ہیں۔
حکمرانوں کی اولاد میں اگر فقط ذہانت، فطانت اور معاملہ فہمی کا مقابلہ ہو تو شاید مونس الٰہی سب سے آگے نکل جائیں کہ بظاہر نہایت معصوم نظر آنے والے یہ حضرت اندر سے اپنے والد بزرگوار قبلہ چودھری پرویز الٰہی سے بھی چار ہاتھ آگے ہیں۔ حالیہ انتخابات میں موصوف نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ ملکر ایک ایک نشست پر کافی عرق ریزی کی تھی مگر اللہ کو چونکہ کچھ اور ہی منظور تھا اس لئے ان کی جماعت پیپلز پارٹی کے گناہوں کا بوجھ برداشت کرتے کرتے خود ایک مریل ٹٹو کی شکل اختیار کر چکی ہے۔علم و فضل ، مطالعے اور تحقیق کے اعتبار سے نوازشریف کے بڑے صاحبزادے حسین نواز اس مختصر سے کلب میں سب سے نمایاں حیثیت رکھتے ہیں۔ اس سلسلے میں اگر کسی کو شک ہو تو پہلی فرصت میں ہی اپنا شک رفع کر لے کہ موصوف انٹرنیٹ پر بھی دستیاب ہوسکتے ہیں۔ فون پر بھی اور اگر آپ جدہ تک کا سفر کرسکیں تو بنفس نفیس بھی۔ آپ بھی اپنے برادرخورد کی طرح سیاست سے کوہسوں دور بھاگتے ہیں لیکن ایک ”ان ہاؤس“ تھنک ٹینک کی حیثیت میں اپنے والد کا ہاتھ بھی بٹاتے نظر آتے ہیں۔
بلاول بھٹو زرداری شاید کم سنی کے سبب ہمیں فی الحال اس طرح متاثر نہیں کرسکے جس طرح انہیں کرنا چاہئے تھا مگر ہم جس حد تک انہیں سمجھ سکے ہیں اس حد تک وہ صرف ایک اچھے مقرر ہیں جو موضوع اور ماحول کو محلوظ خاطر رکھتے ہوئے دس بارہ منٹ کے لئے اپنا رنگ جمانے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کو جو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے اس کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم اگر چاہیں بھی تو بلاول سے کوئی لمبی چوڑی توقعات وابستہ نہیں رکھ سکتے۔تاہم پیپلز پارٹی بارے ماہرین ہمیشہ ایک ہی بات کرتے ہیں کہ یہ ایک سرکش گھوڑا ہے جس کی باگیں صرف اور صرف بھٹو خاندان ہی سنبھال سکتا ہے۔ اس خاندان میں زرداری صاحب کی ”المناک آمیزش“ کے باوجود اس کی سیاسی وراثت بہت مضبوط ہے۔ چنانچہ ہماری ناقص رائے میں یہ خاندان اور یہ جماعت اگلے چند برس میں اپنی نشاة ثانیہ دیکھیں گے ضرور مگر یہ معجزہ بلاول کے نہیں بلکہ آصفہ کے ہاتھوں رونما ہوسکتا ہے۔ہماری چشم تصور آصفہ بھٹو زرداری کو اگلے عام انتخابات میں پارٹی کیمپین کی قیادت کرتے دیکھ رہی ہے۔ اس وقت تک اس خاموش مگر ذہین بچی کا سیاسی ہی نہیں جسمانی قد کاٹھ بھی اس حد تک ضرور بڑھ چکا ہوگا کہ یہ اپنی شہید والدہ کا خون آلود دوپٹہ اور قمیض زیب تن کر کے لیاقت باغ راولپنڈی سے جوانمردی کا وہی سلسلہ بحال کر لے گی جو 27 دسمبر 2007ء کی شام منقطع ہوا تھا۔
تازہ ترین