• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فِن ٹیک کا تیزی سے معاشی و مالیاتی نظام میں جگہ بنانا

ٹیکنالوجی میں جدت اور ترقی کے باعث ہر شعبے میں اس کا استعمال عام ہوگیا ہے۔ ایسے میں معاشی اور مالیاتی شعبہ اس کے استعمال میں پیچھے نہیں رہ سکتا تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ فنانشل ٹیکنالوجی جسے فِن ٹیک کہاجاتا ہے، متعارف کروائی گئی۔ آئے روز ہمیں فِن ٹیک یا ڈیجیٹل بینکاری کے حوالے سے نت نئی اختراعات و ایجادات کے بارے میں معلوم ہوتا رہتا ہے۔ اس میں بگ ڈیٹا، مصنوعی ذہانت اور بلاک چین ٹیکنالوجیز کے استعمال سے بینکنگ اور انویسٹمنٹ مینجمنٹ انڈسٹری مالیاتی طور پر عالمی اشتراک و تعاون کو چھو رہی ہیں۔ 

فِن ٹیک کسی نئی صنعت کا نام نہیں ہے۔ اس صنعت کی بڑی کمپنیاں 1950ء کی دہائی سے کام کررہی ہیں۔ ان کمپنیوں کی ابتدائی مصنوعات میں اے ٹی ایم، ڈیبٹ اور کریڈٹ کارڈ کے ذریعے ادائیگی کی سہولت شامل تھی۔ ان کمپنیوں کو روایتی فِن ٹیک کا نام دیا گیاہے کیونکہ یہ کمرشل بینکوں کو مصنوعات اور سہولیات فراہم کرتی ہیں۔ انفارمیشن اور کمیونیکیشن ٹیکنالوجیز، جیسا کہ براڈ بینڈ اور وائرلیس انٹرنیٹ کی سہولیات اوراسمارٹ فون ٹیکنالوجی کی ترقی سے کئی فِن ٹیک کمپنیاں سامنے آئی ہیں۔ یہ فِن ٹیک کمپنیاں موجودہ مالی اداروں کو سہولیات فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ خود بھی مالی سہولیات کی فراہمی کے لیے ٹیکنالوجی استعمال کررہی ہیں۔

ڈیٹا کی اہمیت

آج کے دور میں ڈیٹا ایک اہم مالی اثاثہ ہے۔ ڈیٹا اور انالائیٹکس، مالیاتی خدمات کےحوالے سے سرمایہ کاری کے فیصلوں میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک اپنے مالیاتی اداروں کو فنانشل ٹیکنالوجی سے آراستہ کرتے ہوئے اس پر پیشرفت کررہے ہیں۔ آنے والے وقتوں میں بگ ڈیٹا بہت زیادہ حد تک قابل رسائی ہوجائے گا اور اس وجہ سے اس کا زیادہ فائدہ اٹھایا جائےگا۔

آج بہت سارے کاروباری اداروں کے لئے ایک اہم چیلنج اس تمام ڈیٹا کو یکجا کرنا ہے۔ 2018ء میں ڈیٹا لیکس (Data Lakes)اور دیگر مرضی والے اسٹوریج جیسے انوارئمنٹس کی تشکیل اولین ترجیح تھی اور توقع کی گئی تھی کہ اس اہم بِگ ڈیٹا کو زیادہ تر ایسے نظاموں میں رکھا جائے گا جو ان ٹولز کے ذریعہ زیادہ قابل رسائی ہوں گے جو انہیں(جیسے کہ ویژولائزیشن، تجزیہ ، پیشن گوئی والی ماڈلنگ کیلئے) استعمال کریں گے۔ اس سے کاروباری سرگرمیوں کے ہر پہلو کو مکمل طور پر ڈیٹا سے چلانےکے لامحدود امکانات کھل جاتے ہیں۔

آن لائن ادائیگیاں

اس وقت دنیا بھر میں ای کامرس کاروبار زور و شور سے کیا جارہا ہے۔ بہت سی عالمی ای کامرس اور پے منٹ سلوشن کمپنیاں دنیا بھر میں کام اور صارفین کو سہولتیں فراہم کررہی ہیں۔ ہمارے ملک میں بھی رقوم کی ادائیگیاں، منتقلی اور وصولیاںآن لائن کرنے کا رجحان بڑھ گیا ہے، ایسے میں صارف کمپنیوں کو آن لائن ادائیگیوں کا سسٹم متعارف کروانے اور فنانشل مارکیٹس کو ان تبدیلیوں کے مطابق فِن ٹیک اپنانے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہا۔ بینکوں اور موبائل فون آپریٹرز کی جانب سے آن لائن ادائیگیوں کی خدمات نےکئی لحاظ سے لوگوں کو سہولت مہیا کردی ہیں۔ پہلے ٹیلی فون ،بجلی،گیس اور پانی کے بلوں کی ادائیگی کے لیے بینکوں میں قطار لگانی پڑتی تھی لیکن اب یہ سہولت گھر بیٹھے ہی آن لائن حاصل ہوگئی ہے۔ ڈیجیٹل لین آسان ہونے کی وجہ سےزیادہ سے زیادہ لوگ اسے اپناررہے ہیں۔

ڈیجیٹل ادائیگی کے پلیٹ فارمز کی ایک اور اختراعی خوبی یہ ہے کہ ان میں مختلف بینکوں کے اکاؤنٹس کو ایک دوسرے کے ساتھ استعمال کیا جاسکتا ہے۔ دنیا بھر میں فِن ٹیک کمپنیاں صارفین کو ایسی سہولتیں فراہم کرنے میں کوشاں ہیں، جس میں انھیں اپنے بینکوں میں جمع شدہ رقم کو ٹرانسفر کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ یہ کمپنیاں بینکوں کے ساتھ ساتھ نقل و حمل، ریٹیل، اشیاء خوردونوش، تفریح، بجلی، گیس اور ٹیلی فون کی بڑی کمپنیوں کو بطور پارٹنر سائن اَپ کرنے پر کام کررہی ہیں۔ 

ڈیجیٹل ادائیگیوں کو قابل عمل بنانے کے لیے ٹیلی کمیونیکیشنز اور مالی سہولیات کے فراہم کنندگان کے درمیان پائیدار تعاون ضروری ہے۔ ٹیلی کمیونیکیشن کمپنیوں کے پاس مالی سہولیات سے محروم افراد کو سہولت پہنچانے کے لیے انفراسٹرکچر اور ٹیکنالوجی موجود ہے جبکہ مالی سہولیات کے فراہم کنندگان کے پاس ضوابط کا ساتھ ہے۔ 

یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ موبائل فون آپریٹرزپہلے ہی اپنے صارفین کو موبائل نمبرکے ذریعے رقم بھیجنے اور وصول کرنے کی سہولت دیتے آرہے ہیں۔ اس کے علاوہ فِن ٹیک کمپنیاں ڈائریکٹ کیریئر بلنگ کے پلیٹ فارم پر بھی کام کررہی ہیں،جس کے ذریعے صارفین اپنے موبائل فون کے بیلنس سے شریک کاروباری اداروں کو ادائیگیاں کرسکیں گے۔ اس مقصد کے لیے موبائل فون آپریٹرز کو سائن اَپ کیا جارہا ہے۔

کسٹمرسروسز میں فن ٹیک

ترقی پذیر ممالک نے فنانشل ٹیکنالوجی کے بینکاری صنعت میں اطلاق کو قبول کیا، جس کی وجہ سے ان کی آن لائن ٹرانزیکشنز کا تناسب ترقی پذیر ممالک کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔ ان ممالک میں بینکنگ سولوشنز کے لیے فن ٹیک کمپنیوں سے معاہدے کرتے ہوئے لاکھوں کسٹمرز کو انشورنس،کراؤڈ فنڈنگ،ای کامرس اور انویسٹمنٹ سلوشنز مہیا کیے گئے۔ 

کچھ بینکوں نے مستقبل کی لہر کا اندازہ لگاتے ہوئے فن ٹیک کے شعبے میں سرمایہ کاری شروع کی تاکہ بینکاری صنعت کو فنانشل ٹیکنالوجی میں خودکفیل کیا جائے۔ اس شعبے میں مسلسل اصلاحات سے فنانشل سیکٹر جدت کے نئے رنگوں کو زیادہ فعال انداز میں اپنائے گا۔

مصنوعی ذہانت اور مشین لرننگ

فنانس کا مستقبل ڈیجیٹل اور آ ٹونومس یعنی خودکار ہے۔ ڈیٹا ڈرائیون انٹیلی جنٹ سسٹمز نہ صرف استعمال کرنے میں آسان ہیں بلکہ اس سےلاگت میں کمی اورفنانشل ایڈوائس کے معیار میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ مثلاً گولڈ مین ساچے نے مالیاتی مارکیٹوں پر موسم، خبروں اور حقائق کے اثرات پر مصنوعی ذہانت کے ذریعےوسیع مواد اور متن کا جائزہ لیا۔ 2015ء میں سرمایہ کاری کے ضمن میں فیصلہ سازی کے لیے تقریباً40امریکن ہیج فنڈز مصنوعی ذہانت کا استعمال کرتے ہوئے متعارف کروائے گئے۔ اس کامیاب اطلاق کے بعد اس ٹیکنالوجی کو مزید فنڈز کو فعال بنانے کے لیے استعمال کیا گیا۔

پاکستانی معاشرے میں جس طرح انٹرنیٹ اور سماجی ابلاغ اپنی بنیادیں پختہ کررہا ہے، اس کے اثرات زندگی کے ہرشعبے میں دکھائی دے رہے ہیں۔ پاکستان ابھرتی معیشتوں میں شامل ہے، ملک کی فنانشل مارکیٹس میں بہتری اورلوگوں کی دلچسپی اس بات کی غماز ہے۔ چھوٹے اوردرمیانے کاروباروں نے ای کامرس کے ذریعے بین الاقوامی مارکیٹوں میں اپنا لوہا منوا لیا ہے اور کئی اسٹارٹ اَپ کمپنیوں نے ٹیکنالوجی کے استعمال سے یہ ثابت کردیا ہے کہ پاکستان باصلاحیت نوجوانوں کی سرزمین ہے۔ اس وقت فنانشل مارکیٹ میں نت نئے آئیڈیاز متعارف کرانے والوں میں اہم کردار نوجوانوں کا ہے، جنہوں نے ٹیکنالوجی کے ذریعے کاروبار و سرمائےکو جدت سے ہم آہنگ کیا ہے۔

پرائس واٹر ہاؤس کوپرز، جسے عرفِ عام میں PwCکے نام سے جانا جاتا ہے، کی 2016ء میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق فِن ٹیک کے شعبے میں دنیا بھر کے سرمایہ کاروں کی دلچسپی میں اضافہ ہورہا ہے۔ 2014ءمیں فِن ٹیک کی اسٹارٹ اَپ کمپنیوں کی سرمایہ کاری 5.6 ارب ڈالر تھی جو 2015ء میں دگنی ہو کر 12.2 ارب ڈالر ہوگئی۔ تحقیق میں دعویٰ کیا گیا کہ کرنٹ اور سیونگز اکاؤنٹس، غیرتجارتی قرضےاور رقوم کی ٹرانسفر جیسی کمرشل بینکنگ کی سہولیات پر پوری مالی صنعت میں سے سب سے زیادہ اثر فِن ٹیک کا ہی ہوگا۔

برانچ لیس بینکنگ کا مستقبل

بظاہرفِن ٹیک کمپنیوں کابینکوں کے بغیر کوئی مستقبل نظر نہیں آتا ہے۔ اگر فِن ٹیک کمپنیاں ڈیجیٹل والٹ کے استعمال کو فروغ دینے میں کامیاب ہوجائيں تو کمرشل بینکس بھی اسی راہ پر چل پڑیں گے۔ اس طرح، تمام ممالک کی معیشتیں زیادہ تیزی سے کیش کے مکمل خاتمے کی جانب بڑھیں گی لیکن یہ صرف اس وقت ہی ممکن ہوگا جب فِن ٹیک کمپنیاں اور بینکس ایک ساتھ ملک کرکام کریں۔

تازہ ترین