• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ چوبیس فروری 2022کو یوکرین پر روس کے حملے کے تقریبا دوہفتے بعد کی بات ہے۔ لندن کے میٹل ایکسچینج میں آٹھ مارچ کو علی الصباح معمول کے مطابق کاروباری سرگرمیاں جاری تھیں کہ وہاں بھونچال آگیا۔ وہ صبح پونے چھ بجے کا عمل تھا۔ بھونچال کی وجہ ایک عام دھات نِکل(Nickel)کا طوفان کی رفتار سے بڑھتا ہوا نرخ تھا۔

یہ عمل اتنی سرعت سے ہوا کہ لندن میٹل ایکسچینج میں خوف و ہراس پھیل گیا۔اُس روزصرف اٹھارہ منٹ میں اس دھات کانرخ ایک لاکھ ڈالر فی ٹن تک پہنچ گیا تھا جس کی وجہ سے نِکل کے آپریشنز کو روکنا پڑا۔ یاد رہے کہ یہ ریکارڈ ٹوٹنے سے چوبیس گھنٹے قبل نِکل کے نرخ میں دھائی سو فی صد اضافہ ہو چکا تھا۔ یوکرین پر روس کے حملے کے بعد یہ پہلا موقع تھا کہ مارکیٹ میں دھات کا بڑا بحران پیدا ہوا۔

مغربی ممالک کی طرف سے روس پر عائد پابندیوں کے باعث قیمتوں میں اس اضافے سے واضح ہو گیا کہ نِکل جیسی دھات دنیا میں اہمیت اختیار کر گئی ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ دھات ایسی معیشت کے لیے اہم ہے جورکازی اندھن یا فوسل فیول پر کم سے کم انحصار کرنا چاہتی ہے۔ اس واقعے سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر چہ تیل اور گیس آج پوری دنیا میں کئی تنازعات کی وجہ بن چکے ہیں، لیکن آنے والے وقت میں یہ مقابلہ دیگر معدنیات کے لیے بھی ہو سکتا ہے۔

اب آتے ہیں دوسری اور تازہ مثال کی جانب۔ دنیا کی دو بڑی طاقتیں امریکا اور چین ایک بار پھر آمنے سامنے ہیں۔ لیکن اس بار جنگ ہتھیاروں کی نہیں بلکہ ان قیمتی دھاتوں کی ہے جنہیں ریئر ارتھ ایلی مینٹس کہا جاتا ہے۔ چین نے حال ہی میں سات نایاب معدنیات اور ایلی مینٹس کی برآمد پر پابندیاں لگا دی ہیں۔ یہ ایسے اہم قدرتی عناصر ہیں جو جدید دفاعی اور توانائی کی صنعتوں اور گاڑیوں کی ٹیکنالوجی میں استعمال ہوتے ہیں۔ ان میں شامل ہیں سامیریم، گیڈولینیم، ٹربیم، ڈیسپروسیئم، لوٹیٹیم، اسکینڈیئم اور ایٹریئم۔

اس کے ساتھ چین نے امریکا کی سولہ کمپنیز کو اپنی ایکسپورٹ کنٹرول لسٹ میں بھی شامل کر دیا ہے جن میں سے زیادہ تر کا تعلق دفاع اور ایرو اسپیس سے ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ یہ کمپنیز اب چین سے وہ معدنیات نہیں خرید سکیں گی جنہیں دہری استعمال کی اشیاء میں شمار کیا جاتا ہے۔

واشنگٹن میں قائم سینٹر فار اسٹریٹیجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز (CSIS) نے خبردار کیا ہے کہ اگر چین ان معدنیات کی برآمد روک دیتا ہے تو امریکا کے پاس فوری طور پر اس خلا کو پُر کرنے کا کوئی متبادل نہیں ہوگا۔ ادارے نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ یہ صورت حال نہ صرف امریکا کی فوجی تیاریوں کو متاثر کرے گی بلکہ چین کے مقابلے میں اس کی دفاعی ٹیکنالوجی کی رفتار کو بھی سست کر دے گی۔

یہ دو مثالیں یہاں درج کرنے کا مقصد جدید دنیا میں معدنیات کی اہمیت کو واضح کرنا ہے۔

ہم کہاں کھڑے ہیں

ہم اس کھیل میں ابھی کہیں بھی نہیں کھڑے ہیں ، حالاں کہ ہم اس کے بہت اہم کھلاڑی بن سکتے ہیں ۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ اب ہمیں اس کھیل میں اپنی اہمیت کا کچھ احساس ہوا ہے۔ دو روزہ پاکستان منرلز انویسٹمنٹ فورم 2025، جو 8 اور 9 اپریل کو اسلام آباد میں منعقد ہوا، ایک ایسے وژن پر اختتام پذیر ہوا جس کا مقصد پاکستان کے پوشیدہ معدنی وسائل کو کھربوں ڈالرز کی معیشت میں تبدیل کرنا ہے۔ 

اس موقعے پر سرمایہ کاروں کو مکمل تحفظ فراہم کرنے کے عزم کا اظہار کیا گیا اور تعاون کی کچھ مفاہمتی یادداشتوں پر دست خط بھی کیے گئے۔ اس منصوبے میں چاروں صوبوں، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں کان کنی اور معدنی سرمایہ کاری کے مواقع کو فروغ دینے کے لیے ایک بنیادی فریم ورک پیش کیا گیا ہے۔

پی ایم آئی ایف25 کو پاکستان کے ابھرتے ہوئے معدنیات کے شعبے میں سرمایہ کاری کے مواقعے تلاش کرنے اور ملک کے وسیع معدنی امکانات اجاگر کرنے سے متعلق عالمی اسٹیک ہولڈرز کے لیے ایک اہم پلیٹ فارم کے طور پر مخصوص کیا گیا ہے۔ اس موقعے پر وزیر اعظم شہباز شریف نے ملک بھر میں کان کنی کے امکانات پر روشنی ڈالی اور ایک پالیسی فریم ورک پیش کیا اور کہا کہ ہمیں اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ مستقبل میں ممکنہ سرمایہ کاروں کو جو بھی اجازت دی جائے، ہم خام مال کو پاکستان سے باہر نہیں جانے دیں گے۔

ان کا کہنا تھاکہ آج سے ہمیں ایک جامع پالیسی اپنانا ہوگی جس کے تحت سرمایہ کار خام مال کی کان کنی کریں، نچلی سطح کی صنعت قائم کریں، اس خام مال کو تیار شدہ مصنوعات میں تبدیل کریں اور پھر ان مصنوعات کو برآمد کریں۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح کے معاہدوں میں سرمایہ کار ٹیکنالوجی لائیں گے اور اسے وقت کے ساتھ پاکستان منتقل کریں گے۔

ماضی قریب میں ہونے والی کان کنی اور معدنیات کی تلاش سے متعلق کانفرنسز کے برعکس، جو کوئی ٹھوس نتائج نہیں دے سکیں، پی ایم آئی ایف 25 نے پاکستان کی اہم معدنیات میں امریکی حکومت کی اسٹریٹجک دل چسپی کی وجہ سے نمایاں اہمیت حاصل کر لی ہے۔ 

اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے کی جانب سے جاری کردہ بیان کے مطابق امریکی محکمہ خارجہ کے جنوبی اور وسطی ایشیائی امور کے بیورو کے ایک سینئر اہل کار ایرک میئر، جنہوں نے 8 سے 9 اپریل تک پاکستان کا دورہ کیا، نے کہا کہ صدر ٹرمپ نے یہ واضح کر دیا ہے کہ ان مواد کے متنوع اور قابل اعتماد ذرائع کو محفوظ کرنا ایک اسٹریٹجک ترجیح ہے۔

ایرک میئر کے دورے کا مقصد پاکستان کے اہم معدنی وسائل کے شعبے میں امریکی مفادات کو فروغ دینا، امریکی کاروباروں کے لیے مواقعے پیدا کرنا، اقتصادی تعلقات کو مضبوط بنانا اور انسدادِ دہشت گردی تعاون کی مسلسل ضرورت کو اجاگر کرنا تھا۔ میئر نے پاکستان منرلز انویسٹمنٹ فورم کے دوران پاکستان کے معدنی شعبے میں سرمایہ کاری کی حمایت کی۔ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ اہم معدنیات ہماری جدید ترین ٹیکنالوجیز کے لیے بنیادی خام مال ہیں۔

دیگر ممالک بھی امریکی سرمایہ کاری کے خواہش مند ہیں۔ ازبکستان، جو قدرتی وسائل سے مالا مال ہے، نے اس ہفتے اعلان کیا ہے کہ اس نے امریکی کمپنیوں کے ساتھ معدنی شعبے میں سرمایہ کاری کے معاہدے کیے ہیں کیوں کہ ان اشیاء کی عالمی مانگ میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس سے قبل یوکرین نے بھی امریکا کے ساتھ ایک معاہدہ کیا تھا تاکہ اپنے وسیع معدنی وسائل پیش کر سکے۔

چھ کھرب ڈالرز کے معدنی خزانے

پاکستان منرل ڈیولپمنٹ کارپوریشن نے 2023 میں دعویٰ کیا تھا کہ ملک کے ناہم وار علاقوں میں 6 ٹریلین ڈالرز مالیت کے معدنی ذخائر موجود ہیں، جہاں قدیم پہاڑ اور تپتے ہوئے صحرا گزرے ہوئے زمانوں اور انسانی بقا کی جدوجہد کی کہانیاں سناتے ہیں۔ 14 ستمبر 2023 کو کنیکٹی کٹ سے تعلق رکھنے والے امریکی ریاستی سینیٹرز اور نمائندوں کے ایک گروپ سے ملاقات کے دوران امریکا میں پاکستان کے سفیر مسعود خان نے بھی ان اعداد و شمار کا حوالہ دیاتھا۔ حال ہی میں اسلام آباد میں منعقدہ پاکستان منرلز انویسٹمنٹ فورم 2025 میں ٹورنٹو میں قائم بیرک گولڈ کارپوریشن کے سی ای او مارک برسٹو نے بھی حوصلہ افزا خیالات کا اظہار کیا۔

جہاں حکومت ملک کے وافر لیکن بڑی حد تک غیر استعمال شدہ قدرتی وسائل میں سرمایہ کاری کے لیے سرمایہ کاروں کو راغب کر رہی ہے۔ سونے اور تانبے کی پیداوار کرنے والی کان کنی کی کمپنی بیرک گولڈ کارپوریشن کے سی ای او، جس کے 13 ممالک میں 16 فعال مقامات ہیں، نے انکشاف کیا کہ بلوچستان میں ریکوڈک کی کانوں میں 15 ملین ٹن تانبا اور 26 ملین اونس سونا موجود ہے۔ 2024 میں مکمل ہونے والی ایک فزیبلٹی رپورٹ کا اشتراک کرتے ہوئے مارک برسٹو نے زور دیا کہ اس منصوبے کی پہلی پیداوار 2028میں شروع ہوگی جس کا سالانہ ہدف 2 لاکھ 40ہزار ٹن تانبا اور3لاکھ اونس سونا ہوگا اور دوسرے مرحلے کا مقصد پیداوار کو 4 لاکھ ٹن تانبے اور 5 لاکھ اونس سونے تک بڑھانا ہوگا۔

پاکستان منرل انویسمنٹ فورم میں وزیراعظم شہبازشریف نے مقامی اور بین الاقوامی سرمایہ کاروں پر زور دیا ہے کہ وہ پاکستان کے وافر معدنی وسائل سے فائدہ اٹھانے کے اس موقع کو ضائع نہ کریں، اس سے ملک کا عالمی مالیاتی اداروں، خصوصاً آئی ایم ایف، پر انحصار نمایاں حد تک کم ہوسکتا ہے۔وزیر اعظم نے کہاکہ یہ کوئی راز نہیں ہے۔ ان ذخائر کی مالیت کھربوں ڈالر ز میں ہے اور یہ عوامی سطح پر مشہور ہیں۔

اگر ہم ان وسائل سے فائدہ اٹھا سکیں تو پاکستان آئی ایم ایف جیسے اداروں پر انحصار سے دور اور قرضوں کے بوجھ اور قرضوں کی بھاری لاگت کو ختم کر سکے گا۔ اپنے افتتاحی کلمات میں نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار، جو وزیر خارجہ بھی ہیں، نے کان کنی کا عالمی پاور ہاؤس بننے کے لیے پاکستان کی تزویراتی پوزیشن پر زور دیتے ہوئے ملک کے وسیع اور بڑے پیمانے پر غیر استعمال شدہ ذخائر کی طرف اشارہ کیا، جس میں ریکوڈک اور نایاب زمینی عناصر، صنعتی معدنیات اور قیمتی پتھروں جیسے پیریڈوٹ اور زمرد شامل ہیں۔

فورم میں اسحاق ڈار نے نیشنل منرلز ہارمونائزیشن فریم ورک 2025 کی نقاب کشائی کی، جو سرمایہ کاری کو راغب کرنے اور ایک ایسے شعبے میں پالیسیوں کو ہم وار کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے جو اس وقت پاکستان کی جی ڈی پی کا صرف 3.2 فی صدہے۔ انہوں نے کہاکہ معدنیات کا شعبہ ہماری معیشت، سپلائی چین اور ایکسپورٹ پروفائل کو نئی شکل دینے کی صلاحیت رکھتا ہے، حکومت مقامی اور غیر ملکی اسٹیک ہولڈرز دونوں کی مدد کے لیے ایک مضبوط ماحولیاتی نظام کی بنیاد رکھ رہی ہے۔

پاکستان منرل ڈیولپمنٹ کارپوریشن کے مطابق ملک کے ناہم وار علاقوں یعنی پہاڑی علاقوں میں چھ ہزار ارب ڈالرز مالیت کے معدنی ذخائر موجود ہیں۔ حال ہی میں سامنے آنے والی ایک میڈیا رپورٹ کے مطابق پاکستان کے معدنی وسائل تقریباً چھ لاکھ مربع کلومیٹرز پر محیط ہیں اور ملک میں 92معدنیات کی نشان دہی ہو چکی ہے جن میں سے 52تجارتی پیمانے پر نکالی جا سکتی ہیں‘ اور سالانہ اندازاً 68.52ملین میٹرک ٹن معدنیات حاصل کی جا رہی ہیں۔

یہ شعبہ پانچ ہزار سے زائد فعال کانوں، 50ہزار چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری اداروں کو سہولت اور تین لاکھ افراد کو روزگار بھی مہیا کرتا ہے۔ اگر غیرملکی تعاون سے معدنیات نکالنے کے عمل کو تیز کر لیا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ جلد ہی پاکستان ملکی و غیر ملکی قرضوں سے نجات نہ حاصل کر لے اور غذائی خود کفالت کی منزل نہ پا لے اور جی ڈی پی اور فی کس آمدنی میں واضح اضافوں کے ساتھ ترقی پذیر کی کیٹیگری سے نکل کر ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل نہ ہو جائے۔ لیکن یہ منزل حاصل کرنے کے لیے ہمیں مسلسل کوشش کرنا ہوگی۔

عام دھاتیں جو تیل کی مانند فائدہ دے سکتی ہیں 

بلوچستان میں حال ہی میں اینٹیمنی کے بڑے ذخائر دریافت ہوئے ہیں، یہ آئل اینڈ گیس ڈیولپمنٹ کمپنی لمیٹڈ (او جی ڈی سی ایل) اور پاکستان منرل ڈویلپمنٹ کارپوریشن (پی ایم ڈی سی) کا جامع تجارتی منصوبہ ہے۔ یہ او جی ڈی سی ایل اور پی ایم ڈی سی کی برابر شراکت داری کا مشترکہ منصوبہ ہے۔اسی دوران او جی ڈی سی ایل کو گلگت بلتستان میں 10 معدنی بلاکس کے حصول میں پیش رفت سامنے آئی ہے جس میں سونا، تانبہ، نکل اور کوبالٹ کے ذخائر کی تصدیق کی گئی ہے۔

خوش قسمتی سے اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو قدرتی گیس کی کمی کو پورا کرنے کیلئے شیل گیس کے کم از کم 51 سے 100 ٹریلین مکعب فٹ کے ذخائر عطا کیے ہیں اور اس طرح پاکستان دنیا میں شیل گیس کے ذخائر رکھنے والا 17 واں بڑا ملک ہے اور شیل گیس کے حصول سے پاکستان میں آئندہ 5 سے 10 سالوں میں ہماری مجموعی گیس کی پیداوار 4 گنا بڑھ سکتی ہے جو ہماری طلب کو پورا کرنے کیلئے کافی ہے۔

اسی طرح پاکستان قیمتی پتھر کے ذخائر سے مالامال پانچواں بڑا ملک ہے۔لیکن معدنیات کا مجموعی ملکی پیداوار میں حصہ صرف تین فی صد ہے۔ ماہرین کے مطابق ہم غیرروایتی شعبوں کو ترقی دے کر ایکسپورٹ کے اہداف کو پورا کرسکتے ہیں۔ لیکن اس کے لیے ہمیں اسٹرٹیجک ٹریڈ فریم ورک پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔

بلوچستان میں واقع، ہامونِ ماشکیل جو 5000 مربع کلومیٹر پر محیط ایک سیاحتی مقام ہے، لیتھیم اور دیگر قیمتی معدنیات کا ایک خزانہ ہے جو بھاری زرمبادلہ کمانے اور معیشت کو بہتر بنانے کے لیے توجہ کا متقاضی ہے۔ ڈاکٹر یاسر شاہین خلیل، اسسٹنٹ ڈائریکٹر جیولوجیکل سروے آف پاکستان کے مطابق یہ سالٹ لیک ہے۔ جو سوکھ چکی ہے۔ پانی کے بخارات بننے کے بعد، نمک سطح پر رہتا ہے جبکہ اضافی پانی زمین میں داخل ہو جاتا ہے۔ 

اس جھیل کا زیر زمین پانی بہت زیادہ نمکین ہے جس کی وجہ سے بہت سے اہم معدنی اجزابہ شمول سوڈیم کلورائیڈ، پوٹاشیم کلورائیڈ، میگنیشیم کلورائیڈ، لیتھیم، جپسم اور نمک بہت زیادہ مقدار میں مرتکز ہو چکے ہیں۔ لیتھیم ان معدنیات میں سب سے اہم ہے، جو زیادہ ترجدید بیٹریز بنانے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

اسی طرح بلوچستان کے ضلع چاغی میں سیندک کان پاکستان کے لیے ایک خزانہ ثابت ہونے جا رہی ہے کیوںکہ اس میں تانبا، سونا، مولبڈینم جیسی قیمتی دھاتیں موجود ہیں۔ یہ تحصیل نوکنڈی میں مشکی چاہ اور دربان چاہ کے دور دراز اور پانی کی کمی والے دیہات کے درمیان واقع ہے۔

خیال کیا جاتا ہے کہ پاکستان میں مختلف نایاب اور کم یاب معدنیات کے ذخائر خاص طور پر بلوچستان، قراقرم اور شمالی علاقہ جات جیسے علاقوں میں موجود ہیں۔ اس خطے کے کچھ علاقوں میں ریئر ارتھ منرلزکے ذخائر بھی شامل ہوسکتے ہیں حالاں کہ تفصیلی تشخیص کے لیے مزید ارضیاتی سروے اور تلاش کی ضرورت ہے۔

ریئر ارتھ منرلز، جنہیں اکثر ریئر ارتھ ایلی مینٹس (آر ای ای ایز) کہا جاتا ہے 17کیمیائی عناصر پر مشتمل ایک گروہ ہے۔ یہ گروہ 15 لینتھنائیڈز، اسکینڈیم اور ایٹریئم پر مشتمل ہوتا ہے، جنہیں مجموعی طور پر ریئر ارتھ ایلی مینٹس کہا جاتا ہے۔ یہ17دھاتی عناصر کا ایک گروہ ہیں جو کیمیائی خصوصیات میں مماثلت رکھتے ہیں اور اکثر کانوں کے ذخائر میں ایک ساتھ پائے جاتے ہیں۔ لینتھنائیڈز پیریاڈک ٹیبل کے عناصر 57 سے 71 تک ہیں جبکہ اسکینڈیم اور ایٹریئم بھی اس گروہ میں شامل ہیں۔ یہ عناصر مختلف جدید ٹیکنالوجیز کے لیے ضروری ہوتے ہیں جن میں الیکٹرانکس، قابل تجدید توانائی اور دفاعی سامان شامل ہیں۔

متبادل توانائی کے لیے ماہرین دنیا میں کم از کم 17 معدنیات کو اہم سمجھتے ہیں۔ اس لیے جن ممالک کے پاس ان معدنیات کو نکالنے اور پراسیس کرنے کی صلاحیت ہے وہ زیادہ فائدہ اٹھانے والے ہیں۔ بین الاقوامی توانائی ایجنسی کا اندازہ ہے کہ ان17معدنیات میں سب سے اہم رئیر ارتھ،لیتھیم ، نکل، کوبالٹ، تانبا، اورگریفائٹ ہیں۔

بین الاقوامی توانائی ایجنسی کے ماہر تائی یون کم کا کہنا ہے کہ 2040 تک ان معدنیات کی مانگ میں تیزی سے اضافہ ہوگا۔ یہ اندازہ لگانے کے لیے کہ کون سی اقوام توانائی کی منتقلی سے سب سے زیادہ مستفید ہو سکتی ہیں، ماہرین معدنیات کو نکالنے اور پروسیسنگ کرنے والے ممالک کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں۔

آج یہ واضح ہے کہ دنیا ایک نازک موڑ پر ہے۔ جہاں تیل نے 20ویں صدی کی تاریخ میں اہم کردار ادا کیا ہے، وہیں 21ویں صدی کی تاریخ میں متبادل توانائی کے لیے معدنیات اہم کردار ادا کریں گی۔ تحقیق کے مطابق رئیر ارتھ کے علاوہ چار اہم ترین دھاتیں نکل، کوبالٹ، لیتھیم اور کاپر ہیں۔ ان کی قیمتیں تاریخی طور پر لمبے عرصے تک بڑھتی رہیں گی اور یہ کوئی عام اضافہ نہیں ہوگا کہ بین الاقوامی منڈی میں قیمت چند دن بڑھے اور پھر کم ہو جائے۔صرف یہ چار دھاتیں پیدا کرنے والے ملک اگلے 20 سالوں میں تیل کے شعبے کے برابر آمدنی کما سکتے ہیں۔

جرمن انسٹی ٹیوٹ فار اکنامک ریسرچ کے محقق لوکاس بوئر کہتے ہیں کہ یہ دھاتیں ایک طرح سےنیا تیل ہو سکتی ہیں اور چین دوسرے ممالک میں سرمایہ کاری کرکے سب سے بڑا کھلاڑی بن گیا ہے، جیسا کہ اس نے کوبالٹ پیدا کرنے والے کانگو میں سرمایہ کاری کی ہے۔

اگرچہ الیکٹرک بیٹریوں میں دھات کی ضرورت ہوتی ہے، لیکن یہ صنعتی سرگرمیوں کے لیے کئی قسم کی توانائی کو ذخیرہ کرنے میں بھی اہم ہیں۔ لوکاس بوئر کا کہنا ہے کہ اگر ان دھاتوں کی سپلائی طلب سے مطابقت نہیں رکھتی تو ان کی قیمتیں آسمان کو چھو جائیں گی۔ اس حوالے سے ایک اہم عنصر ان دھاتوں کو نکالنے کا عمل ہے۔ 

درحقیقت ان دھاتوں کو نکالنے کے لیے شروع کیے گئے کان کنی کے منصوبوں میں ایک دہائی (اوسطاً 16 سال) لگتے ہیں۔ اس لیے آنے والے دنوں میں ان دھاتوں کی مزید قلت ہو سکتی ہے۔ یاد رہے کہ کم یاب معدنیات جنھیں ریئر ارتھ کے طور پر جانا جاتا ہے ان کی نوے فی صد سے زیادہ مقدار صرف چین میں پائی جاتی ہے۔ یہ معدنیات بجلی سے چلنے والی کاروں، موبائل فون جیسی مصنوعات کی تیاری میں انتہائی اہمیت رکھتی ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ تقریبا چھہ برس قبل امریکاکے جیالوجیکل سروے نے ان معدنیات کو ملکی دفاع اور ملکی معیشت کے لیےانتہائی ضروری قرار دیا تھا۔

ریئر ارتھ معدنیات مختلف صنعتی شعبوں میں استعمال ہوتی ہیں جن میں دوبارہ قابل استعمال ہونے والی ٹیکنالوجی، آئل ریفائنری، الیکٹرانکس اور شیشے کی صنعت شامل ہیں۔ یہ معدنیات اسمارٹ فون، کمپیوٹر، طبی اور دفاعی سامان سمیت کئی دیگر کئی اشیا کی تیاری میں بھی استعمال ہوتی ہیں۔ ان میں اسکینڈیئم، ایٹریئم، لانتھانم، سیریئم، پراسیوڈائمیئم، نیوڈیئم، پرومیتھیئم، سماریئم، یوروپیئم، گاڈولینیئم، ٹیربیئم، ڈسپروسیئم، ہولمیئم، اربیئم، تھولیئم، یٹیربیئم اور لٹیٹیئم نامی معدنیات شامل ہیں۔

کہنے کو تو انہیں کم یاب کہا جاتا ہے لیکن امریکا کے جیالوجیکل سروے کے مطابق یہ زمین کی پرت میں وافر مقدار میں پائی جاتی ہیں لیکن دنیا میں صرف چند جگہیں ہیں جہاں انہیں نکالا جاتا ہے۔ ان معدنیات کو نہ صرف نکالنا مشکل ہے بلکہ وہ ماحول کی خرابی کا بھی سبب بنتی ہیں۔

ان کم یاب معدنیات کی 70 فی صد مقدار صرف چین میں پائی جاتی ہے۔ چین کے علاوہ میانمار، آسٹریلیا، امریکاکے علاوہ چند اور ممالک صرف تھوڑی سی مقدار نکالتے ہیں۔ چین کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پچھلے پانچ برسوں میں کم یاب معدنیات کی برآمد میں دوگنا اضافہ ہوا ہے۔ انہیں نایاب اس لیے کہا جاتا ہے کیوں کہ ان کا خالص حالت میں ملنا بہت غیرمعمولی سمجھا جاتا ہے تاہم دنیا بھر میں ان کے ذخائر موجود ہیں۔

پاکستان دھاتی اور غیر دھاتی معدنیات کے وسیع ذخائر سے مالا مال ہے۔ مشہور دھاتوں، غیردھاتی اشیاء اور معدنی ذخائر میں نِکل، اینٹی منی، کرومیم، تانبا، لیڈ، زنک، مینگنیز، لوہا، لیٹرائیٹ، بیرائیٹ، بنٹو نائٹ، چائناکلے، کوئلہ، گریفائیٹ، نمک، میگنیسائٹ، نیفلین سانائٹ، گندھک، جپسم، لائم اسٹون اور فائر کلے شامل ہیں۔ اس کے علاوہ بھی پاکستان میں کئی معدنیات پائی جاتی ہیں مگر ان کا بھی صحیح طرح اندازہ نہیں لگایا جا سکا ہے۔

پاکستان معدنیات کو مختلف اقسام میں تقسیم کرتا ہے۔ اسٹریٹجک منرلز میں تانبا، سونا، لیتھیئم، ریئر ارتھ منرلز اور کرومائٹ شامل ہیں، جو الیکٹرانکس، دفاع اور گرین ٹیکنالوجی میں استعمال ہوتے ہیں اور یہ قومی سلامتی اور بین الاقوامی سرمایہ کاری کے لیے نہایت کشش رکھتے ہیں۔ انرجی منرلز جیسے کوئلہ اور یورینیم توانائی اور جوہری پروگراموں کے لیے اہم ہیں۔

صنعتی منرلز جیسے نمک، چونا پتھر، جپسم اور بیراٹ تعمیرات اور زراعت میں استعمال ہوتے ہیں۔ قیمتی پتھر اگرچہ حجم میں کم مگر قدر میں بلند اور ایکسپورٹ آمدنی کے لحاظ سے اہم ہیں۔ اب چاغی اور خضدار میں لیتھیم اور ریئر ارتھ منرلز کی موجودگی کا بھی پت چلا ہے جنھیں حکومت بڑی اسٹریٹجک معدنیات سمجھتی ہے۔ یہ ذخائر بلا لشبہ ہماری قسمت بدل سکتے ہیں۔

تازہ ترین