• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

20 اپریل 2011کو منصورہ پہنچ کر امیر جماعت مرحوم سید منور حسن کی خدمت میں حاضر ہوا۔ ملاقات کا اہتمام پروفیسر طیب گلزار صاحب نے کیا تھا۔ اس وقت میں ایک برطانوی پبلشنگ ادارے کی جانب سے پاکستانی کرکٹ پر مشہور برطانوی صحافی اور مصنف پیٹر اوبورن کی طرف سے کتاب لکھنے کے پروجیکٹ کیلئے ریسرچر کے طور پر کام کررہا تھا۔ امیر جماعت کے بارے میں چونکہ مشہور تھا کہ وہ نہ صرف کرکٹ کے شیدائی ہیں بلکہ ایک اچھے کھلاڑی بھی رہے ہیں اس لئے میں نے ان سے اس حوالے سے انٹرویو کی گزارش کی تھی۔ یہ انٹرویو اوبورن کی کتاب کا حصہ نہیں بن سکا مگر مرحوم منور حسن صاحب کے دیگر انٹرویوز کے مقابلے میں یہ کافی منفرد ہے۔

س:پاکستانی کرکٹ میں آپ کس چیز سے متاثر ہیں؟

ج: ہماری کرکٹ کافی منفرد ہے۔ یہ ہمیشہ توانا احساسات، جذبات اور قومی جوش و خروش سے بھرپور ہوتی ہے۔ پاکستان نے دنیا کی تمام ٹیموں کو شکست دی ہے اور یہ ایک انتہائی فرحت بخش اور اعلیٰ احساس ہے۔

س:آپ نے کب اس کھیل میں حصہ لینا شروع کیا؟

ج:پہلے ہی دن سے۔ میں نے اپنی گریجویشن تک کرکٹ کھیلی اور یونیورسٹی سطح پر بیڈمنٹن بھی کھیلی۔

میری ذاتی دلچسپی سے قطع نظر ہم نے اس کھیل کو نوجوانوں سے تعلقات بنانے کیلئے ایک وسیلہ بنایا۔ مارشل لاکی وجہ سے ہماری طالب علمی کے زمانے میں اسلامی جمعیت طلبا پر پابندی تھی اس لئے ہم نے کرکٹ اور بیڈمنٹن کے توسط سے نوجوانوں کو اسلامی خطوط پر منظم کرنے کی کوشش کی اور ہم اپنے مقاصد کے حصول میں کافی حد تک کامیاب رہے۔

س:کرکٹ کے ساتھ اب جماعت کا تعلق کس نوعیت کا ہے؟

ج:اس کے بعد ہم نے اس سے کچھ خاص استفادہ نہیں کیا۔ اس کی بنیادی وجہ سرمائے اور وقت دونوں کی کمی ہے۔ شاید اب اس کے بارے میں سوچا جاسکتا ہے کیونکہ ٹوئنٹی ٹوئنٹی فارمیٹ کافی جامع ہے۔

س:کیا آپ اس کھیل کو ڈائیلاگ اور ڈپلومیسی کیلئے وسیلہ سمجھتے ہیں؟ حال ہی میں بھارت کے شہر موہالی میں پاک بھارت کرکٹ میچ کے تناظر میں 'کرکٹ ڈپلومیسی کی باتیں کی گئیں۔

ج:اس طرح کی اصطلاح کا استعمال افسوسناک ہے اور یہ کھیل اور اس کی روح کو بدنام کرنے کے منافی ہے کیونکہ اس طرح کے ہتھکنڈوں کے ذریعے اصل مسائل سے توجہ ہٹانے کی غیر ذمہ دارانہ کوششیں کی جارہی ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اصل مسئلے کشمیر پر تو بالکل ہی بات نہیں کی جارہی۔

س:آپ کے خیال میں کرکٹ کو کیوں استعمال کیا جارہا ہے؟

ج:کیونکہ اس خطے میں کرکٹ ایک انتہائی مقبول کھیل ہے۔ اس لئے بھارت اپنے عزائم کی تکمیل کیلئے اس کا استعمال کررہا ہے۔ اسے پورا یقین ہے کہ اسے کشمیر کے بارے میں کوئی سنجیدہ گفتگو کرنے کی ضرورت نہیں ہے اس لئے وہ کرکٹ کا استعمال کرکے کشمیر کے بارے میں پاکستانی رائے عامہ کو مسخر کررہا ہے۔

س:پاکستان کیلئے کرکٹ کی کیا حیثیت ہے؟

ج:کرکٹ کا کھیل پاکستان اور اس کی نظریاتی اساس کی حمایت میں سودمند ہوسکتا ہے۔ مثلاـ’’ جب پاکستان کی جیت ہوتی ہے تو پوری قوم بارگاہِ ایزدی میں سجدہ شکر بجا لاتی ہے۔ یہی طریقہ کار ہماری ٹیم میں بھی ہے۔ وہ اپنی پریکٹس کے دوران بھی عبادت گزار رہتی ہے جیسا کہ موہالی میں دیکھنے میں آیا۔ اگرچہ ہندو شدت پسندوں کو یہ ادا پسند نہیں آئی۔

س:پاکستانی ٹیم میں اس اچانک مذہبی جذبے کے ظہور میں کیا وجوہات کارفرما ہیں؟

ج:پوری مسلم دنیا میں مذہب اور اس کے ارکان کے ساتھ وابستگی بڑھ رہی ہے جس کی جھلک ہمیں پاکستانی ٹیم میں بھی نظر آتی ہے۔ اس کے علاوہ کچھ تاریخ ساز لمحات بھی اس میں اضافے کا باعث بن جاتے ہیں جیسا کہ نائن الیون کے بعد دیکھنے میں آیا ہے۔

س:بھارت کے ساتھ حالیہ سیمی فائنل کے بعد کئی پاکستانی تجزیہ کاروں نے عندیہ دیا کہ کرکٹ نے پاکستانی قوم کو متحد کردیا اور باہمی ملی جذبات کو مستحکم کیا۔

ج:کرکٹ کے مثبت سماجی پہلوؤں کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا مگر ہمارے پاس اس سے بھی اہم اور مضبوط مشترکہ اقدار ہیں جو ہمیں مستقل طور پر متحد رکھے ہوئے ہیں۔ مثلاً جہاد کا معاملہ پوری دنیا کے مسلمانوں کو متحد کرتا ہے۔ اسی طرح شریعت کا نفاذ تمام مسلم معاشروں کو آپس میں جوڑتا ہے۔ حال ہی میں ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موضوع پر لاکھوں پاکستانی جمع ہو گئے۔

س:پاکستان میں کرکٹ کا کیا مستقبل دیکھ رہے ہیں؟

ج:اِن شاء ﷲ مستقبل تابناک ہے۔ پوری دنیا میں پاکستانی ٹیم کا کوئی جوڑ نہیں ہے۔

س:کیا آپ کے بچے کرکٹ کھیلتے ہیں؟

ج:جی وہ کھیلتے ہیں۔ (مسکراتے ہوئے) حال ہی میں میرے بیٹے نے ایک مقامی میچ میں اکتیس گیندوں پر 72رنز بنائے۔

تازہ ترین