• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مختلف النوع بحرانوں میں جکڑے پاکستانیوں کے آئی ایم ایف کے 5ارب 30کروڑ ڈالر قرض میں مزید جکڑنے کی منحوس خبر کے بعد ، ماشاء اللہ چین سے فروٹ سے بھری ٹوکری بلکہ ٹوکرے کی خبر آئی ہے ۔ بجٹ کو عوام کیلئے مہنگائی بم کے طور پر پیش کر نیوالے وزیر خزانہ کتنا ہی یقین دلائیں کہ” پاکستان نے آئی ایم ایف کا قرضہ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنی شرائط پر لیا ہے“ اس پر کوئی انفارمیشن رچ اور صاحب الرائے پاکستانی تو کیا گلی محلے میں لوڈشیڈنگ اور دال دلیے کے نرخ سے ستایا ووٹر بھی ہنسی نہ روک سکا ۔ چلیں ڈار صاحب نے کسی طرح پریشان لوگوں کو بھی ہنسایا تو سہی ۔ اقتصادیات کے پاکستانی بابے کھو ل کھول کر یہ تجزیے پیش کر رہے ہیں کہ مراعات یافتہ اور ٹیکس فری طبقے سے بھی عوام کی طرح ، جتنا بنتا ہے اتنا ٹیکس لے کر ، ٹیکس نیٹ بڑھا کر اور بجلی چوری کے فوری اور موٴثر اقدامات کر کے آئی ایم ایف کی نئی جکڑ بندی سے بچا جاسکتا تھا۔ اس ضمن میں بہت کچھ آ رہا ہے۔ تازہ ترین چبھتے اور اہم سوالوں کی بوچھاڑ ماہر اقتصادیات ، ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی نے جنگ میں اپنے 4جولائی کے کالم ”جناب وزیر اعظم سے ایک سوال“میں کی ہے ۔ وزیر اعظم کی جانب سے نہ سہی ، ڈاکٹر صاحب کے اٹھائے گئے سوال حکومتی ترجمان کی طرف سے فوری رسپانس کے متقاضی ہیں ورنہ الخاموشی نیم رضا کے معنی آج بھی وہی ہیں جو کل تھے ۔ صاحبان فکر و نظر اور ماہرین کے ایسے اٹھائے گئے سنجیدہ سوالات پر بھی اگر حکومت چپ سادھے رہتی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ عوامی مال سے بننے اورچلنے والی وزارت اطلاعات کا کر دار ، گورے آمروں اور نااہل سول حکمرانوں کے ادوار سے ایک انچ بھی ادھر ادھر نہیں ہوا۔ وزارت عوام کو کچھ نہیں سمجھتی ، اب بھی فقط حکومتی بھوو نپو کا بھوونپو ہی ہے ۔ اور حکومت کی خاموشی معنی خیز ۔
وزیر اعظم نواز شریف کے جاری دورہ چین کے حوالے سے پاکستان کے لیے جس فروٹ باسکٹ کی تیاری کی خبریں آئی ہیں ، وہ بہت حوصلہ افزا ہیں ۔ پوری ہونے والی کرپشن آلود پنج سالہ اقتدار کی باری اور نئی باری کے واضح فرق کا بھی پتہ دیتی ہیں ۔ وزیر اعظم کے دور ے پر پھلوں کی جو ٹوکری ہمارے عظیم اور آزمودہ دوست چین نے تیار کی ہے ، اس کے ایک ایک پھل کی ( مراعات یافتہ طبقے کو چھوڑ کر ) جاں بلب ایک ایک پاکستانی کو ضرورت ہے جو مل کر کل آبادی کا 97فیصد ہے ۔ اطمینا ن بخش امر یہ ہے کہ چینی فروٹ باسکٹ صرف ہمارے لیے ہی نہیں خود ہمارے چینی دوست بھی آنے والے وقت میں اس سے خوب لطف اندوز ہوں گے ۔ گویا باہمی مفاد کی بنیاد پرجو پیکیج ڈیل چین کے ساتھ ہوئی وہ مستقبل قریب اور بعید کے گہرے دو طرفہ مفادات پوری ہونے کی نشاندہی کرتی ہے ۔ یوں جناب نواز شریف کا دورہ بہت فروٹ فل ہے ، جس کا ہر فروٹ پاکستان اور چین کو نئی توانائی عطا کر ے گا ۔ بہت خوش آئند بات یہ ہے کہ چینی کمپنیاں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری پر آمادہ ہو گئی ہیں ۔ اس کو محفوظ اور ورتھ بنانانواز شریف حکومت کا بڑا چیلنج ہے ۔ گوادرتا کاشغر ریل اور سڑک، 2ہزار میگا واٹ بجلی کا پلانٹ ، راولپنڈی تاخنجراب آپٹک سسٹم ، راہداری کے لیے 200کلومیٹر طویل سرنگوں کی تعمیر ، گوادر میں عالمی معیار کے ایئر پورٹ کی تیاری ، پنجاب میں شمسی توانائی کا منصوبہ اور دفاعی شعبے میں جاری باہمی تعاون میں وسعت ۔ گزشتہ روزآٹھ معاہدوں کے ذریعے دونوں ملکوں نے یہ فروٹ باسکٹ بیجنگ میں سجائی ہے ۔ ماشاء اللہ ماشاء اللہ ، اللہ پاک چین دوستی کو نظر بد سے بچائے ۔
اسلام آباد اور بیجنگ میں ہو نے والے دوطرفہ تعاون کے یہ معاہدے وزیر اعظم نوازشریف کی حکومت پر چین کے اعتماد کااظہار بھی ہیں ۔جو معاہدے ہوئے ، میاں نواز شریف یہ خواب انتخابی مہم میں اپنی جماعت کے ایجنڈے کے طور پر قوم کو دکھا رہے تھے ۔ بہت واضح ہے کہ چینی سفارتی عملہ اور پاکستان کا دورہ کر نے والے جوچینی وفود ڈیڑھ دو سال سے لاہور آرہے تھے ، ان میں اور میاں صاحب میں باہمی دلچسپی کے مفاد پر ہونے والی بات چیت ہی گزشتہ روز ہونے والے آٹھ پاک چین معاہدوں کا پس منظر ہے۔ امر واقع یہ ہے کہ چینی تو بہت عرصے سے اس کے متمنی تھے کہ وہ پاکستان کی اقتصادی راہداری کا خواب پورا ہونے پر افریقہ اور یورپ کو اپنی نہ ختم ہونے والی وسیع تر مارکیٹ کے طور پر دیکھ رہے ہیں ، جہاں پر امن ، خوشحال اور مستحکم پاکستان نے ہی اپنے دوست کو وہاں پہنچانا ہے ۔
فقیراور اپنے جگر گوشے کے اغوا کے گہرے صدمے میں مبتلاسابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی پنجاب یونیورسٹی شعبہ صحافت میں ہم جماعت تھے ۔ اللہ تعالیٰ ان کے ٹوٹے جگر گوشے کو ان کے اور ان کی پریشان بیگم کے دل میں دوبارہ پیوست کر دے اور متاثرہ فیملی کا لخت جگر جلد سے جلد واپس اپنے گھر میں شاد باد ہو (آمین )۔ یوسف رضا ملک کا وزیر اعظم بنا تو ہم سب کلا س میٹس بہت خوش ہوئے کہ ہمارا یونیورسٹی کا ساتھی ملک کا پہلا متفقہ وزیر اعظم منتخب ہو گیا۔ ہم جماعتوں صالح ظافر ، سر ور منیر راؤ ، راجہ ریاض شکاری، طاہر نسیم ، غزالہ نثار ، فوزیہ اسحاق ، صفیہ چودھری ، ارشاد مرحوم (یمنی گورا ) ، قمر ڈائری ، میاں ثنااللہ ، فوزیہ ثنا ، اسلم ملک ، لوتی بہاولپوری ، مسعود ، آغا منیر ، رضا الحق، احسان اور فوزیہ، شمع اور شعیب بن عزیز جو اپنوں سے زیادہ ہمارا ہم جماعت تھا ۔ معنک پنڈیالوی کو ہی پتہ ہو گا کہ کیوں تھا ؟ یوسف کو وزارت عظمیٰ ملنے پر ہم جب بھی ( ابتداء میں) آپس میں ملے تو فخر و مسرت کے اظہار کے ساتھ یہ توقع کرتے کہ گیلانی متفقہ وزیر اعظم بھی ہے اور آئین اصل حالت میں بحال ہونے پر کچھ نہ کچھ ضرور کر گزرے گا ۔ افسوس کہ یوسف جو اب وزیر اعظم بن چکا تھا کے پورے دور میں ہماری نیک تمناؤں ، خوش فہمیوں اور توقعات پر ایک سے بڑھ کر ایک کرپشن کی خبروں کی گولہ باری ہو تی رہی ۔ ہمارے ہم جماعت نے جو افسوسناک انداز حکمرانی اختیار کیا ، اس پر ہم سب کو یہ فکر ہو نے لگی کہ کسی کو پتہ نہ چلے کہ وزیر اعظم صاحب ہمارے کلاس فیلو رہے ہیں ۔ چینی فروٹ باسکٹ پر اظہار خیال کرتے ہو ئے فقیر کو یہ سب کچھ یوں یاد آیا کہ یہ باسکٹ پانچ سال قبل بھی تیار ہو سکتی تھی ۔ آج پاکستانی اورچینی قوم ان سے لطف اندوز ہو رہی ہوتی اور ہم پھلوں کے باغات کی نئی منصوبہ بندی کر رہے ہوتے ۔ شرط اوّل نیک نیتی ، اس سے تیار ہونے والی پولیٹیکل وِل اور گڈ گورننس کی صلاحیت تھی ، جو نہیں بھی تھی تو اہل نظر پاکستانیوں کی کوئی کمی نہیں ۔پھر ایک سے بڑھ کر ایک ہر شعبے کا ماہر پاکستانی ترقی یافتہ ممالک میں اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھا رہا ہے۔ یہ پاکستان میں حقیقی جمہوری دور شروع ہونے پر اپنے وطن کو بہت کچھ دینے کے لیے آمادہ تھے ، بشرطیکہ حکمران لینے والے ہوتے ۔ آخر اکبر اعظم بھی تو اَن پڑھ تھا ۔اس نے پڑھے لکھے والوں کا ریاستی کام بیر بل ، نو رتن ، ملا دو پیادہ ، ڈوڈی مل اور ایسے ہی علماء و فضلا ء سے لیا ، کیونکہ نیت میں ہر حالت میں ہندوستان میں ایک مضبوط مغل سلطنت کی بنیاد رکھنا تھا ، خواہ راجپوت ہندوؤں میں شادیاں ہی نہ کر نی پڑیں ۔ یوسف رضا گیلانی کے دور میں چینی باسکٹ کیسے سجتی ، جب حج سے بھی اربوں کا سیکنڈل نکل آیا اور اٹھارہویں ترمیم کے بعد بھی کرپشن کا بازار گرم سے گرم ہو تا گیا ۔ چین تو یہ فروٹ باسکٹ اس وقت بھی سجانے کا شدت سے ضرورت مند تھا۔ عبرت ناک مقام یہ ہے کہ یوسف کو اپنے کیے کا کوئی پچھتاوا نہیں۔ وہ آج بھی احتساب سے استثنیٰ کے نشے میں گم ہے۔ اس نے کیا عجب کہا کہ عدالت مجھے سزا دینے کے بعد بھی ترلے کرتی رہی ۔کیا توہین عدالت کے جرم میں سزا یافتہ سابق وزیراعظم اپنے ان ریمارکس سے پھر اسی جرم کے مرتکب نہیں ہو رہے ؟ قانون دان جانے یا عدالت ۔ اللہ خیر کرے۔کرپشن سے یاد آیا کہ چین میں معمولی کرپشن کی سزا موت ہے ۔ کرپشن فر ی ہمارا دوست ایسے وقت میں ہمیں فروٹ باسکٹ پیش کر رہا ہے ، جب ملک کرپشن سے لتھڑا پڑا ہے ۔ ایسا نہ ہو کہ باسکٹ ہمارے لیے بے کار ہو جائے۔ میاں نوازشریف کے ابتدائی عزم و عمل سے تو لگ رہاہے ، وہ ایسا نہیں ہو نے دیں گے ۔ فقیر ان کی جدید قومی انفراسٹرکچر کی اپروچ کا تو ہمیشہ معترف رہا ۔ پچھلے دور میں حسب توفیق ان کی اس قومی سوچ کی ابلاغی حمایت بھی کی۔ اللہ انہیں کامیاب کرے لیکن کرپشن اب ای گورننس کے بغیر ختم نہیں ہو گی جس پر ایک خصوصی اجلاس میاں صاحب ماہرین کے ساتھ کر چکے ،فالو اپ ناگزیر ہے ۔ دورہ چین کے حوالے سے ان کا ایک قابل تحسین فیصلہ یہ ہے کہ انہوں نے مختصر وفد میں بلوچستان کے وزیر اعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک کو شامل کیا۔ واضح رہے کہ بلوچستان کے حوالے سے مکمل پارٹی سپیٹری اپروچ اختیار کیے بغیر نئے پاک چین عزائم کی تکمیل نہ ہوسکے گی ۔ جان کی امان پا کر میاں صاحب سے ایک گزارش اور ، اپنی لاڈلی بزنس ، صنعت کار برادری کے خطرناک لاڈ پیار اور ناز نخروں کو کم نہیں بے رحمی سے ختم کر کے ان سے اتنا ہی ٹیکس لیں اور دیں جتنا قانون کے مطابق بنتا ہے ۔ ملک کو کرپشن فری کر نے کیلئے بھی عظیم دوست چین سے انسپریشن لینے کی ضرورت ہے ۔
تازہ ترین